جمہوریت کی باد سموم

خیال کرنا جرائم ، لوٹ مار، گینگ ریپ، لاقانونیت، عدم تحفظ، قتل و غارت گری کے خلاف زبان نہ کھولنا کہیں ایسا نہ ہوکہ جمہوریت ڈی ریل ہوجائے۔ پاکستان کی اس جمہوریت پر قربان جائیں کہ جس نے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کو قوی سے قوی تر، امیر سے امیر تر، ظالم سے اظلم بنایا۔ اسی جمہورت کے طفیل انکے وارے نیارے ہیں۔ جب ملکی خزانے میں لوٹ مار کے لیئے کچھ نہیں رہتا تو یورپ اور آئی ایم ایف سے قومی ترقی کے منصوبوں کے نام پر اربوں کھربوں ڈالر لیکرجمہوری حیلے بہانوں سے سوئز بنکوں اور دیگر غیر ملکی بنکوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ عوام جمہوری قرضوں تلے تادم زیست نسل در نسل دبے رہتے ہیں۔ دولت کے پجاری اقتدار کی باری بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ نورا کشتی بھی ہوتی ہے۔ عوام کی حالت سے کسی کو سروکار نہیں ۔ پہلے سنا جاتا تھا کہ ایک زرداری سب پر بھاری(لوٹ مارمیں) مگر اب تو جمہوریت کے سینچے ہوئے انڈوں سے مربوط خاندانوں نے جنم لے لیا۔ ایوانہائے اقتدار یعنی پارلیمنٹ تک رسائی سبھی کے ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ حکومت سازی کے اصل مقاصد سے انہیں کوئی غرض ہوتی وہ صرف اپنے مخصوص ایجنڈے یعنی حصول دولت کو مدنظر رکھتے ہوئے حلال و حرام کی تمیز سے بالا تر ہوکر اپنے پاکستانی جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اپنے فرائض منصبی سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ یہ جمہوری حق ہے۔ آئین کو صرف اپنے تحفظ کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مروجہ نظام جمہوریت ہے کہ نااہل، لٹیرے، بدکردارخود غرض دولت کے بل بوتے ایوانہائے اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹ بن کر ملک میں فحاشی اور بدکرداری کو فروغ دینا بھی ان کا جمہوری حق ہے۔ ایک آدمی سڑک کنارے سرراہ اپنی تکلیف دور کرنے بیٹھ گیا۔ کسی شریف آدمی نے اسے کہا کہ شرم کروعورتیں، لڑکیا ں بھی گذر رہی ہیں تو اس نے کہا کہ یہ سڑک کسی کے باپ کی نہیں میرا بھی حق ہے۔ کوئی آدمی سڑک درمیان گاڑی کھڑی کرے تو یہ اسکا جمہوری حق ہے، مارکیٹ والے دکانوں کی صفائی کرکے سارا کوڑا نکاسی آب کی نالی میں ڈال کر اس بند کردیں تو یہ انکا جمہوری حق ہے، کسی وزیر ،وزیر اعظم کے گذرنے پر عوام کے لیئے سڑک بند کردینا بھی انکا جمہوری حق ہے، عوامی ترقیاتی منصوبے مثلا بجلی پیدا کرنے کے نام پر رقم کھانا، میٹرو بس منصوبے سے کنبے کو نوازنا، سود اور بغیر سود کے قرضوں سے اندھا اگر ریوڑیاں اپنوں میں ہی بانٹے تو یہ اس کا جمہوری حق ہے ۔ اگر پاکستانی ٹی وی چینل مخرب الاخلاق اور نظریہ پاکستان کے خلاف اشتہارات و پروگرام چلائیں تو یہ بھی آزاد جمہوری صحافت کا حق ہے، اگر کوئی پاکستان کے دفاع پر ضرب یا نقب لگائے تو یہ اسکا صحافتی حق ہے۔ ملک میں جہاں کوئی چاہے درجنوں لاشیں گرادے یہ اس کا جمہوری حق ہے۔ اگر کسی کو کوئی عورت پسند آجائے اور وہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالے تو یہ بھی اسکا جمہوری حق ہے۔ اسی طرح ایک خبیث چینل اگر مسلمانون کی ایمانی اساس کے تقدس کو پامال کرے تو یہ بھی اس کا جمہوری حق ہے۔شعائر اسلام اسد اﷲ حضرت علی کرم اﷲ وجھہ اور جنت کی عورتوں کی سردار کی شان میں لکھے گئے الفاظ کا فاحشہ اور کنجروں کے لیئے استعمال کرنا ساری امت کو برا لگا مگر حکومت پاکستان کو برا نہ لگا۔ کیونکہ ×××× کی محفل میر شکیل الرحمن کی سرپرستی میں لگی۔ قارئین کرام ! یہ کیسی جمہوریت ہے۔ جہاں انسانیت مظلوم ہے۔ جہاں دودھ کی رکھوالی کے لیئے بلے رکھے ہیں۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے کہ جسکے بارے قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہے (اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ 1943 )مارچ 1944 کو فرمایا ہمارا رہنما اسلام ہے اور یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے۔

پاکستان بننے کے بعد پاکستانی افسران کے کان کھولے کہ دس سال ہم جس مملکت کی تخلیق کے لیئے کوشاں تھے خدائے بزرگ و برتر کی مہربانی سے اب وہ حقیقت بن چکی ہے۔ اب پاکستان کا مقصد ہمارے لیئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم نے ایک ایسی ریاست بنائی ہے جس میں آزاد افراد کی طرح رہ سکیں ، اپنی تہذیب و ثقافت کو ترقی دے پائیں اور اسلام کے اجتماعی نظام عدل کے اصولوں پر عمل پیرا ہوسکیں۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے کہ جس کے بارے قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہا ں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔حضرت کے ان فرامین کامیں نے یہا ں حوالہ صرف اس لیئے دیا کہ جو قوتیں یعنی ٹی وی چینلز اور اخبارات کفار کے ایجنٹ بن کر اس ملک کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرچکے ہیں۔ کوئی شریف آدمی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کوئی ٹی وی نہیں دیکھ سکتا۔ اگر آپ خبریں سننا چاہیں تو آپ کو زبردستی نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی غیر اخلاقی حرکات بھی دیکھنی پڑیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ معا شرہ اپنی اخلاقی و مذہبی قدریں کھو چکا ہے۔ آئین پاکستان کی پہلی خلاف ورزی کے مرتکب ہمارے حکمران ہیں کہ قرآن و سنت کا نظام نافذ نہیں کرتے۔ عورتوں کو حکم ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور اگر بوقت ضرورت نکلنا پڑے تو نقاب یعنی پردہ میں نکلیں(احکامات سورۃ احزاب)۔ جب لڑکیا ں آزاد پھریں گی اور موبائل ہروقت انکے کان کے ساتھ ہوگا تو پھر ایبٹ آباد جیسے واقعات پاکستان کی جمہوریت کی عکاسی کرتے رہیں گے۔ دینی تعلیمی مراکز میں کچھ ایسے بھی ہیں جو درون خانہ می روند کار دیگر می کنندکے مصداق صرف ز کے طلبگار ہیں۔ جتنی جس کی ہمت ہے اتنا کچھ ہی کرتا ہے۔ کوئی رکن اسمبلی بنتا ہے، کوئی مولوی محض ناجائز ذرائع سے دولت کے حصول کے لیئے وزارت کا طلبگار ہے۔ کچھ بھی مل جائے ۔ نئی لینڈ کروزر مل جائے۔ کشمیر کے کاز سے کوئی دور کا واسطہ نہ ہے مگر کشمیر کمیٹی کی صدارت ہی سہی۔مادر پدر آزاد جمہوریت میں کیا کچھ نہیں ہورہا۔ قانون پر عمل درآمد کب ہوا؟ کب کسی کو سزا ملی۔ جو عورت یا نوجوان لڑکی اکیلی آزاد پھرے اسے بھی تعزیراتی سزا ملے۔ جو والدین اپنی اولاد کو اس قدر آزادی دیں کہ وہ معاشرے پر منفی اثرات ڈالیں تو انہیں بھی تعزیراتی سزا ملنی چاہیئے۔ لیکن میری ان باتوں پر کون عمل کرائے؟ اس حمام میں تو سارے ننگے ہیں۔ کیونکہ یہ جمہوری نظام ہے۔ پالیمنٹ لاجز میں کیا کچھ نہیں ہوتا مگر محترم دستی صاحب سوائے شراب کی خالی بوتلوں اور گندگی کے کیا پیش کرسکتے ہیں۔ اﷲ کا خوف اور نظریہ آخرت ہوتو ہمارے ارباب اختیار کی اصلاح ہو۔ میں یہ واضح کردو ں کہ جب مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت کھو دیں ، غیر اخلاقی اور بے حیائی کی انتہا ہوجائے تو کسی ظالم اور غیر قوم کی غلامی کا جوا گلے میں پڑتا ہے جو انکے سامنے ان کی محرمات کی عصمت دری کرتے ہیں اور انکے اثاثوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے کتوں کی رکھوالی کے لیئے رکھتے ہیں۔ میں پھر حسب عادت علما و مشائخ اور قوم کے دانشوروں سے کہوں گا کہ سنبھل جاؤ اور قوم کو سنبھالواس سے پہلے کہ اﷲ تعالی کوئی عذ اب نازل کردے۔لوٹا ہوا مال واپس کرو۔ عدل کرو، پاکستان کو پاک بناؤ، میں اپنے ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ شعائر اسلام کی تعظیم مسلمانوں پر واجب ہے ۔صحابہ کرام اور اہلبیت کرام رضی اﷲ عنھم سے بڑھ کر کون شعائر اسلام ہے؟
خادم اسلام غلام اہلبیت و صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128247 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More