کیا حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر پائے گی؟

کیا حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے ۔جو آج کا محبوب ترین موضوع بحث ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے ،کہ’’ اداروں کے درمیان ٹکراو جاری ہے اور یہ ٹکراو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگا‘‘سابق وزیر اعلی خیبر پختونخواہ امیر حیدر ہوتی کے ’’نانا جان‘‘ اور برصغیر پاک و ہند کے بڑے راہنما خان عبدالغفار خان کے پوتے اور ولی خاں کے فرزند ارجمند اسفند یار والی کا کہنا ہے ۔کہ’’ ریاستی اداروں میں خلیج سے جمہوری نظام خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔‘‘جماعت اسلامی کے سکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کا بیان کہ ’’حکومت کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔اور محلاتی سازشوں کے اور چور دروازوں کے ذریعے ظالم کو مظلوم اور نااہل کو شہید بنانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے‘‘ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک حکومتی سینٹر کا فرمانا ہے کہ ’’ ہماری حکومت جون خیر و عافیت سے گذارتی دکھائی نہیں دیتی‘‘ اسی طرح اور حلقوں کی جانب سے بھی منتخب حکومت کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا اظہار سامنے آ رہا ہے۔ کیا ان بیانات کو کسی خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے؟کیا واقعی حکومت خطرات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے؟پنجاب اسمبلی میں پاک فوج کی حمایت میں حکومتی قرارداد کی منظوری سے ان خدشات کو مذید تقویت پہنچی ہے…… وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا ’’حکومت براہ راست اور فوج کو ان ڈائریکٹ تنبیہ کرنا اور دعوی کرنا کہ اگر عوام کے مسائل حل نہ ہوئے تو لوگ گھروں سے ڈانڈے سوٹے لیکر نکلیں گے اور وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ سامنے فوج ہے یا سول حکمران ہیں وہ ان کو دھوئیں گے۔‘‘سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی نے وفاقی حکومت اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کو ایک ہفتے کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس ایک ہفتہ مین ان کے تحفظات دور نہ کیے گے تو وہ سندھ اسمبلی میں آزاد بنچوں پر بیٹھ جائیں گے اور حکومتی جماعت سے الگ ہوجائیں گے۔ اس فیصلے کا اعلان پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد عرفان اﷲ مروت نے کیا ہے۔مولانا فضل الررحمان کا کہنا ہے کہ’’ قوم جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنے والوں سے با خبر رہے‘‘بظاہر تو وفاقی اور صوبائی وزرا کے چہروں کی رنگت معاملات درست نہ ہونے کی چغلی کھا رہے ہیں۔ لیکن دکھاوے کے طور پر اندر کی گڑ بڑ سے انکار کرتے ہیں۔

اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کا ایک طاقتور ترین وفد دبئی پہنچا ہے اور اس نے جنگ جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الررحمان اور انکے صاحبزادے سے ملاقات کی ہے ۔ حکومتی وفد کے دبئی جانے اور اس ملاقات کا مقصد کیا ہے؟ یہ حکومتی وفد جانتا ہے یا پھر جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الررحمان کو اس ملاقات کے مقاصد کا علم ہے……یار لوگوں نے اس ملاقات سے متعلق اپنے اپنے رنگ مین تبصرے کیے ہیں۔کسی کے خیال میں حکومتی وفد میر شکیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دبئی پہنچا ۔اور کوئی اپنی معلومات کا رعب و دبدبہ بٹھانے کے لیے کہہ رہا ہے کہ حکومت کا وفد میر شکیل کو سمجھنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی ہے ۔ مجھے اسکا کچھ پتہ نہیں چل سکا……البتہ میرے کانوں میں یہ کہاجا رہا ہے کہ پاک فوج جون جالائی میں اپنی طاقت دکھانے کا مظاہر ہ کر سکتی ہے اور اس بات کے کافی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر قوم کو اعتماد میں لے اور اگر کوئی ایسا مسلہ درپیش ہے تو اسے قوم کے سامنے لائے۔ورنہ اند ہی اندر جو کھچڑی پکنے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں وہ تو بڑی حیران کن اور خطرناک دکھائی دیتی ہیں ۔

اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ’’ اندرون خانہ’’ سب اچھا نہیں ہے‘‘ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فوج کے سولین ترجمان ہونے کے دعویدار سب ایک پیج پر ہیں اور ایک بات ہی انکی زبان پر ہے۔ اوپر ذکر کیے گے بیانات کے مطابق حکومت اور فوج میں شدید اختلافات چل رہے ہیں……اگر حکومت اور فوج اختلافات نہیں بھی ہیں تو میڈیا میں سرگرم لوگ حکومت کی اپنی نااہلی کے باعث ایسا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔……حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا پورا حق حاصل ہے ۔اس لیے حکومت کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور فضول کاموں میں ’’ پنگے بازی ‘‘ کرنے کی بجائے اپنی منزل پر اپنی نگاہیں مرکوز رکھے……حکومت کی زمہ دار ی ہے کہ وہ ان معاملات کو سلجھائے ورنہ لمحوں کی غلطی کی سزا صدیوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔حکومت کی بڑی ناکامی یہی ہے کہ وہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہو یا جیو گروپ کی پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے اسکے شانہ بشانہ چلنے کا اعلان کرے۔حکومت کو جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا……بصورت دیگر جون جولائی میں طاقتوروں کی جانب سے طاقت کے اظہار کی خبریں سچ ثابت ہو جائیں گے ۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.