نریندر مودی کی کامیابی پر پاکستان میں سب
سے زیادہ خوش کون ہے، تو میاں نواز شریف صاحب زیادہ خوش لگتے ہیں۔ کیونکہ
انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر ایسے پاکستان کے دورے کی دعوت دے ڈالی ہے، جنرل
حمید گل نے بھی یہی کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے اس لیے کہ کانگرس کی طرح بی
جے پی منافقت سے کام نہیں لیتی، ہندو کے بارے میں یہ محاورہ مشہور ہیں کہ
بغل میں چھری منہ میں رام رام اب مودی کے منہ بھی چھری ہے بغل میں بھی چھری
ہے اور ہاتھ میں بھی چھری ہے، حیرت ہوتی ہے کہ مودی کو اس قدر حیران کن
کامیابی کیسے مل گئی، تو بھائی لوگوں اگر پاکستان کے میڈیائی چینل اللہ کی
پکڑ میں نہ ہوتے تو یہ الزام لگا دیتے کہ آئی ایس آئی نے مودی کو جتوا دیا
ہے تاکہ امن کی آشا کو پنکچر کردیا جائے اور نواز شریف کا خواب ادھورا رہ
جائے کہ واہگہ کی سرحد چوبیس گھنٹے کھلی رہنی چاہیے۔
بھارتی الیکشن اور آئی ایس آئی یہ کیا بے تکی بات ہے مگر آئی ایس آئی کے
ہاتھ بہت لمبے ہیں وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اس کے بہت سے لوگ شاہد ہمارے بعض
ٹی وی چینلوں پر ڈیوٹی پر ہیں جو جنرل ظہیر الاسلام کو قتل کا مجرم بنا کر
انکی تصویر 8 گھنٹے تک اسکرین پر لہراتے ہیں یا موقع پاکر ایک ادا کارہ کی
شادی کے سوانگ میں ایسی منقبت چلا دیتے ہیں، جس سے توہین رسالت اور توہین
اہل بیت کا جرم سرزد ہوگیا، بھارتی الیکشن کا رزلٹ زیرو زبر ہوگیا بھارت کو
آزادی دلانے والی کانگرس کو ایک ٹھوکر سے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا
گیا۔ زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ مودی کو اتنی بڑی کامیابی صرف
بھارتی ووٹرز کے بل بوتے پر نہیں ملی اس میں کچھ دخل پاکستانی پنکچر ماسٹر
کا بھی ہے، اپنا خیال ہے کہ پنکچر ماسٹر کی نگرانی میں پاکستانی ووٹروں نے
بھارتی الیکشن میں ایک ایک انگوٹھے سے ہزاروں ووٹ ڈالے ہیں ہماری وہ سیاسی
جماعیتں جن کے لیڈر کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے ہمارے بزرگ پاکستان بنانےکے
گناہ میں شریک نہ تھے۔ انکے سارے ووٹ مودی کے بکسوں میں گئے، اور وہ
جماعیتں جن کے بزرگوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا ان کے دو تین ہزار
ووٹوں نے بھی بھارتی الیکشن کی کایا پلٹ دی۔
پاکستان بنانے والی جماعت کی جانشین ن لیگ کی قیادت بھارت پر جس طرح فریفتہ
ہے، وہ محتاج وضاحت نہیں،، ابھی بھارت کی کسی ریاست نے مودی کو اپنے ہاں
آنے کی دعوت نہیں دی مگر ن لیگ کے قائد نے ان کے استقبال کے لیے جھٹ پٹ
اپنے بازو پھیلا دیے، آنٹی حسینہ واجد ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئیں وہ
کہتی ہے کہ مودی صاحب بنگلہ دیش کو اپنا دوسرا گھر سمجھیں۔ پاکستان کے کچھ
لوگوں نے حسینہ واجد سے تمغے لیے ہیں، حسینہ واجد کا یہ اعتراف تو پڑھیں کہ
1971ء کی تحریک آزادی میں بھارت نے بنگلہ دیش کی تاریخی مدد کی تھی گویا
پاکستان سے تمغے لینے والوں کو بھارت کی صف میں کھڑا کردیے گئے، ہمارے ہاں
آئی ایس آئی والا جھگڑا کھڑا نہ ہوتا اور اس کے بعد توہین رسالت کی سنگین
واردات نہ ہوتی تو پھر ہمارے ٹی وی چینلز کی دھما چوکڑی دیکھنے کے لائق
ہوتی، مودی نے کیا انتخابی مہم چلانی تھی ۔ ہمارے اینکرز اس انداز میں
بھارتی الیکشن کی کوریج کرتے کہ ہمارے ٹی وی ناظرین جوش میں آکر واہگہ سرحد
پار کر کے جوق در جوق مودی کے بکسوں کو بھرنے چلے جاتے۔ آئی ایس آئی کے
قضیئے اور تو ہین رسالت کی سنگینی میں ہمارے ہاں بھارتی شہر دھالو مودی کی
فتح کا جشن منانے سے قاصر رہے، اگر یہ مسائل کھڑے نہ ہوتے تو سب دیکھتے کہ
کیسا جشن کا سماں ہوتا مٹھائیاں تقسیم ہوتی رنگ و نور کا سماں ہوتا ہر چوک
پر دھمال ڈالی جاتی-
مودی کو قصاب کہا جاتا ہے ایک قصاب کو بھارت نے پھانسی دے دی دوسرے کو وزیر
اعظم بنایا جارہا ہے، بی جے پی خالص شدت پسند فرقہ وارنہ جماعت ہے، اور اس
کا واسطہ ایک طرف مسلمانوں سے ہے جن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آئے یا جائے
مسلمان کبھی ڈرا ہے نہ کبھی ڈرے گا۔ حافظ محمد سعید اور جنرل حمید گل کا
نعرہ بھی یہ ہے کہ اگر اب میدان لگا تو ہندو کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں
گے، میرا بھی ایمان ہے کہ ہمیں امن کی آشا سے کیا لینا دینا۔ خطے میں حالات
ایسے بن رہے ہیں کہ خود بھارت ہم سے امن کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگا،
افغانستان میں عبداللہ اور بھارت میں مودی کی حکومت پاکستان کا کیا بگاڑ
سکتی ہے، چھ عشروں سے کابل کو بھی ہم نے ہر کسی کو بھگتا ہے اور اب نئی
دہلی کی مستی کا بھی کئی عشروں سے مقابلہ کررہے ہیں، آج بھی ہم اللہ کے فضل
سے سیاچین سے لے کر سرکریک تک بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
بیٹھے ہیں فاٹا اور بلوچستان میں بھی بھارتی مداخلت کاروں کی سرکوبی کرچکے
ہیں،، اب ہمارا مقابلہ نقاب پوشوں سے ہے ہمارا سامنا ان قوتوں سے ہے۔ جو
ناروے کے گستاخ کارٹوںوں اور امریکہ کی توہین آمیز فلم سے شہہ پا کر ہمارے
شعائر کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ نبی پاک کی محترم اور مقدس بیٹی کو ایک اداکارہ
سے ملانا مودی کی فتح سے زیادہ کاری وار ہے، یہ محض توہین اہل بیت نہیں
سراسر توہین رسالت مآب ہے، ہمیں اسپین کے مسلمانوں کی طرح بے غیرت اور بے
حس بنانے کی سازش کی جارہی ہیں۔ اندرا گاندھی نے فوجی جارحیت کا ارتکاب کیا،
اس کی بہو سونیا گاندھی کی کوشش ہے کہ ہمیں ثقافتی محاذ پر زیر کرلیا جائے
اور نریندرا مودی تو صرف جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کریں گے۔ ہمیں ایک جو
مکھی لڑائی لڑنی ہے، دشمن سرحدوں کے پار بھی ہے اور ہماری آستینوں کا سانپ
بن کر ہمیں ڈسنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔
اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ قوم بیدار ہے ہوشیار ہے اچھے محب وطن لوگوں کی
نظریاتی اسے میسر ہے، جنرل راحیل شریف جنرل حمید گل دیگر جنرلوں کی للکار
سے قوم کے جذبوں کو مہمیز مل رہی ہے۔ اب کوئی بھی مودی ہوں یا موذی انکی
قسمت میں خواری لکھ دی گئی ہے۔
|