قومی اسمبلی کی انکوائری کمیٹی
نے تو جمشید دستی کے تمام تر الزامات مسترد کردئیے اس کا مطلب ہے تمام کے
تمام ارکان ِ اسمبلی ’’حاجی لق لق‘‘ ہیں۔۔۔ان سے اچھے تو مرزا غالب تھے
جنہوں نے کہا تھا
قرض کی پیتے تھے اور اس سوچ میں گم تھے
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی الٹا عدم ادائیگی کے باعث ان پر قرض خواہوں نے
مقدمہ کردیا مرزا غالب کو ایک انگریز مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا حالات
وواقعات سننے کے بعد انگریز مجسٹریٹ فیصلہ سنانے لگا تو مرزا غالب نے اس سے
کہا تسلیم کرتاہوں میں نے قرض دیناہے لیکن جناب مجھ سے کچھ رعائت برتی جائے
کیونکہ میں آدھا انگریزہوں۔۔۔۔ مجسٹریٹ نے تجسس سے دریا فت کیا ۔۔وہ کیسے؟
میں شراب پیتاہوں مرزا غالب نے اطمینان سے جواب دیا سو ٔ رنہیں کھاتا ۔۔ یہ
سن کر وہ بے ساختہ ہنس دیا اور مرزا غالب کو قرض چکانے کیلئے مزید مہلت
دیدی۔۔۔ہمارے ملک کے کئی مے نوش اس لئے اتراتے پھرتے ہیں کہ وہ آدھے
انگریزہیں اگر وہ ارکان ِ اسمبلی ہوں تو پھر سونے پر سہاگے والی بات ہوئی
نا۔۔ویسے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ایم این اے جمشید دستی نے
پارلیمنٹ لاجزمیں شراب و شباب کی محفلیں اورمجروں کی بات کرکے اقتدارکے
ایوانوں میں تھر تھلی مچادی ہے جس پر اب وضاحتیں پیش کی جارہی ہیں البتہ
وزیر ِ اعظم کی طرف سے ابھی تک کوئی رد ِ عمل کااظہارنہیں کیا گیا کچھ اندر
کے لوگوں کا کہناہے کہ وہ لوگ بھی شراب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جو پانی کی
طرح پیتے ہیں
غالباً ایسی ہی صورت ِ حال پر غالب نے ہی کہا تھا
یہ مسائل ِ تصوف اور تیرا بیان غالب
ہم تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوارہوتا
کہتے ہیں ایک لڑکی کی شادی ہوئی وہ 15دنوں بعد میکے آئی اور آتے ہی دھاڑیں
ما مارکر رونا شروع کردیا ماں باپ نے پریشان ہوگئے
’’مجھے آپ نے کس کے پلے باندھ دیا؟
’’آخرہوا کیاہے؟ ماں نے پو چھا
’’میرا خاوند بہت بڑا شرابہ ہے۔۔۔لڑکی نے آنسو پوجھتے ہوئے جواب دیا
’’تجھے اب اپنے دنوں بعد پتہ چلاہے۔۔ باپ نے سخت لہجے میں کہا
’’ہاں۔۔لڑکی نے روتے روتے کہا کیونکہ آج وہ پئے بغیرگھر آگیا تھا ۔۔۔کہتے
ہیں پاکستان میں روزانہ کروڑوں کی شراب پی جاتی ہے اور پینے والوں میں ہر
عمر ہر جنس کے لوگ شامل ہیں راولپنڈی کی ایک شراب سازفیکٹری دن رات دھرا
دھڑ شراب تیار کررہی ہے۔۔ سالانہ کروڑوں اربوں کی ولایتی شراب بھی امپورٹ
کی جاتی ہے سمگل ہوکر آنے والی بڑی کھیپ الگ ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں
غیر قانونی طور دیسی شراب بھی ٹنوں کے حساب تیار اور فروخت ہوتی رہتی ہے
کچی شراب پینے سے ہر سال سینکڑوں افرادکی ہلاکت کے باوجودقانون وقتی
طورپرحرکت میں آتاہے اور کئی پولیس اہلکاروں کو مالامال کرکے پھر سو جاتاہے
شنیدہے کہ پاکستان میں ویلنٹا ئن ڈے،ہیپی نیو ایئر،کرسمس، بسنت اور عیدین
جیسے تہواروں پرشراب کی کھپت میں اضافہ ہو جاتاہے شاید پینے والے یہ سوچ کر
پیتے ہیں
آگے چل کر حساب ہونا ہے
اس لئے بے حساب پی لیجئے
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب نے حرمتِ شراب کا جو حکم دیا ہے و ہ سر
آنکھوں پر ! لیکن یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے شراب ۔۔۔شراب ہوتی ہے اور یہ
ہمیں تو کچھ نہیں کہتی ۔۔۔لیکن وہ یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اس
ملک کے ایک سابق وزیر ِ اعظم نے بھی’’ پینے‘‘ کا بر ملا اعتراف کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ۔۔۔ہاں پیتاہوں۔۔۔ تھوڑی سی پیتا ہوں۔۔۔قوم نے ان کی اس غلطی کو
معاف نہ کیا
یہ اپنی مستی ہے جس نے مچائی ہے ہلچل
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
کا عقیدہ رکھنے والے یقینا غلطی پر ہیں مذہب، اخلاق، قانون اور معاشرہ اس
بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مسلمان شرابی ہو،ارکان اسمبلی تو پھر عوام
کے منتخب نمائیدے ہیں جن کا کردار رول ماڈل ہونا چاہیے جمشید دستی نے
پارلیمنٹ لاجزمیں شراب و شباب کی محفلوں اورمجروں کا انکشاف کیا تھا اس پر
لے دے ہی کافی نہیں صاف، شفاف ،غیرجانبدار طریقے سے ان الزامات کی تحقیقات
ہونی چاہیے تھی لیکن انکوائری کمیٹی نے تو جمشید دستی کے تمام تر الزامات
مسترد کردئیے ہیں اس کا مطلب ہے تمام کے تمام ارکان ِ اسمبلی ’’حاجی لق لق‘‘
ہیں ایک اہم بات یہ ہے پارلیمنٹ لاجزسے شراب کی ڈھیروں بوتلیں ملنے کا مطلب
ہے یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں جتنا نظرآرہاہے اس لئے مٹی پاؤ والا فلسفہ
کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہوگا اسلام کی حد اورپاکستان کے آئین کی روشنی میں
ایسے تمام ارکان ِ اسمبلی کو نااہل قرار دینا سپیکر قومی اسمبلی کی اخلاقی،
قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ جیسے قانون ساز ادارے میں
شرابیوں کی موجوگی خطرے کی گھنٹی ہے یہ بااثر لوگ یقینا کبھی ملک میں
اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں ہونے دینگے ان کی موجودگی 18کروڑ عوام کی توہین
اور اسلامی تعزیرات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔۔جمشید دستی نے جو کچھ
کہا۔۔عوام نے جو کچھ سنا۔ کیا سپیکر قومی اسمبلی سچ بتانا پسند کریں گے؟
ادھورے سچ قوم کوکبھی قبول نہیں کرے گی عوام سچ اور صرف سچ جاننا چاہتے ہیں
۔ |