حامد میر حملہ کیس میں آئی ایس
آئی چیف کوملوث قرار دیکر آئی ایس آئی کیخلاف مذموم پراپیگنڈہ مہم کے نتیجے
میں عوامی نفرت سے دوچاراور وزارت داخلہ کی جانب سے تادیبی کاروائی کیلئے
پیمرا میںدرخواست کا شکار ہونے والے جیو نیوز کے ستارے کچھ گردش میں ہیں یا
ان غلطیوں کے پیچھے کوئی خاص مقصد ' تحریک یا سازش پنہاں ہے تب ہی تو جیو
نیوزایک کے بعد ایک غلطی کا ارتکاب کرکے وجہ تنازعہ بن رہا ہے حالانکہ
جیونیوزگھاگ افراد پر مشتمل ملک کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤس ہے جس میں موجود
افراد طویل صحافتی تجربے اور ہمہ اقسام وسائل سے مالا مال ہیں اور ہر
پروگرام بڑی عرق ریزی کے بعدلکھا ' فلمایا اور پیش کیا جاتا ہے مگر اس کے
باجود آئی ایس آئی کیخلاف جیو کا پراپیگنڈہ اوراس کے نتیجے میں جیوکے خلاف
عوامی اشتعال جبکہ حکومت کی جانب سے عوامی اور عسکری حمایت کی بجائے جیو کی
صفوں میں موجودگی نے جہاں حکومت و فوج کے درمیان خلیج حائل کی وہیں ملکی
سیاست میں جمہوریت مخالفوں کو تقویت دیکر آمریت پسندوں کی تعدادمیں اضافے
کے اسباب بھی پیداکئے اورعوام و خواص کے ساتھ صحافتی برادری کو بھی دو
گروپس میں بانٹ دیا ایک گروپ جمہوریت پسندوں کاحامی اور جیو کیخلاف تادیبی
کاروائی کامخالف بن کر صحافتی آزادی کا علم تھام بیٹھا تو دوسرا گروپ حب
الوطنی و قومی مفادات کو فوقیت قرار دیکر مخالف سمت کا راہی ہوا یوں جیو کی
اس غلطی نے صحافتی شعبے میں صحافتی آزادی اور قومی مفادات کو علیحدہ علیحدہ
معاملات قرار دلادیا یعنی صحافت قومی مفادات کے مخالف اور قومی مفادات
صحافت کے دشمن ٹہرے اور اب جیو نیوز پر ڈاکٹرشائستہ واحدی کے مارننگ شو ''اٹھو
جاگو پاکستان '' میں وینا ملک اور ان کے شوہر کی شادی کی ''ڈیکور''تقریب
میں پیش کی جانے والی قوالی کو جس سیاق وسباق میں پیش کیا گیا وہ اہل بیت
سے محبت کرنے والوں کی دلآزاری کا باعث بن کر جیو نیوز کیخلاف مزید نفرت و
احتجاج کا ہی باعث نہیں بنا بلکہ تفرقوں میں بٹی اُمت کے مذہبی قائدین میں
اختلافات کو بھی مزید ہوا دینے کا باعث بن گیا کیونکہ ایک طبقہ فکر جیو
نیوز کی اس حرکت پر اس کیخلاف تادیبی کاروائی کامطالبائی ہے تو کچھ مذہبی
قائدین جیو نیوز کی جانب سے اس معاملے پر معافی کی طلبے کے باعث اس معاملے
کو رفع دفع کرنے کے تمنائی ہیں جس سے مذہبی قیادت ایکبار پھر دو الگ الگ
سمتوںمیں بٹتی دکھائی دے رہی ہے جو یقینا کسی بھی طور ملک و ملت کے مفاد
میں نہیں ہے گوکہ اس بار پنجاب اسمبلی نے سب سے پہلے جیو نیو ز کی اس حرکت
کیخلاف مذمتی قرارداد پاس کرکے اپنی ایمانیت و حقانیت کاثبوت دینے کی کوشش
کی ہے مگر پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ کی جانب سے جیوکی معافی اور
معاملے کے خاتمے کے حامیوں کو جید علماء کی رائے قرار دینے سے عوام پنجاب
اسمبلی کی قراردادکو''یزید سے بھی دوستی حسین کو بھی سلام ''کے مترادف قرار
دے رہے ہیں اسلئے اب یہ بات ضروری ہوچکی ہے کہ میڈیا کے کردار واختیارکے
حوالے سے ایسی پالیسی تشکیل دی جائے جس سے اس قسم کے واقعات کا تدارک ممکن
ہوسکے جن سے اختلافات اور تصادم کا خدشہ و خطرہ ہو اور مغربی تہذیب وتمدن
سے مشرقی اقدار کو خطرات کا شکار کرنے والوں کو بھی لگام ڈالی جائے کیونکہ
ہماری تہذیب ہی ہمارا اثاثہ ہے اور جو اس اثاثے کونقصان پہنچائے وہ نہ تو
محب وطن ہے اور نہ ہی مومن ہوسکتا ہے ! |