انسان کتنا بے بس ہے اس بات کا
احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی ہسپتال میں موجود ہو اور بجلی کی
لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تمام نظام معطل ہوچکا ہو ۔ گھروں میں تو ہم نے کسی نہ
کسی یو پی ایس اور جنریٹر لگا کر بجلی کی وقتی جدائی برداشت کرلیتے ہیں
لیکن ہسپتالوں میں انتظار کی تکلیف دہ گھڑیاں گزارے نہیں گزرتیں ۔جمعہ کی
رات گھٹنوں میں اس قدر تکلیف تھی کہ نیند آنے کے باوجود میں سو نہیں سکا ۔
جب گھر کے تمام افراد خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے تو میں درد کی ٹیسوں
کی وجہ سے آسمان پر تارے گن رہا تھا ۔خدا خدا کرکے رات ختم ہوئی اور دن کا
اجالا نمودار ہوا تو تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر میں حجاز ہسپتال
میں جا پہنچا تاکہ کسی اچھے آرتھوپیڈک ( ہڈیوں کے ماہر ) ڈاکٹر کو چیک
کرواکے صحت اور تندرستی کا کوئی آسان راستہ تلاش کروں ۔پہلے تو ڈاکٹر کے
کمرے کے باہر آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا پھر جب معاون ڈاکٹر نے میری
درخواست پر ایکسرے لکھ دیا تو تمام مراحل طے کرتا ہوا ایکسرے روم پہنچا
۔وہاں موجود عملے نے خوشدلی سے استقبال کرتے ہوئے کہا جناب آپ باہر تشریف
رکھیں اس وقت بجلی نہیں ہے جب آئے گی تو ایکسرا ممکن ہوسکے گا۔اس کے باوجو
د کہ مجھے بہت ہی ضروری کام جانا تھالیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ
میں بھی دوسرے بے بس لوگوں کی طرح بجلی کے آنے کا انتظار کروں ۔جب بھی گھڑی
پر جب بھی نظر ڈالتا تو گھڑی کی سوئیاں چیونٹی کی چال رینگتی ہوئی محسوس
ہوتیں ۔اے اﷲ اب کیا کروں میں تو تصور کرکے آیا تھا کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک
چیک اپ کا مرحلہ طے کرکے اپنی مصروفیات میں لوٹ جاؤں گا لیکن یہاں تو
لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اذیتوں کے نئے در کھل رہے ہیں خدا خدا کرکے گیارہ بجے
بجلی آئی ابھی میں ایکسرے روم میں پہنچا ہی تھا کہ پھر بجلی چلی گئی جب
ایکسرے کروانے اور ایکسرا ملنے کے بعد سپیشلسٹ ڈاکٹر کے کمرے کا باہر پہنچا
تو وہاں بھی درجنوں کے حساب سے مریض پہلے سے موجود تھے ۔کسی کو کہہ کہلا کر
جب ڈاکٹر آفاق کے روبرو پہنچا تو انہوں نے ایکسرے دیکھنے کے بعد مسکراتے
ہوئے کہا آپ ذہنی طور پر گھٹنوں کے آپریشن کے لیے خود کو تیار کرلیں کیونکہ
گھٹنوں کی ہڈیاں اپنا کام چھوڑ چکی ہیں ۔آپریشن چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اس کا
خوف انسان کو خون کے آنسو رولا دیتا ہے تین گھٹنوں کی تھکا دینے والی مشقت
کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اب گھٹنوں کے درد کا واحد علاج صرف اور صرف
آپریشن ہی ہے یہ آپریشن جہاں بے پناہ پیچدگیوں اور تکلیوں کا باعث ہے وہاں
اس پر اٹھنے والے اخراجات ساڑھے چارلاکھ روپے بنتے ہیں ۔کسی دوست نے کہاکہ
شوکت خانم میموریل ہسپتال میں ڈاکٹر احسان شمیم کے ہاتھ میں اﷲ نے بہت شفا
دے رکھی ہے وہ جس مریض کا بھی گھٹنوں کا آپریشن کرتے ہیں وہ چند دنوں میں
ہی چلنے پھرنے لگتا ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی کی بنا پر مریض کو جان لیوا
تکلیف سے بھی نہیں گزرنا پڑتا ۔نہ چاہتے ہوئے بھی جب شوکت خانم ہسپتال
تشخیص کے لیے وقت مانگا تو اس وقت میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ ڈاکٹر
احسان کے پاس مریض کو چیک کرنے کا بھی وقت ہی نہیں ہے وقت دینے والی آپریٹر
نے بتایا کہ تشخیص کے لیے ستمبر میں وقت مل سکتا ہے آپریٹر کی بات سن کر
میں سوچنے لگا کہ اگر ستمبر میں تشخیص ہوسکتی ہے تو آپریشن کے لیے تو کئی
سال درکار ہوں گے اگر لاہور میں رہتے ہوئے میں ڈاکٹر احسان شمیم سے بروقت
آپریشن نہیں کروا سکتا تو دور دراز علاقے کا رہنے والا ایک عام دیہاتی شخص
کیسے ڈاکٹر احسان تک پہنچ پائے گا پھر ایک گھٹنے کے آپریشن کے ساڑھے چار
لاکھ روپے کے اخراجات کون برداشت کرے گا ۔ہیپاٹائٹس سی کی بیماری ہوٗ گردوں
کے ڈیلسز کا مرض ٗ دل کی پیوند کاری کا مرحلہ ہو ٗ گھٹنوں کا آپریشن ہو
اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عام انسان خواہش کے باوجود نہ تو مناسب علاج
کروا سکتا ہے اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں میں اربوں روپے بجٹ کے باوجود وہاں
شافی علاج میسر ہے ۔اس کے باوجود کہ وزیر اعلی پنجاب میں ہیلتھ انشورنس کی
پالیسی متعارف کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن یہ ہیلتھ پالیسی اس وقت تک
عوام کو میعاری علاج کی سہولت فراہم نہیں کرسکتی جب تک ہسپتال کاعملہ اور
معالجین فرض شناس اور عوام کے درد کااحساس کرنے والے نہ ہوں ۔لاہور نہ صرف
پنجاب بلکہ پاکستان کادل کہلاتا ہے یہاں سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال بھی
موجود ہیں سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے پہنچنے والوں کے ساتھ جو
ناروا سلوک کیا جاتا ہے اس کا ذائقہ تو ہروہ شہری چکھ لیتا ہے جو کسی بھی
مرض میں مبتلا ہوکر کسی بھی سرکاری ہسپتال کا رخ کرتا ہے کیونکہ سرکاری
ہسپتالوں میں اول تو بیڈ ہی میسر نہیں ہیں اگر بیڈ ملتے ہیں تو ایکسرے ٗ
ایم آرائی ٗ سٹی سکین ٗ وینٹی لیٹرٗ ڈیلسز اور ہارٹ سے متعلقہ سمیت
جدیدترین مشینری لاپرواہی کی وجہ سے قابل استعمال نہیں رہتی ۔ڈاکٹر کمیشن
کی خاطر نہ صرف مہنگی ادویات لکھ کر غریب مریضوں کا معاشی کچومر نکالتے ہیں
بلکہ ہر وزٹ پر غیر ضروری طور پر پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ بھی تجویز
کرتے ہیں۔ڈاکٹر کا حکم چونکہ مریض کے لیے قانون کا درجہ رکھتا ہے اس لیے نہ
چاہتے ہوئے بھی اسے ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا پڑتا ہے سوچنے کی بات تو
یہ ہے کہ اگر پرائیویٹ ہسپتالوں میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مشینیں صحیح
حالت میں میسر ہیں تو سرکاری ہسپتالوں میں یہ مشینری کیوں موجود نہیں ہے
اور اگر موجود ہے تو اس کی مناسب دیکھ بھال کرنا کیا ہسپتال انتظامیہ کی
ذمہ داری نہیں بنتی ۔مریض کو تڑپتا ہوا جب کسی پرائیویٹ ہسپتال میں لے جایا
جاتا ہے تو چند دن علاج کا بل لاکھوں میں واجب الادا ہوجاتا ہے ۔اس لمحے یہ
سوچ ضرور ابھرتی ہے کہ انسان اور انسانیت کیوں دم توڑتی جارہی ہے ہم بظاہر
تو انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمارے رویے خونخوار جانوروں سے بھی بدتر
ہوتے جارہے ہیں کیونکہ یہ روپیہ پیسہ ہی ہمارا معیار اور علاج بن چکا ہے
۔شوکت خانم بظاہر تو عمران خان کا خیراتی ہسپتال کہلاتا ہے لیکن وہاں علاج
اور آپریشن پر لاکھوں روپے کا تقاضا کرنا ایک عام آدمی کے لیے موت سے پہلے
موت کا پیغام بن جاتا ہے ۔اگر شوکت خانم میں گھٹنوں کے آپریشن اور ٹیسٹوں
کی جدید ترین لیبارٹری موجود ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں یہ سہولت کیوں
فراہم نہیں کی جارہی ۔ کیا حکومت خود عوام کو ایسے لالچی اور دولت کے
پجاریوں کے پاس بھیجنے کا مصمم اراردہ رکھتی ہے ۔ اس ملک کے مقتدر لوگ تو
پاکستان میں علاج کروانا بھی اپنی توہین تصور کرتے ہیں لیکن پاکستان میں
رہنے والوں کا کیا قصور ہے کہ وہ علاج کے لیے کبھی پیسوں کے لیے ترستے رہیں
اور کبھی ڈاکٹروں کی عدم دستیابی ان کے لیے مسائل پیدا کرتی رہے ۔یہ مسائل
کسی ایک شخص کے نہیں ہیں بلکہ ہر غریب آدمی ان مسائل کا شکار دکھائی دیتا
ہے ۔ ان حالات میں جبکہ انسانی صحت پر ہر جانب بیماریوں نے یلغار کررکھی ہے
کیا کو ئی اصلاح احوال کی صورت بھی باقی بچی ہے کہ بیماریوں اور غربت کے
ہاتھوں اسی طرح انسان قبروں میں اترتے رہیں گے ۔ |