میں اکثراخبارات میں کالم پڑھتا
رہتا تھا اور مجھے کالم پڑھ کر کالم لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا مگر کالم لکھ
کر بھیجوں تو کس کو بھیجوں۔مجھے تو کوئی جانتا تک نہیں اور نہ ہی کوئی میرے
کالم اخبارات میں پبلش کرے گا۔ اس سوچ وبچار میں کالم لکھتا اور پھاڑدیتا
۔اس طرح کی حرکات وسکنات کرتے کرتے کئی سال بیت گئے مگر کوئی بھی ایسا
استاد نہ ملا جو میرے اس شوق کو پورا کراسکتاہوپھرمجھے ایک دوست نے مقامی
اخبار کا ایڈریس دیا جس پر میں نے کالم بھیجنا شروع کیا اس طرح میراکالم
مقامی اخبار میں کبھی کبھار شائع ہوجاتامگر میں بھی دوسرے کالمسٹ کی طرح
بڑے بڑے اخبارات میں کالم لکھنا چاہتا تھا۔ ایک دن میری ملاقات پاکستان کے
ایک نامی گرامی کالمسٹ سے ہوئی۔ملاقات کا واقعہ بھی بہت دلچسپ اوربڑا حیران
کن تھا۔
میں اپنے قریبی رشتے دار کی بچی کی شادی میں شرکت کے لیے ان کے ہاں گیا۔
بارات ابھی لیٹ تھی۔لڑکی والوں نے مجھے بارات کے استقبال کے لیے دوسروں
دوستوں اور بزرگوں کے ساتھ کھڑا کردیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد بارات اپنی بڑی
آن بان کے ساتھ جلوہ افروز ہوئی ۔ تمام استقبالیہ والے لوگ آگے بڑھ کر ایک
دوسرے سے ملنے لگے۔ میں بھی سب باراتیوں کے ساتھ باری باری ہاتھ ملاتا رہا
کہ اچانک میرے ہاتھ میں ایک ہاتھ آیا جن کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا مگرمیں
اچھی طرح پہچان نہ سکا۔ خیر تمام لوگ اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور میں
بھی ایک طرف بیٹھ کر اس شخص کو ڈھونڈنے لگا جس سے میں ہاتھ ملا کر ششدر رہ
گیا تھا۔
ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد آخر میں نے اس ہستی کو ڈھونڈلیا۔میں نے ان صاحب
کو کالم کے لوگو میں ہی دیکھا ہوا تھا اورپہلی بار فیس ٹو فیس ملاقات ہورہی
تھی اس لیے میں ان کو فوراً تو پہچان سکامگرجب میں نے ذہن پر زور ڈالا کہ
اس شخص کو میں نے کہاں دیکھا ہے؟ آخر کار یاد آیا کہ یہ تو نامور کالمسٹ
عقیل خان ہیں مگر میں نے اپنے اس شک کو یقین میں بدلنے کے لیے بارات میں
آئے ہوئے ایک باراتی سے پوچھا کہ وہ جو کرسی پربیٹھے ہوئے ہیں وہ صاحب کون
ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ عقیل خان ہے ۔
بس پھر کیا تھا مجھے ان سے ملنے کا اور بھی تجسس بڑھ گیا اورمیں ہمت کرتے
ہوئے ان کے پاس چلا گیا ۔ ان سے دوبارہ ہاتھ ملایا اور گپ شپ شروع کردی۔
انہوں نے کہا کہ بھائی میں نے آپ کو نہیں پہچانا آپ کون ہیں؟ میں نے جواباً
کہا کہ بھائی آپ بڑے لوگ ہو ہم کو کیسے پہچانو گے مگر میں آپ کو اچھی طرح
جانتا ہوں ۔ آپ عقیل خان ہیں اور آپ اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ میں آپ کا
ہر کالم پڑھتا ہوں۔ مجھے آپ کے کالم بہت پسند ہیں۔
تعارف کے بعد ابھی ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی تھی کہ نکاح شروع ہوگیا ۔نکاح کے
فوراً بعد کھاناکھانے کا اعلان ہوگیا اور یوں ایک بار پھر خان صاحب اپنے
دوستوں میں چلے گئے ۔خیر میں نے بھی کھانا کھایااور اس کے بعد ایک بار پھر
نظریں خان صاحب کو تلاش کرنے لگیں۔ آخر کافی تگ و دو کے بعد پتہ چلا کہ خان
صاحب تو کھا نا کھا کر باہر جاچکے ہیں۔ باہر آکر دیکھا تو چند دوستوں کے
ہمراہ ایک درخت کے سائے میں کھڑے خان صاحب پان نوش فرما رہے ہیں۔ میں نے ان
کے پاس دوبارہ گیااور ان سے کہا کہ برادر تھوڑا سے ٹائم ہمیں بھی دے دیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج آپ ہمارے درمیان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں
آئیں آپ بھی ہمارے بھائی ہیں۔
پھر میں نے ان کے سامنے اپنی زندگی کی خواہش کااظہار کیاتو انہوں نے کہا کہ
یہ کونسا مشکل کام ہے اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تولکھیں اور جوکچھ مجھ سے
بن سکا میں آپ کے لیے کروں گا۔ میں نے کہا کہ کچھ اخبارات میں اگر میرے
کالم بھی شائع کرادیں تو میرے لیے باعث اعزاز ہوگا۔ انہوں نے بڑی اچھی اور
گرویدہ بنالینے والی بات کی ، انہوں نے کہا’’ہمت مرداں مدد خدا،میں کس
قابل، آپ کی اپنی قابلیت آپ کو بلندیوں تک لے کر جاسکتی ہے۔ میں تو وسیلہ
بن سکتا ہوں باقی تو آپ نے خود محنت کرنی ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی کسی کونسل کا
بھی ذکر کیاکہ اس کونسل کا مقصد نئی کالمسٹ کو آگے لانا ہے۔ انہوں نے مجھے
کالم کاری پرکافی گائیڈ کیا۔ بہت سے اہم نکات بھی بتائے۔ انہوں نے کہا کہ
میں آپ کو اخبارات کے ایڈریس ای میل کردوں گا تو آپ خود ان کو بھیج دینا
اور انہوں نے حسب وعدہ مجھے ایڈریس ای میل کیے۔تقریباً ایک گھنٹہ تک ہم لوگ
اکٹھے رہے پھر انہوں نے کہا کہ اب اجازت دو ہم نے کہیں اور بھی جانا ہے ۔اس
کے بعد وہ ہم سب سے ہاتھ ملا کر گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہوگئے۔
ان سے ملاقات کے بعد میں نے فوراًفیصلہ کرلیا کہ اب اپنا پہلا کالم اس ہستی
کے لیے لکھوں گا جس نے میرے شوق کو پروان چڑھانے میں میری مدد کی۔ جس نے
مجھے اپنی دل موہ لینے والی باتوں سے اپنا گرویدہ بنا لیا اور آج میں نے
اپنا کالم اخبارات کوخان صاحب کی نظرکیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ خان
صاحب کے زورقلم اور زیادہ طاقت دے۔ انہیں اپنے جونئیر کی رہنمائی کرنے کے
مزید ہمت دے ۔ آمین |