اُوہ یار...!!اور بھی غم ہیں زمانے میں...

کیاواقعی ہماری قوم کے پاس اِس کے علاوہ کرنے کو کچھ نہیں ہے...؟

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آج کیا چھوٹی چھوٹی باتوں کو اُچھال کر ماحول کو خراب کیا جارہاہے ..... کیاواقعی ہماری قوم کے پاس کسی کی پگڑی اُچھالنے کے اور کچھ کام نہیں ہے ...؟؟جیساکہ پچھلے کئی دِنوں سے ہمارے یہاں یہ ہورہاہے کہ ایک ادارے اور اِس کے افرادکی جانب سے کوئی غلطی ہوگئی ہے یااِس غلطی کی وجہ سے لوگوں کے جذبات کو کوئی ٹھیس پہنچی ہے تو سب ہی اُس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑگئے ہیں جب کہ اُس ادارے اور افراد کی طرف سے معافی بھی مانگ لی گئی ہے مگر اِس کے باوجود بھی ہم ہیں کہ پھرکیوں ...؟اور کس لئے اُس ادارے اور افرادکے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں...؟؟؟

اگرچہ آج ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ اگر کسی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ فوراََ معافی مانگ لے تو ہمارامذہب بھی یہ کہتاہے کہ اُسے معاف کردواور عفوودرگزر سے کام لواگر کسی کی معافی تلافی کے بعد بھی ہم اپنے کسی بغض کی وجہ سے اِس کے خلاف پروپیگنڈاجاری رکھیں تو پھر ہم اپنے ہی مذہب کی تعلیمات اور اخلاق کی دھجیاں خودہی بکھیررہے ہیں تو ایسے میں ،میںایک بار پھریہ کہہ کر آگے بڑھوں گاکہ اُوہ یار...!چھوڑواِن ساری باتوں کو اور بھی غم ہیں زمانے میں ایک یہی نہیں ہے کہ اِسی کو ہی سینے میں دباکر بیٹھ جائیں اوراپنے سارے کام ٹھپ کردیں۔

بہرحال ...!! آج ایسے لگتاہے کہ جیسے ہماری قوم کا ایک ایک فرد حکمرانوں سے لے کر ایک عام پاکستانی شہری تک سب ہی اپنی اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھاچکے ہیں اور سب ہی اپنے تمام مسائل کا حل نکال کر ہرقسم کے جھمیلوںسے فارغ ہوچکے ہیں،اور یوں بھی لگتاہے کہ جیسے میری قوم کے پاس اور کوئی کام ہی نہیں ہے، سوائے اِس کے کہ یہ کبھی کسی کے..؟ تو کبھی کسی کے...؟ مسلے مسائل کو اپنے سر لے کر اِسے رائی کا پہاڑ بناڈالتی ہے، اِس کام کے علاوہ میری قوم کے پاس اور کوئی کام ہی نہیں رہ گیا ہے ، ماضی پر نظرڈالیں تو معلوم ہوگاکہ روس افغان جنگ میں بھی میری قوم کے لوگوں نے ایساہی کیا تھااور کسی کی جنگ کو گود لے کر اپنی جنگ بنالی تھی، تب ہمارے ہی لوگوں نے مذہبی جذبات بھڑکاکر ساری دنیا میں ایساواویلا کیا تھاکہ اُس وقت کے دنیا بھر کے جذباتی مذہبی انتہاپسنداپنااپنابوریابستراسمیٹ کر پاکستان کی جانب رخ کرکے چلتے بنے تھے اوریہ یہاں سے افغانستان میں گھس کر روس سے لڑتے رہے اور بالآخر اِنہوں نے بہادروں کی طرح لڑکر روسیوں کو شک دی اور روس کے خاتمے کے بعدنوبت یہ آگئی ہے کہ اَب یہ لوگ ہم سے ہی اپنی بقاکی جنگ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی شکل میں لڑرہے ہیں ،آج ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ ہم ماضی میں امریکا کے کہنے پر روس افغان جنگ میںفضول میں گودگئے اور روس افغان جنگ کا حصہ بن گئے آج ہم موجودہ حالات وواقعات میں جن ہولناکیوں سے گزررہے ہیں یہ یقینا ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں سے سرزدہونے والی وہ فاش غلطی تھی جس نے ہمیں تباہ وبربادکرکے رکھ دیاہے اوراِسی کے ساتھ ہی اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ آج ہماری ساری قوم اُس غلطی کا خمیازہ اُن ہی شدت پسندوں کی طرف سے اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی اور خون خراب میں نہتے اور معصوم اِنسانوں کے لاشیں اُٹھانے کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ابھی ہماری پاکستانی قوم روس افغان جنگ کے بعد اپنے اُوپر مسلط ہونے والے افغان مہاجرین اور اِن کی شکل میں خودپر گزرنے والے عذاب سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ امریکانے اپنی زمین پر نائن الیون کو دوطیاروں سے تباہ ہونے والی عمارتوں کاالزام بھی افغانستان اور پاکستان میں روپوش ہونے والے افغان اور طالبان انتہاپسندوں کے سربھی دے مارااور امریکا نے ایک فون کال کے ذریعے ہمارے اُس وقت کے آمر جنرل کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر یہ کہتے ہوئے مجبورکردیاکہ اگرہماری اِس مصیبت کے وقت پاکستان نے ہماراساتھ نہ دیاتوپھر پاکستان کو قبل ِ مسیح کے پتھر کے دور میں پہنچادیاجائے گا یوں ہمارے تیزمگر ہر لحاظ سے مصالحت سے کام لینے والے آمر جنرل جواُس وقت پاکستان کے صدر بھی تھے اُنہوں نے بس ایک امریکی کال پر امریکا کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی اور پھر یوں امریکا نے سات سمندر پار بیٹھ کر پاکستان کو زبردستی اپنی جنگ میں فرنٹ لائین کی ذمہ داریاں سونپ دیں ۔

اِس طرح پاکستان آج تک ایک مرتبہ بھر امریکی سازش کا حصہ بن کر اپنا سب کچھ امریکا پر قربان کررہاہے مگر اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی پاکستان کے حصے میں کچھ نہیں آرہاہے ، آج بھی پاکستان جب کبھی پیچھے مڑکر دیکھتاہے تو اِس کے پاس سوائے خالی ہاتھ اور کفِ افسوس کے کچھ نہیں دکھائی دیتا ہے،بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے ، اِس کے علاوہ بھی پاکستانی قوم اور اِس کے حکمران بغیرسوچے سمجھے دوسروں کے معاملے میں چھلانگیں لگانے میں مہارت رکھتے ہیں۔

آج بھی ایسی بہت سی مثالیں موجودہیں جب پاکستانی حکمران اور پاکستانی عوام دنیاکے کسی بھی خطے میں اِنسانوں پر ہونے والے مظالم اور زیاتیوں کے خلاف اپنا دردسمجھ کر چیخ پڑتے ہیں، اِن کے ایسے جذبات اور احساسات پر کبھی کبھی ایسابھی لگتاہے کہ یا تو پاکستانی بہت زیادہ حساس دل ہیں اور یہ عالمِ انسانیت سے بے پناہ محبت کرنے والے کروڑوں اِنسانوں کا وہ ٹولہ ہے جسے عالم اِنسانیت سے بلاکسی غرض اور فائدے کی بے لوث محبت ہے اوریہ لگ بھگ بیس کروڑ اِنسانوں کا یہ ٹولہ عالمِ اِنسانیت کو درپیش مسائل اور اِن کی پریشانیوں اور الُجھنوں کو اپنا محسوس کرکے فوری حل نکالنے کے لئے اپنا تن من اور دھن داؤ پر لگادیتاہے اور بیس کروڑ پاکستانیوں کا یہ ٹولہ دنیا کے کسی بھی مُلک کے اِنسانوں کا کیسابھی معاملہ کیوں نہ ہو مگربیس کروڑ پاکستانی کسی اور کے ایشوزکو بھی عالمی سطح پر ایسے اُجاگرکرتے ہیں کہ جیسے دنیا کے سارے مسئلے اور مسائل اور پریشانیاں اور اُلجھنیں اِن کی اپنی ہیں۔

جبکہ یہاں یہ امرقابلِ ذکر ضرور ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اِس حساسیت اور جذباتیت کو دنیا پاگل پن سے جانتی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا ہماری ایسی حرکات سکنات کو بھی پسندنہیں کرتی ہے اور اِسی وجہ سے دنیا ہمیں جذباتی اورجنونی کہہ کر بھی پکارتی ہے مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ ہم پاکستانیوں کا ہی اعلیٰ ظرف ہے کہ ہم اِنسان و اِنسانیت اور مذہب و ملت کے حوالوں سے عالمِ اِنسانیت کا دردرکھتے ہیں ایک ایسادردجس سے دنیا کے بڑے بڑے امیرترین اور ترقی یافتہ ممالک اور معاشرے کے لوگ بھی خالی ہیں مگر بحیثیت مسلمان اور ایک اللہ عزوجل، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن پریقین رکھنے کی وجہ سے ہم بیشک عالمِ انسانیت کا احترام کرتے ہیں ، ہمارامنشوراور ہمارایہ یقین ہے کہ اِنسان زمین پر امن و آشتی ،اخوت ومحبت ، اتحادویکجہتی، بھائی چارگی اور یگانگت کے لئے پھیلائے گئے ہیں، اِس لئے بحیثیت مسلمان اور ایک پاکستانی کے ہمارایہ ایمان ہے کہ ہمیں دنیاکے لوگ کچھ بھی کہیںمگرہم دنیاکو امن محبت اور بھائی چارگی کا گہوارِ عظیم بناکرہی دم لیں گے۔

ہمیں اِس سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے کہ ہمارے کتنے مسائل ہیں اور ہم کب سے اور کب تک اپنے مسلے مسائل میں گھیرے ہیں اورپریشانیوں میں گھیرے رہیں گے ...؟یہ تو ہم خود بھی نہیں جانتے ہیں مگر بس ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے اندرعالمِ انسانیت سے بے لوث محبت ہے اور ہم ہر مذہب و ملت اور فرقے کی تعلیمات اور رسم ورواج کا بھی احترام کرنااپنے دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق خود پرلازم سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی مذہب اور فرقے کے خلاف کچھ کہنا گناہ تصورکرتے ہیں مگر پھر بھی اگرہماری آہستیوں میں چھپ کر کچھ ناسمجھ قسم کے عقل کے اندھے شیطان کے آلہ ءکار بن جائیں اور کچھ ایسی ویسی حرکت کر بیٹھیں تو اِس سے نہ مسلمانوں کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ پاکستانی کہلانے کے حقدار ہیں کیوں کہ ہم یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ مسلمان اور پاکستانی تو محبت اور بھائی چارگی کو آپس میں پروان چڑھانے والے ہوتے ہیں اِن کا کام لڑائی جھگڑے کرنااور انارگی پھیلانا نہیں ہے بلکہ محبتیں باٹنااور ایک دوسرے اِنسان کی مددکرناہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.