ایک معاملہ جو آج کل ہر جگہ
موضوع بحث بنا ہو ا ہے وہ ہے عمران خان کی طرف سے ڈی چوک میں کیا جانے والا
اختجاج جس پر حکومت کا کہنا ہے کہ لوگ کم تھے لیکن حقائق چھپائے نہیں چھپتے
عمران خان نے گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کا زمہ دار برہ راستکرکٹ بورڈ کے
چیر مین کو ٹھرا دیا اور پینتیس پنکچر لگانے کی بات بھی سر عام ہی کہہ ڈالی
اس سے بڑھ کر انھوں نے اس نیوز چینلز کے خلاف بھی بیان دے دیا جس کو
پاکستان کا سب سے مضبوط اور اثر رسوخ والا نجی نیز چینل سمجھا جاتا ہے اس
میں کوئی شک شبہ نہیں کہ حامد میر صاحب نے جب اپنے اوپر ہونے والے قاتلانے
حملے کا الزام آئی ایس چیف نے لگایا توان کا سارا گروپ یک زبان ہو کر آرمی
چیف اور ملک کے احساس ادارے کے پیچھے پڑ گیا ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر
ریٹنگ بڑھانے کے لیے وہ الفاظ استعمال کیے گئے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ
پروپگنڈا پاکستان سے نہیں بلکہ انڈیا سے کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ معاملہ
حل ہونے کے اور بہت سارے طریقے موجود تھے اب جب عمران خان نے انتخابی
دھاندلی کا زمہ دار ٹھہرا کر جیو اور جنگ کے باہیکاٹ کا اعلان کر دیا تو
سارا جنگ اور جیو عمران خان کے پیچھے پڑ گیا میڈیا کی آزادی پر ہم سب یقین
رکھتے ہیں لیکن کیا میڈیا اتنا بھی آزاد ہو سکتا ہے کہ جب چاہیے کسی کی
پگڑی اچھالے اس کا اندازہ نہیں تھا لیکن جو صورتحال چل رہی ہے اس ملک کے
لیے کسی صورت اچھی نہیں ہے تازہ اطلاعات ہیں کہ فیصل آباد میں ہونے والا
تحریک انصاف کا احتجاجی جلسہ جو 23مئی کو ہونا تھا اب 25مئی کو ہو گا اور
جس طرح عمران خان نے ڈی چوک بھر کر اپنا دعوہ سچ کر دیکھایا اگر اس ہی طرح
یہ احتجاج تحریک پورے پاکستان میں چل نکلی تو سیاسی منظر نامے پر بڑی
تبدیلیاں آ سکتی ہیں اور عمران خان کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ پاکستان کے
کسی بھی شہر میں احتجاجی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرے کیا 35پنکچروں کی حقیقت
معلوم ہو سکے گئی ؟ عمران خان کے بتائے ہوئے 4حلقوں میں انگھوٹے کی نشانات
چیک کیے جائیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھوں نے حکومت کا چین و سکون چھین
رکھا ہے عمران خان کا ڈی چوک پر اپنے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ آج سے
دھاندلی کی حکومت کے خلاف فیصلہ کن راونڈ کھیلیں گے اس ساری صورت حال کے
بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور حکومت مخالف اپوزیشن جماعت تحریک انصاف
میں اپنی اپنی ہم خیال جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لئے مقابلہ شروع ہو گیا ہے
اور آنے والے چند دنوں میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ایک گرینڈ آلائنس وجود
میں آنے کے امکان پیدا ہو گئے ہیں لیکن حکومت نے اپوزیشن کے متوقع گرینڈ
آلائنس کو ناکام بنانے کے لئے حکمت عملی طے کر لی تاہم اس وقت حکمران جماعت
اور تحریک انصاف دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے مستقبل کی حکمت عملی بھی طے
کرنا شروع کردی ہے حکومت نے اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کو ناکام بنانے کے
لئے ہم خیال جماعتوں کے ساتھ ملکر اہم عوامی فلاحی منصوبوں پر کام شروع
کردیا ہے۔
وزیراعظم اور حکمران جماعت کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے پاکستان تحریک
انصاف کے چیرمین عمران خان کے گیارہ مئی کے کامیاب جلسے اور 25مئی کو پھر
فیصل آباد میں حکومت کے خلاف اعلان کردہ جلسے پر اپنی حکمت عملی طے کرنے کے
لئے ہم خیال جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور اس سلسلے
میں انہوں نے اپنی پارٹی کے اہم وزراء اور راہنماؤں کو بھی اندرون خانہ ذمہ
داریاں سونپی شروع کر دی ہیں کہ وہ بھی ملک کی دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں
کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کرکے اس میں ہونیو الی پیش رفعت کے بارے خاص
دھیان رکھیں دوسری جانب وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے کراچی کے دورے میں
پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کو بطور خاص امن
و امان کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس میں اپنے ساتھ صدارتی نشست پربٹھا کر
یہ پیغام دیا ہے کہ پیپلز پارٹی مکمل طور پر انکے ساتھ ہے اس کے علاوہ اے
این پی اور جماعت اسلامی کو بھی ساتھ ملانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جبکہ
مسلم لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی اپنے معاملات طے کررہی ہے تاکہ ایم کیو
ایم کی بھی سپورٹ کو حاصل کیا جا سکے دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئر مین
عمران خان خود اور انکے ساتھ مخدوم جاوید ہاشمی ‘ مخدوم شا ہ محمود قریشی ‘
جہانگیر ترین ‘ میاں خورشید محمود قصوری اور شیخ رشید احمد اپوزیشن کی
جماعتوں کے ساتھ رابطوں کو تیز کررہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ دیگر
اپوزیشن جماعتوں کو تحریک انصاف کے فیصل آباد میں 25مئی کو ہونیوالے
احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی دعوت بھی دی جائے گی مسلم لیگ (ق) نے باضابطہ
طور پر تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کی حمایت کردی ہے جبکہ عوامی تحریک
بھی اپوزیشن کی تحریک میں شامل ہو چکی ہے اس لئے اسمبلی میں موجود ایم کیو
ایم ‘ اے این پی اور جماعت اسلامی کا رول اس وقت اہم نوعیت کا حامل بن چکا
ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے کھلم کھلا حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اس طرح
سے ایک حد تک حکومت کو کامیابی مل چکی ہے کیونکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی
جماعت حکومت کے ساتھ ہے الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے چکر کاٹ کر ایک سال کے
بعد عمران خان کارکنوں کو لے کر سڑکوں پر آ رہے ہیں گرما گرم سیاسی ماحول
سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کے لئے پی ٹی آئی کے ورکر اور لیڈر لوہے
کے چنے ثابت ہو رہے ہیں جن کو چبانا آسان نہیں ہے نوجوان عمران خان کی طاقت
ہیں اور اس طاقت کا ستعمال کر کے عمران خان سیاسی منظر نامہ تبدیل کر سکتا
ہے۔ |