میں ملک کے احسان کا قرض کبھی ادا نہیں
کرسکتا .میری زندگی کھلی کتاب ہے. سچائی کے راستہ پر چلنا میرانصب العین
ہے،میں نے ہمیشہ اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ اپنےعظیم ملک کی خدمت کرنے کی
کوشش کی ہے.دس برس پہلے اس ذمہ داری کوسبھالتے وقت میں نے پوری محنت سے کام
کرنے اور سچائی کے راستے پر چلنے کا عہد کیاتھا.خدا سے میری یہ دعا تھی کہ
میں ہمیشہ صحیح کام کروں آج جب وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنے کا وقت آگیا ہے
تومجھے اس بات کا احساس ہے کہ خدا کہ آخری فیصلے سے پہلے تمام منتخب
نمائندوں اور حکومت کے کام پر عوام کی عدالت فیصلہ کرتی ہے.
دس سالوں تک مسلسل وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ
گذشتہ کل ۱۷ مئی کو اپنے سے مستعفی ہوگئے ہیں. پنڈت جواہر لال نہرو اور
اندراگاندھی کے بعد دس سال تک کی طویل مدت تک اس منصب پر فائز رہنے والے
وزیر اعظم منموہن سنگھ پہلے شخص ہیں. منموہن سنگھ کو اولیت کا یہ اعزاز بھی
ملا ہواہے کہ اس ملک کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے وہ پہلے وزیر
اعظم ہیں.
ڈاکٹر سنگھ خاموش مزاج کم گو اور سنجید طبعیت کے حامل ہیں انہیں نے اپنی دس
سالہ مدت کارمیں باتیں کم کی ہیں اور کام زیادہ.کئی اہم اور مشکل فیصلے لئے
ہیں عالمی تعلقات کی بحالی میں انہوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے. مسلم قیادت
سے بھی ڈاکٹر سنگھ کی خوب ہم آہنگی تھی. مسلم قائدین کے مطالبے کو انہوں نے
ہمیشہ مثبت انداز سے لیا ہے یہ الگ بات ہے کہ کتنے پر عمل ہوسکا اور کتنے
وعدا فردا بن کے رہ گئے . ان پر حزب اختلاف کی جانب سے مسلسل یہ الزام لگتا
رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم خود مختار نہیں ہیں ان کے اندر قوت ارادی اور قوت
فیصلہ کمی ہے یہ کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں کرتے ہیں یہ برائے نام
اور دکھاوا کے لئے ہیں پس پردہ تمام فیصلے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی
کرتے ہیں اور اگر کبھی انہوں نے اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ لیا ہے توراہل
گاندھی نے اسے بکواس قراردے کر مذاق اڑایا ہے. میڈیا نے بھی منموہن سنگھ کے
تعلق سے ایسا ہی تاثرپیش کیاہے اور انہیں ہندوستان کا سب سے کمزور وزیراعظم
قرار دیا ہے. ان کے سابق پی ایم او مسٹر بارود نے بھی اپنی کتاب کی ذریعے
منموہن سنگھ کی شبیہ خراب کرنے کی کو شش کی ہے.ان کے سب کے ردعمل منموہن
سنگھ نے ایک تقریب کے دوران کہاتھاکہ تاریخ ہمارے ساتھ ضرور انصاف کرے گی.
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پیدائش 26 ؍ستمبر1932 ء کو پنجاب کے گاہ میں ہوئی
تھی۔وہ جگہ اب پاکستان میں ہے۔تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان امرتسر منتقل
ہوگیا۔ان کی والدہ کا انتقال ان کی کم سنی میں ہی ہوگیا تھا،اسلئے ان کی
پرورش ان کی دادی نے کی تھی۔امرتسر منتقل ہونے کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ
آگے بڑھا۔اور انہوں نے 1952 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل
کی اور 1954 ء میں انہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم
کیلئے کیمبرج چلے گئے ، وہاں سے آکسفورڈ کا رخ کیا اور 1960 ء میں ڈاکٹریٹ
کی ڈگری حاصل کی۔ان کی لکھی ہوئی تھیسس جب کتابی شکل میں شائع ہوئی تو اس
کا نمایاں اثر ہندوستان کی تجارتی پالیسی پر پڑا اور پرتپاک انداز میں اس
کتاب کو قبول کیا گیا۔ہندوستان لوٹنے کے بعد بھی ان کی قابلیت و صلاحیت کی
قدردانی ہوتی رہی اور معاشیات کے لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر عمل میں
آیا۔ 1969 ء میں دہلی اسکول آف اکنامکس میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
ماہر معاشیات ہونے کی وجہ سے 1972 ء میں مالیات کی وزارت میں چیف اکنامک
ایڈوائزر کا عہدہ ان کے سپرد کیا گیا۔1976 ء تک یہ ذمہ داری انہوں نے بحسن
و خوبی نبھائی۔اس کے بعد اسی وزارت کے سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔1982 ء
میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کی،اور اس طرح
ملک کا بچہ بچہ بھی نوٹوں پر ان کے دستخط کے ذریعے منموہن سنگھ سے واقف
ہوگیا۔1985 ء تک وہ اس عہدے پر رہے ،اور پھر اسی سنہ میں ان کی قابل قدر
صلاحیتوں کا استعمال کرکے ملک کو مزید مستفید کرنے کیلئے ان کو پلاننگ
کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی ذمہ داری سونپی گئی۔
1991 ء میں انہوں نے معاشیات سے سیاست کا رخ کیا۔لیکن یہاں وہ خود آئے نہیں
بلکہ انہیں لایا گیا۔کیونکہ اس وقت ملک معاشی اعتبار سے کچھ لڑکھڑانے سا
لگا تھا جس کو سنبھالنے اور استحکام دینے کیلئے ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن
سنگھ سے زیادہ قابل اور بھروسہ مند دوسرا کوئی شخص انہیں نظر نہیں آیا۔
نرسمہا راؤ کی سربراہی میں کانگریس کی حکومت میں وزیر خزانہ کی اہم ترین
ذمہ داری ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سپرد کی گئی۔پھر ہندوستان کے ساتھ ہی پوری
دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے کس خوش اسلوبی سے لڑکھڑاتی معیشت کو نہ صرف کھڑا
کردیا بلکہ اپنے بل بوتے پر چلنے پھرنے کے لائق بنادیا۔ان کے سیاسی سفر کا
آغاز راجیہ سبھا کے ممبر کی حیثیت سے ہوتا ہے، 1991 ء میں آسام سے راجیہ
سبھا کیلئے منتخب ہوئے۔اس کے بعد انہوں نے سیاست کی دنیا کو آباد کیا اور
مسلسل راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوتے رہے۔1991 ء، 1995 ء،2001 ء،2007 ء
اور2013 ء میں آسام اسمبلی نے راجیہ سبھا کیلئے ان کا انتخاب کیا۔1998 ء سے
2004 ء تک اٹل بہاری واجپئی حکومت کے دوران راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے
لیڈر کی ذمہ داریاں نبھائیں۔2004 ء کے عام انتخابات میں جب این ڈی اے کی
شکست ہوئی اور کانگریس کی سربراہی میں یوپی اے حکومت نے اپنا وزیر اعظم
سونیا کو منتحب کیا لیکن ان پر غیرملکی نژاد ہونے کا الزام لگایا گیا جس کے
بعد سب کی نگاہ انتخاب ڈاکٹرمنموہن سنگھ پہ پڑی 22 مئی 2004 ء کو ڈاکٹر
منموہن سنگھ ہندوستان کے تیرہویں وزیراعظم بن گئے۔انہوں نے بحیثیت وزیر
اعظم پانچ سال کی مدت بحسن وخوبی پوری کی . 2009 کی دوسری مدت کار میں یوپی
اے نے اپنی فتح کے بعد ان کو اس عہدے پر برقرار رکھا. اور 2004 سے لیکر
2014 تک وہ مسلسل وزیر اعظم رہے. 14 مئی کو سونیا گاندھی الوداعیہ پیش کیا
اور 17 مئی کو کابینہ سے اخری خطاب کرکے وزارت عظمی کے منصب سے رخصت سفر
باندھ گئے. |