چونتیس برس سے زمبابوے ابدی ڈکٹیٹر روبرٹ موگابے کی آہنی
گرفت میں ہے،بین الاقوامی تنہائی کے علاوہ ملکی معیشت مکمل طور پر تباہ
ہونے سے قحط پڑ چکا ہے لیکن وہ آج بھی اقتدار پر قابض ہے۔انیس سو اسی میں
خونی جھڑپوں اور بے رحمانہ قتل وغارت کے بعد اپنے آپ کو سیاسی تجربہ کار
اور آعلیٰ سیاست دان کی حیثیت سے شاندار قیادت اور خصوصیات کا حامل سمجھ کر
وہ زمبابوے پر قابض ہوا تھا ۔
بعض ناقدین کی رائے ہے کہ مذموم ڈکٹیٹر موگابے میں تبدیلی اسکی پہلی بیوی
کی موت کے بعد واقع ہوئی جو اسکی پہلی محبت کے علاوہ اسکی دوست اور مشیر
بھی تھی اسکی موت کے بعد موگابے نے دوسری شادی اپنے سے اکتالیس سال کم عمر
کی سیکریٹری گریس سے کی جو وسیع پیمانے پر شوپنگ کرنے سنگاپور ، لندن اور
پیرس جایا کرتی جسے بعد میں عرفِ عام میں گوچی گریس کا لقب دیا گیا ۔
سفارتی حلقوں میں چہ مگوئیاں کی جارہی ہیں کہ موگابے کی صحت کافی عرصہ سے
خراب ہے اور اسے پرو سٹیٹ Prostateکینسر ہے اپنی نوے سالہ سالگرہ منانے سے
قبل طبی علاج کے لئے سنگاپور بھی گیا تھا ،قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمر
رسیدہ اور بیمار ہونے کے باوجود موگابے کی لطیفے سنانے اور مذاق کرنے کی
عادت ختم نہیں ہوئی خاص طور پر صحافیوں کے سامنے اپنے پسندیدہ دشمن سابق
برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلئیر کے بارے میں کہتا ہے ’’ ان کے خیالات ہمیشہ
منفی ہیں کیا وہ مثبت رائے نہیں دے سکتے ؟اگر موگابے چور ڈاکو ہے تو یہ بات
درست ہے لیکن اگر موگابے سچ اور حق کی بات کرتا ہے اور ٹونی نہیں تو پلیز
یہ بھی کہا کرو کہ ہاں موگابے تم ٹھیک کہتے ہو ‘‘۔سفارتی حلقوں کا کہنا ہے
اکثر کسی بات پر خوش ہوتا ہے تو سب کے سامنے بے دھڑک کہتا ہے ۔ موگابے خوش
ہوا ۔لیکن زمبابوے کی عوام اب اس کے کسی لطیفے یا مذاق سے لطف اندوز نہیں
ہوتی کیونکہ ان کا ملک اب تنہائی کا شکار اور بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ
ہو چکا ہے معیشت زمین سے لگ چکی ہے بے روزگاری مزید بڑھ گئی ہے دو میلین سے
زائد لوگ زندہ رہنے کے لئے عالمی بھوک کی تنظیم WHAکی امداد کے منتظر رہتے
ہیں لاکھوں لوگ مصائب سے تنگ آکر ملک سے فرار ہو رہے ہیں ۔یورپی یونین کے
سفیر کا کہنا ہے زمبابوے کا مستقبل نہایت تشویش ناک ہے ، اقتصادی ، معاشی
اور سماجی حالت خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے اور آنے والے وقت میں اس ملک کے
حالات مزید خراب ہونگے ۔
منفی پیشن گوئیوں کے برعکس موگابے نے اپنی سالگرہ بڑی شان و شوکت اور عظیم
الشان طریقے سے منائی،اس کی پارٹی نے ایک بڑے سٹیڈیم میں تکے کباب ، کیک ،
میوزک اور رنگ برنگے نیم برہنہ ناچ گانے کے شو کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا
اور اسکی پارٹی ممبران نے پہلے سے تیار شدہ تقاریر بھی صحافیوں کو دکھائیں
کہ ہمارا صدر ہمیشہ سلامت رہے ہماری نیک خواہشات اسکے ساتھ ہیں اور امید
کرتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں وہ جیتیں اور دوبارہ ہمارے صدر بنیں۔
موگابے کی سالگرہ سے پہلے ہی دو تحائف اسے دے دئے گئے تھے نمبر ۔1 ۔یورپی
یونین نے زمبابوے کے خلاف پابندیوں میں نرمی کی ہے نمبر ۔2۔اس کے قریبی
حلقے سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد کو یورپ میں داخلے کی اجازت بھی دے دی
گئی تاہم موگابے اور اسکی بیوی پر پابندی برقرار رہے گی ۔ وہ اپنی سالگرہ
پر بہت خوش تھا کیونکہ ابھی تک سب کچھ اس کے آہنی ہاتھوں میں ہے لیکن یہ
بات بھول جائے کہ اس کی قوم کے ہونٹوں سے یہ لفظ ادا ہوگا کہ ہیپی برتھ ڈے
موگابے ۔ وہ اپنے قریبی لوگوں کو لطیفے سناتا رہے گا یا ان کی چکنی چپڑی
باتیں سن کر یہ کہتا ہوا ایک دن اوپر نکل جائے گا کہ ۔ موگابے خوش ہوا۔۔۔۔۔
لیکن پاکستانی ڈکٹیٹر تو ایسے نہیں تھے جیسے موگابے ہے ،انہوں نے قوم کو
بھکاری تو نہیں بنایا تھا بھکاری تو جمہوریت کا بینجو بنانے والے بچے
جمہوروں نے بنایا ہے جب جب یہ لوگ ملک کے مالک بنے ،جمہوریت کی دھجیاں اڑا
دی گئیں ،جوبھی آیا جمہوریت اور مذہب کی آڑ لے کر ملک اور قوم کا ستیاناس
کیا ،چار چھ ماہ میں قوم ان سے اتنا اکتا جاتی ہے کہ کہ پھر سڑکوں پر نکل
کر پاک فوج زندہ باد کے نعرے مارتی ہے ۔قوم کو دونوں صورتوں میں چاہے وہ
جمہوریت ہو یا آمریت دکھوں، مسائلوں، لاقانونیت اور بھوک ننگ کا ہی سامنا
کرنا پڑتا ہے، کیونکہ جب ڈکٹیٹر کرسی سنبھالتا ہے تو یہ نام نہاد سیاست دان
اسے ٹھونگے مار مار کر کرسی سے گھسیٹ کر نیچے گرا دیتے ہیں اس وقت وہ ایک
ڈکٹیٹر ہوتا ہے پاک فوج کا نمائندہ نہیں اس کے خلاف اتنا کیچڑ اچھالا جاتا
ہے کہ وہ اسی کیچڑ میں ڈوب مرنے کی جگہ تلاش کرتا ہے ، اور جب یہ قوم نام
نہاد سیاست دانوں سے عاجز ہوجاتی ہے تو پھر فوج کے نعرے مارتی ہے کیا اصول
ہے، کیا اتحاد ہے ، کیا یقینِ محکم ہے ، کیا ڈسپلن ہے ؟کیا یہ قوم اس سچائی
سے آشنا ہے کہ انہیں گندے نالوں اور گٹروں کا گدلا پانی پلانے والوں کے لنچ
اور ڈنر فرانس سے سپیشل فلائٹس سے آتے تھے ، لاکھوں ڈولرز کے زیورات اور
ملبوسات ان کی بیگمات اور اولادیں زیب تن کرتی ہیں جبکہ قوم کے پاس تن
چھپانے کیلئے ایک دھجی تک نہیں ، قوم کے پاؤں میں جوتی نہیں اور ان نام
نہاد سیاست دانوں نے ہزاروں ڈولرز کے کف لنکس(بٹن) پہنے ہوتے ہیں ، ایک
غریب دن رات محنت کر کے بچوں کی تعلیم اوران کی شادی بیاہ کے اہتمام کے لئے
تمام عمر ایڑیاں رگڑ رگڑ کا چند روپے جمع کرتا ہے اور قانون نہ ہونے لیکن
جمہوریت ہونے سے کوئی بھی لچا لفنگا چرسی بھنگی دس منٹ میں گھر کا صفایا کر
کے اس غریب کی جمع پونجی لوٹ کر فرار ہو جاتا ہے جبکہ یہ سیاست دان صندوق
بھر بھر کر غریب عوام کی مال ودولت بیرون ملک منتقل کرنے میں ہمہ تن گوش
رہتے ہیں ۔ قوم کو مختلف جسمانی بیماریوں کے علاوہ سب سے بڑی اور اہم
بیماری بھولنے کی ہے بھول جاتے ہیں کہ چھ ماہ یا سال پہلے تو فلاں فلاں نے
یہ دعوہ کیا تھا اب کیا ہوا کہاں گیا وہ دعوہ؟ یہ پاکھنڈی سیاست دان قوم کو
مختلف اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھا کر دونوں ہاتھوں سے نوچ نوچ کر
ضربیں لگاتے ہیں اور قوم سوئی رہتی ہے کسی معجزے کا انتظار کرتے کرتے ایک
ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے لیکن ان بازیگروں کو کچھ نہیں ہوتا ۔
اپنے جمہوریت زدہ جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے جھوٹ کا بے دریغ استعمال کرتے
ہیں اور حقائق سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں ، جب ملک تباہی کے دہانے پہنچ
جاتا ہے اور کوئی ڈکٹیٹر ان کی گردن پر ہاتھ ڈالتا ہے تو شبِ خون مارا گیا
کہہ کر بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں ،ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک
انویسٹ کرنے نام نہاد جلا وطنی کاٹنے کے بعد بے شرموں کی طرح پھر اسی ملک
میں واپس آتے ہیں جہاں دھتکارہ گیا ہوتا ہے ،ان کی مثال تھوک پھینک کر
چاٹنے والی نہیں تو اور کیا ہے؟سب کو سانپ اس وقت سونگھتا ہے جب کو ئی
صحافی انہیں سچائی اور حقائق بیان کرتا ہے ۔کسی زمانے میں ڈکٹیٹر ایوب خان
نے پانچ پیسے چینی کی قیمت بڑھائی تو قوم کو یوں لگا جیسے جلتے توے پر بٹھا
دیا گیا ہے اور ٹولیوں کی صورت میں گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوئے تھے کہ
مہنگائی ہو گئی ہے ۔جبکہ آج کے تھرڈ کلاس سزایافتہ مجرم جو منسٹر ز ، ایم
این اے اور نہ جانے کن کن کرسیوں پر براجمان ہیں سینہ ٹھوک ٹھوک کر کہتے
ہیں بجلی ،پانی گیس ہم چوری کرتے ہیں کسی مائی کے لعل میں جرات ہے تو سامنے
آئے جس نے جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لے اب اس قوم کو کیا ہو گیا ہے اب کیوں نہیں
نکلتے سڑکوں پر ؟
پوری قوم گُھٹا اور سُٹا لگا کر بے غم گہری نیند سو رہی ہے کسی کو کوئی
پرواہ نہیں کیونکہ جمہوریت ہے ۔
جس قوم کو یہ علم نہیں کہ پیدا کیوں ہوئے اور مریں گے کیوں ؟ ان سے کیا اور
کس چیز کی امید کی جاسکتی ہے؟
زمبابوے یا موگابے کے ساتھ کچھ بھی ہواچھا یا برا ؟ لیکن پاکستانی قوم کے
ساتھ جو کچھ آج ہو رہا ہے اسکے ذمے دار نہ تو بیرون ممالک ہیں اور نہ بذاتِ
خود یہ قوم۔ ملک اور قوم کو پستی میں دھکیلنے والے یہ سیاست دان ہیں پرنٹ
اور الیکٹرونک میڈیا کے سامنے جو بکواس کی جاتی ہے اس سے ملک وقوم کے مسائل
حل نہیں ہونگے الاپ شلاپ سے ملک و قوم کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے ،کیونکہ
لا اینڈ اورڈر نہیں ہے ۔
لہذاسب سے پہلے ملک میں ٹھوس قانون بنائے جائیں اور اگرخدا نخواستہ اتفاق
سے کوئی قانون کسی کونے کھدرے میں پہلے سے موجود ہیں تو ان پر سختی سے عمل
درامد ہو تب مسائل حل ہونگے۔میری بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے جس دن
ملک میں صحیح معنوں میں قانون نافذ اورا س پر عمل درامد شروع ہو گیا اس دن
سے ملک اور قوم ترقی پذیر نہیں ترقی یافتہ کہلائیں گے۔ |