بجٹ2015ء- 2014ئ، خدشات کی زد میں....!

مالی سال 2014-2015کے لیے بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ منگل کے روز سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نئے سال کا بجٹ 3جون کو پیش کیا جائے گا، آئندہ سال کا بجٹ 3864 اور 3937 ارب روپے کے درمیان ہوگا۔ ٹیکس محاصل کا ہدف 2810 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد اضافہ کریں گے۔ این ایف سی سے صوبوں کو 1703 ارب روپے دینے کی تجویز ہے۔ دفاعی اخراجات کے لیے بجٹ میں 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جو رواں برس 715 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے۔ بجلی کی سبسڈی کے لیے 226 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک بھر کے چیمبرزآف کامرس کی مشترکہ بجٹ تجاویز کو بھی نئے بجٹ2014-15میں شامل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ تاجربرادری کی تجاویز پر غور کرتے ہوئے ممکنہ کوشش کی جائے گی کہ ا ±ن کی تجاویز کو آنے والے بجٹ کا حصہ بنایا جاسکے۔ تاجر برادری نے وفاقی وزیرخزانہ کی جانب سے مشاورتی اجلاس بلانے اور خوشگوار ماحول میں بجٹ تجاویز پر تبادلہ خیال کرنے کے عمل کو سراہتے ہوئے کہاکہ تاجر برادری کو بجٹ کی تیاری کے حوالے سے اعتماد میں لینا خوش آئند ہے۔ تاجر برادری کاروباد دوست بجٹ کی خواہاں ہے، تاکہ کاروباری و صنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو سکے اور ملک معاشی طور پر ترقی کر سکے۔تاجر برادری نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف سے مطالبہ کیاہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میںمعاشی بحران کے حل کے لیے تاجروں کو خصوصی ریلیف دینے کے علاوہ توانائی بحران پرقابو پانے کے لیے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کا اعلان کرتے ہوئے عوام دوست بجٹ بنا یا جائے۔ ملک میںجاری توانائی و گیس بحران سمیت پٹرولیم مصنو عات کی قیمتو ں میں اضا فے نے معیشت کا برا حال کر دیا ہے۔ حکومت کو سمجھدار ی کا مظا ہرہ کر تے ہوئے بجٹ عوام اور تاجر دوست بنا نا ہو گا۔ ہر بجٹ میں عوام اور تاجر برادری کو حکو مت وقت سے بہت سی تو قعات وابستہ ہو تی ہیں، جو ہمیشہ رائیگا ں جاتی ہیں، کیو نکہ بجٹ میں صرف الفاظ کی ہیرا پھیری کر کے امرا کو نوازا اور غریب پر مہنگائی کا مزید بو جھ ڈال دیا جا تا ہے۔

مالی سال 2014-2015 کے بجٹ کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے بات چیت کرتے ہوئے تجاویز دیں اور مختلف خدشات کا اظہار کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کے بس دعوے ہی ہیں، ان کی تقریروں اور اشاروں سے نہیں لگتا کہ آنے والے بجٹ میں کوئی بہتری ہو گی۔ عوام دوست بجٹ آتا نظر نہیں آرہا، جہاں تھے وہی کھڑے ہوں گے۔ بجٹ میں نہ تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، نہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور قیمتوں میں کمی ہوگی، نہ مہنگائی پر کنٹرول ہوگا اور نہ ہی قرضے کم ہوں گے، تاہم دعا گو ہوں کہ معیشت کی بہتری کے لیے جو باتیں اسحاق ڈار کر رہے ہیں، وہ سچ ثابت ہوں۔ پیپلز پارٹی نے بجٹ کے لیے اپنی تجاویز حکومت کو ارسال کردی ہیں، تجاویز میں مزدور کی اجرت 12ہزار روپے اورسرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں 50 فیصد اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ حکومتی منصوبوں سے لگتا ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری مزید بڑھے گی، جبکہ آفتاب شیر پاو ¿ نے کہا کہ ہر سال اسی طرح اعداد و شمار دیے جاتے ہیں، ہم مطمئن نہیں ہیں۔دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ تعلیم، صحت اور امن کا ہے، حکومت کو اس طرف توجہ دینی ہوگی، اس کے بغیر ملک کا چلنا مشکل ہے، ہر حکومت اس جانب سے صرف نظر کرتی آئی ہے۔ وزیر مملکت برائے ریلوے اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما عبدالحکیم بلوچ نے کہا کہ بنیادی مسائل کی طرف آج تک توجہ نہیں دی گئی، اگرتعلیم اور صحت کا مسئلہ حل کرلیا جائے تو ملک کے دیگر مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں، کسی حکومت نے بھی اس پر کام نہیں کیا، دوسرے ممالک میں تعلیم و صحت پر فوکس کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ کہیں اور خرچ ہوتا ہے۔ آئندہ بجٹ میں امید ہے کہ تعلیم اور صحت پر فوکس کیا جائے، بجائے اس کے کہ سرکاری سطح پر علاقوں میں چھوٹی چھوڑی ڈسپنسریاں قائم کی جائیں، بلکہ تحصیل لیول پر ایک ایک بڑا ہسپتال قائم کردیا جائے اور اس میں تمام سہولتیں فراہم کردی جائیں تو صحت کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، حکومت ہماری ہو یا کسی اور کی، لیکن صحت کے مسائل پر توجہ ضروری ہے، اسی طرح جن اسکولوں میں بہتر تعلیم دی جاتی ہے، ان کو مزید فعال کیا جانا چاہیے، نئے اسکول بنانے کی بجائے موجودہ اسکولوں میں سہولیات فراہم کردی جائیں تو بہتر ہے، تھر جیسے علاقوں میں بھی اچھے اسکولوں کی ضرورت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی ریحان ہاشمی نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں تعلیم کے لیے 2 سے 4 فیصد رکھنا چاہیے، اسکولز کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی، تمام صوبوں میں نصاب ایک ہونا چاہیے، بجٹ میں تعلیم اور صحت کو پہلی ترجیح دی جائے، ٹیکس جمع کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پی پی پی کے رہنما کریم احمد خواجہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں عوام مہنگائی اور بدامنی سے تنگ ہیں، عوام کو ریلیف دینے کے لیے مہنگائی میں کمی کرنا ہوگی اور اس کے لیے آئندہ بجٹ میں روزمرہ کی اشیا پر حکومت کو سبسڈی دینی چاہیے، حکومت اگر مہنگائی میں کمی نہیں کرسکتی، تو مزدوروں کی تنخواہوں کا تعین مہنگائی کے مطابق کیا جائے، تعلیمی معیار کو بھی بہتر بنایا جائے، آئندہ بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے زیادہ فوکس کیا جائے، موجودہ حکومت میں گیس اور بجلی کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا جاچکا ہے، یہ عوام کی بنیادہ ضروریات ہیں، حکومت گیس اور بجلی کے نرخوں میں کمی کرے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما پیر صدر الدین شاہ نے کہا کہ ملک میں مہنگائی اور بد امنی بہت بڑھ چکی ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، بجٹ میں تجاویز دیں گے جو کہ مہنگائی کم کرنے کے لیے ہوں گی، تنخواہ نہیں بڑھا ئی جاتی تو مہنگائی میں کمی کی جائے، ورنہ تنخواہیں مہنگائی کے تناسب سے بڑھائی جائیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پیش کیا جانے والا بجٹ عوام کے لیے انتہائی مایوس کن تھا،لیکن عوام نے اس وقت اس مایوس کن بجٹ کو اس لیے برداشت کرلیا تھا کیونکہ گزشتہ سال بجٹ پیش کیے جانے کے وقت ابھی حکومت کو آئے تقریباً ایک ماہ ہی گزرا تھا اور حکومت نے تمام ناکامی کا ملبہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت پرڈالا تھا،گزشتہ سال کے بجٹ کے موقع پر مسلم لیگ(ن) کا کہنا تھا کہ عنقریب تمام مسائل حل کردیں گے اور آئندہ سال کا بجٹ عوام دوست ہوگا، لیکن حکومت کو ایک سال گزرچکا ہے، ابھی تک عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ملک میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، صحت، لوڈشیڈنگ، بدامنی، جہالت اور دیگر مسائل ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ حکومت بدستور سبز باغ دکھانے میں مصروف ہے،حکومت ابھی تک بدامنی پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے ملک کی معیشت تباہ ہوکررہ گئی ہے، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بھی ملکی معیشت کو کافی حد تک نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ملک میں تعلیم کا بجٹ بھی ہمیشہ کم رکھا جاتا ہے، حالانکہ تعلیم پر توجہ دے کربہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس سال بھی بجٹ کے حوالے سے حوصلہ افزا خبریں نہیں آرہیں۔الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی بجائے حقیقت میں تمام مسائل کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.