ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور انہیں تسخیر کرنے کا خواب
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
مریخ پر پلاٹوں کی خرید و فرخت
ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور انہیں تسخیر کرنے کا خواب اب حقیقت کی جانب بڑھ
رہاہے اس کا اندازہ مریخ پر پلاٹوں کی بکنگ اور ٹکٹ کے لئے بکنگ سے ہوتا
ہے۔ اب یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک انسانی قدم اس سیارے پر
ہوں گے۔ پراسرار اور دور دراز سرزمینیں، نامعلوم سمندر اور نادریافت شدہ
جزیرے ہمیشہ ہی سے مہم جوؤں کو اپنی طرف کھینچتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابیں
ایسے سرپھرے مہم جوؤں کے واقعات سے بھری پڑی ہیں جو شدید خطرات کو خاطر میں
نہ لاتے ہوئے انجانی منزلوں کے سفر پر نکل جاتے تھے۔ کولمبس اور مجیلن ایسے
ہی دو نام ہیں مجیلن نے دنیا کے گرد پہلا چکر لگایا تھا۔ کولمبس نے امریکہ
دریافت کرلیا تھا۔ زمین سے انسان اب دوسرے سیاروں کی سرزمین پر جانا چاہتا
ہے۔ مریخ کی سرخ پہاڑیاں انسانوں کو اپنی زمیں جیسی ہی لگتی ہیں۔انسانوں نے
ابھی مریخ کی زمین پر قدم نہیں رکھا کہ مریخ پر زمیں کی خرید و فروخت شروع
ہوگئی۔ امریکی جریدے نیوز ویک نے اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ ایک
امریکی کمپنی نے مریخ پر پلاٹوں کی خرید فروخت شروع کر دی ہے۔ اب جب آپ نے
یہ طے کرلیا ہے کہ اب چاند پر یا مریخ پر جاکر رہنا ہے تو وہاں گھر بھی
بنیں گے اور پلاٹ بھی فروخت ہوں گے۔ خیال ہے کہ 2018 میں مریخ کے لئے
باقاعدہ فلائٹ شروع ہوجائیں گی۔ لیکن یہ یہ طرفہ ہوں گی، یعنی واپسی کا ٹکٹ
ہی نہیں ہوگا۔ پلاٹ ہیں بھی بہت سستے، صرف 22.99 ڈالر یا 19.99 ڈالر فی
ایکڑ ، ان پلاٹوں کی بکنگ لونز ایمبیسی نامی امریکی کمپنی نے شروع کی ہے،
جس کے بانی ڈینس ہولس نے اس کاروبار سے اب تک ایک کروڑ ڈالر کمالیئے ہیں۔
پلاٹ بک کرانے والے بھی عام لوگ کے ساتھ بڑے لوگ بھی ہیں۔ جن میں امریکی
سابق صدر رونالڈ ریگن اور جارج ڈبلیو بش بھی شامل ہیں۔ مریخ کی چمکدار چٹان
سے سائنسدان حیران ہیں۔ مریخ پر جانے کے خبط میں امریکہ ، یورپ کے لوگ ہی
نہیں بھارت والے بھی ہیں۔ بھارتیوں نے مریخ کی جانب قدم بھی بڑھائے لیکن
مریخ کی جانب روانہ ہونے والے بھارتی خلائی جہاز کے انجن فیل ہونے سے ان کا
مشن ناکام ہوگیا ہے۔ مریخ پر جانے والوں کی ابھی بکنگ شروع ہوئی ہے۔ اس لیے
شاید یہ بات زیادہ حیران کن نہیں ہے کہ مارز ون کو ٹکٹ کھلنے سے پہلے ہی
ہزاروں امیدوار درخواستیں بھیج چکے ہیں، حالانکہ یہ وہ سفر ہے جس میں واپسی
کی گنجائش نہیں ہے۔ایسے مہم جوؤں کی کچھ خصوصیات بھی ہوں گی۔ وہ مستقل مزاج
ہوں، خود کو حالات میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، باتدبیر ہوں اور دوسروں
کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کے اہل ہوں۔ آغاز سے ابتدا تک اس تمام سفر کی
فلم بندی ریئلٹی ٹی وی کے انداز میں کی جائے گی۔لندن میں بی بی سی کے دفتر
کے دورے میں مارز ون کے شریک بانی بیس لینڈورپ نے تفصیل بتائی کہ یہ سفر یک
طرفہ کیوں ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ مریخ کے سات سے آٹھ ماہ تک کے سفر میں
خلابازوں کی ہڈیوں اور پٹھوں کی کمیت کم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ مریخ کی
کم کششِ ثقل میں رہنے کے بعد ان کے لیے زمین کی زیادہ طاقت ور کششِ ثقل میں
اپنے آپ کو دوبارہ ڈھالنا تقریباً ناممکن ہو گا۔ دنیا اسلام میں جہاں ہر
معاملے میں حلال و حرام کی بحث ہوتی ہے، مریخ پر جانے کے بارے میں بھی یو
اے ای کے علماء نے فتوی جاری کردیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی اسلامی امور
اور وقف کی جنرل اتھارٹی نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ سرخ
سیارے مریخ پر جانا اسلام کی روح سے حرام ہے۔یواے ای کے اخبار خلیج ٹائمز
میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ''اس طرح کے یک
طرفہ سفر سے انسانی جان کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اس کا اسلام میں کوئی
بھی جواز پیش نہیں کیا جاسکے گا۔نیز یہ ممکن ہے کہ جو شخص مریخ سیارے پر
جاتا ہے،وہ زندہ نہ رہ سکے اور اس کے موت کے منہ میں جانے کے زیادہ امکانات
ہیں''۔اس اتھارٹی نے خبردار کیا ہے کہ جو لوگ مریخ پر جانے کے خطرناک سفر
میں حصہ لیں گے،وہ کسی جائز جواز کے بغیر اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے اور
انھیں خودکشی کی حرام موت مرنے والوں کی طرح سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خلیج ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ فتویٰ نیدر لینڈز کی''مارس ون
کمپنی'' کی جانب سے اپریل 2013ء میں رضاکاروں سے مریخ پر جانے اور وہاں
رہنے کے لیے طلب کردہ درخواستوں کا ردعمل ہوسکتا ہے۔اس تمام مہم کے لیے
کمپنی نے صرف اڑتیس ڈالرز فیس طلب کی تھی۔اس مہم کا مقصد مریخ پر انسانوں
کو مستقل طور پر بسانا ہے۔اس مہم پر روانہ ہونے کے لیے دنیا بھر کے ایک
سوچالیس ممالک سے تعلق رکھنے والے دولاکھ سے زیادہ رضاکاروں نے اپنے ناموں
کا اندراج کرایا ہے۔ان میں سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے تعلق رکھنے
والے پانچ سو افراد بھی شامل ہیں۔اس مہم پر بھیجے جانے والے افراد کے
انتخاب کا دوسرا مرحلہ اس سال شروع ہوگا اور مریخ اول کی سلیکشن کمیٹی
امیدواروں کے ذاتی انٹرویوز کرے گی۔یواے ای کی اسلامی اتھارٹی نے اپنے فتوے
میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ بعض رضاکار محض اس لیے مریخ پر جانا چاہتے
ہیں تا کہ وہ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے سے بچ سکیں۔مریخ کا
یک طرفہ سفر آٹھ سال بعد 2022ء میں شروع ہوگا اور ڈچ کمپنی کو اس کی قریباً
چھے ارب ڈالرز لاگت آئے گی۔اس سفر پر جانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کی
عمریں اٹھارہ سے چالیس سال کے درمیان ہوں اور ان کی جسمانی صحت اچھی ہو
لیکن اس کمپنی کی جانب سے یہ وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کہ اگر اس کی مہم
روانہ ہی نہ ہوسکی توپھر لوگوں سے وصول کردہ رقم کیسے لوٹائی جائے گی۔
کامیاب امیدواروں کو جسمانی اور ذہنی تربیت دی جائے گی۔ ٹیم اس منصوبے کے
تمام پہلوؤں کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی ہی استعمال کرے گی۔ توانائی شمسی
پینلوں سے حاصل کی جائے گی، پانی زمین سے نکالا جائے گا اور آباد کار اپنی
خوراک خود پیدا کریں گے۔تاہم کیا یہ سوچنا حقیقت مندانہ ہے کہ انسان مریخ
پر بس سکتا ہے؟مریخ سورج سے خارج ہونے والے طاقت ور ذرات کی مسلسل بمباری
کی زد میں ہے، جسے شمسی ہوا کہا جاتا ہے۔ مریخ کی فضا بہت پتلی ہے کیوں کہ
خیال ہے کہ شمسی ہوا نے اس فضا کے بڑے حصے کو ختم کر دیا ہے۔کہا جارہا ہے
کہ مریخ پرآبادکار دو یونٹوں میں رہیں گے جب کہ بقایا یونٹوں میں امدادی
سازوسامان رکھا جائے گا۔ منصوبے کے مطابق اس مریخی بستی میں ہر دو سال کے
بعد چار مزید افراد شامل ہوتے رہیں گے۔یونیورسٹی آف ایریزونا کی ڈاکٹر
ویرونیکا برے کہتی ہیں کہ مریخ کی سطح زندگی کے لیے انتہائی ناسازگار ہے۔
انھیں اس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ وہاں مائع
پانی نہیں پایا جاتا، ہوا کا دباؤ تقریباً خلا کے برابر ہے، تابکاری بہت
زیادہ ہے اور درجہ حرارت میں انتہائی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔’تابکاری بہت بڑا
خدشہ ہے، خاص طور پر سفر کے دوران۔ اس سے سرطان کا خطرہ بڑھ جائے گا، قوتِ
مدافعت کمزور ہو جائے گی اور ممکنہ طور پر بانجھ پن پیدا ہو جائے
گا۔‘تابکاری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مریخی آبادکاروں کو اپنے ٹھکانوں کو
کئی میٹر موٹی مٹی کی تہہ سے ڈھانپنا پڑے گا۔ تاہم اس میں مشکلات بھی ہیں۔
ڈاکٹر برے کہتی ہیں، ’مجھے اس بات میں شک نہیں ہے کہ ہم مریخ پر انسان کو
بھیج سکتے ہیں۔ لیکن کیا وہ وہاں لمبے عرصے تک رہ پائیں گے؟ ناسا کے خلاباز
سٹین لو ان مشکلات کو اچھی طرح جانتے ہیں کیوں کہ ان کے ساتھی زمین کے نچلے
مدار میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر ان کا تجربہ کر چکے ہیں۔وہ آلات جو
انسانی آلائشوں کو ری سائیکل کرتے ہیں اور ’گذشتہ کل کی کافی کو آئندہ کل
کی کافی میں ڈھالتے ہیں، انھیں مستقل دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے۔ قرینِ
قیاس یہ کہ یہ ٹیکنالوجی مریخ پر لمبے عرصے تک کام نہیں کر پائے گی۔‘مریخ
کو بے رحم سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین اور مریخ
کی فضا ابتدا میں ایک جیسی تھی، لیکن بعد میں مختلف ہو گئی۔مریخ کی فضا بہت
پتلی اور ہلکی ہے، وہاں انتہائی سردی ہوتی ہے، اور پانی جما ہوا اور
زیرِزمین ہے ۔اس بات کے شواہد ہیں کہ ایک زمانے میں مریخ پر پانی کے سمندر
پائے جاتے تھے۔مریخ کی پتلی فضا سطح کی گرمی کو برقرار نہیں رکھ سکتی اور
یہ خلا میں ضائع ہو جاتی ہے۔لو حال ہی میں انٹارکٹیکا کے برفستان سے لوٹے
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انٹارکٹیکا ’مریخ کے مقابلے پر پکنک کی طرح
ہے۔‘’انٹارکٹیکا پانی سے مالامال ہے۔ آپ کھلی فضا میں جا کر سانس لے سکتے
ہیں۔ یہ مریخ کے مقابلے پر جنت ہے، لیکن اس کے باوجود آج تک وہاں پر کوئی
مستقل طور پر جا کر آباد نہیں ہوا۔‘لیکن اس کے باوجود لو مارز ون پراجیکٹ
کو سراہتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ نجی کمپنیاں اس بارے میں لوگوں کی معلومات
میں اضافہ کر سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر کوئی ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کر سکتی
ہیں جو مستقبل میں مریخ پر انسانوں کو بسانے میں معاون ثابت ہو سکے۔’ہم
پچھلے 50 برسوں سے یہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ چاند کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ
وہ مریخ جانے کے لیے درمیانی منزل ثابت ہو گا۔ لیکن جب آپ اس مسئلے پر غور
کرتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ بیحد مشکل کام ہے۔‘یہ ایک مہنگا
منصوبہ ہے۔اس منصوبے کے تحت لوگوں کی پہلی کھیپ بھیجنے پر چھ ارب ڈالر خرچ
آئے گا۔آکسفرڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر کرس لینوٹ کہتے ہیں کہ اگرچہ تکنیکی طور
پر یہ منصوبہ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے رقم اکٹھی نہیں ہو سکے گی’اس مقصد کی
تکمیل کے لیے سیاسی عزم اور مالی وسائل درکار ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے آج
تک کوئی حل نہیں کر سکا۔‘لیکن لینڈورپ کو رقم کی فراہمی میں کوئی مشکل نطر
نہیں آتی۔ وہ اولمپکس کی عالمی براڈکاسٹ کے حقوق سے پیدا ہونے والے سرمایے
کی مثال پیش کرتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا
کارنامہ ہو گا۔ اسے لوگ 15 سال بعد بھی دیکھ رہے ہوں گے۔’زمین اور زمین سے
باہر کی دنیاؤں کا کھوج لگانا انسان کے ڈی این اے میں ہے۔ ان مہم جوؤں کے
مریخ جانے کا خواب ایک دن پورا ہو کر رہے گا۔‘آیا یہ مشن اپنے مقصد میں
کامیاب ہو گا یا نہیں، ٹیلی ویڑن پر درخواست دینے والوں کے براہِ راست
دکھائے جانے سے اتنی تشہیر ضرور ہو گی کہ دنیا کی آنکھیں اس مشن پر لگی
رہیں گی۔21 سالہ راستوگی ان 1058 درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنھیں مریخ
کے یک طرفہ سفر کے لیے ابتدائی مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ولندیزی
تنظیم ’مارز ون‘نے 2024 میں مریخ کا یک طرفہ ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان کیا
تھا جس کے بعد دنیا بھر سے 20 لاکھ افراد نے مریخ کے یک طرفہ سفر پر جانے
کی درخواستیں بھیجی تھیں اور ان میں سے اب تک 1058 کو منتحب کیا گیا ہے۔ اس
کے بعد دوسرے، تیسرے اور آخری مرحلے میں صرف 24 افراد کو مریخ کے سفر پر
روانہ کیا جائے گا۔درخواست گزاروں میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ 62 بھارتی
شہری شامل ہیں۔
حتمی امیدواروں کو مریخ کے سفر پر روانہ کیے جانے سے پہلے 2015 سے سات سالہ
تربیت شروع کی جائے گی۔منتخب افراد کو خود کو حالات میں ڈھالنے کی صلاحیت
حاصل کرنے کی تربیت اور ایک چھوٹے گروہ میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام
کرنے اور رہنے کا اہل بنایا جائے گا۔بھارتی درخواست گزاروں میں زندگی کے
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان میں طالب علم، چھوٹا
موٹا کاروبار کرنے والے، بازارِ حصص کے سٹاک بروکر اور اعلیٰ نوکریوں پر
فائز افراد شامل ہیں۔
مثال کے طور پر ان میں مشرقی شہر کلکتہ کے رہائشی 24 سالہ آرندم ساہا بھی
شامل ہیں۔ وہ توانائی کے متبادل ذرائع کے شعبے میں کام کرتے ہیں اور انھوں
نے مریخ کے سفر کے لیے شادی کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔آرندم کے مطابق:
’مجھے شک تھا کہ ایک ایسے شخص سے کوئی خاتون شادی نہیں کرے گی جو مریخ پر
رہائش پذیر ہونا چاہتا ہو۔ اسی لیے میں نے شادی کا ارادہ ترک کر دیا ہے،
میری کوئی محبوبہ نہیں اور نہ ہی شادی کرنے کی کوئی خواہش ہے۔‘درخواست دینے
کی فہرست میں ممبئی سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ سٹاک بروکر اشیش مہتا بھی
شامل ہیں۔ اشیش کے مطابق ان کے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مریخ کا سفر شامل
ہے۔ ’میں 20 سال سے شادی کے بندھن میں ہوں، میرا ایک 19 سالہ بیٹا اور ایک
17 سالہ بیٹی ہے، میں نے اپنے مکان کی قسطیں ادا کر دی ہیں اور پانچ سے چھ
کروڑ روپے کا سرمایہ میرے پاس ہے، میرا خیال ہے کہ میں نے اپنے خاندان کے
لیے بہت کچھ کر دیا ہے۔‘اشیش کے مطابق: ’جب میں مریخ کے سفر پر روانہ ہوں
گا تو اس وقت میرے بیٹے کی عمر 29 سال اور بیٹی کی عمر 27 سال ہو گی۔ اس
وقت تک انھوں نے یقینی طور پر اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد شادی کر لی ہو
گی۔ میری خواہش ہے کہ جب میں سفر پر روانہ ہوں تو اپنے پوتوں، نواسوں کو
دیکھ کر جاؤں۔‘اگرچہ کامیاب درخواست گزاروں کو مریخ کے سفر کے لیے تربیت دی
جائے گی لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ ایک ایسے سیارے پر گزارا کیسے کریں گے
جہاں زندگی کے لیے حالات سخت غیرموافق ہیں۔مریخ کی فضا بہت ہلکی ہے، وہاں
موسم شدید سرد ہے اور پانی ممکنہ طور پر ہے تو سہی، لیکن زیرِ زمین منجمد
حالت میں۔خطرناک تابکار ذرات سے لیس شمسی جھکڑ ایک اور پریشانی ہیں۔ اس کے
علاوہ سرمائے اور ٹیکنالوجی کے حصول کے بارے میں بہت سے سوالات حل طلب
ہیں۔ونود کے مطابق زندگی میں ایسا موقع ایک بار ہی آتا ہے اور وہ اسے ہاتھ
سے جانا نہیں چاہتے۔جیراڈ ہوفٹ جیسے نمایاں سائنس دان حیران ہیں کہ مریخ کے
سفر کے لیے سرمایہ کہاں سے حاصل کیا جائے گا کیونکہ منتخب کردہ امیدواروں
سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جائے گا۔لیکن مارز ون کے شریک بانی بیس لینڈورپ کو
یقین ہے کہ وہ دس سالوں میں انسان کو کامیابی سے مریخ پر اتار سکتے ہیں۔ان
کا کہنا ہے کہ ان کو اس مشن کے لیے چھ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اس رقم کو
ہائی پروفائل عطیات اور نشریاتی حقوق فروخت کر کے حاصل کرنے کا منصوبہ
ہے۔بیس لینڈورپ کے مطابق: ’اگر لندن اولمپکس تین ہفتے کے ایونٹ میں نشریاتی
حقوق اور تشہیری ذرائع سے چار ارب ڈالر حاصل کر سکتا ہے تو مارز ون ایسا
کیوں نہیں کر سکتا؟ یہ ایسا ہی ہو گا کہ لوگ اولمپک مقابلے، غیر معمولی
لوگوں اور چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔‘دریں اثنا بھارتی درخواست گزار مریخ پر
انسانوں کو بسانے کے سلسلے میں پرامید ہیں۔ توانائی کے ایک سرکاری ادارے
میں مینیجر ونود کوٹیا کے مطابق وہ مریخ پر جا کر مثال قائم کرنا چاہتے
ہیں۔’میں اس خوف سے نہیں جا رہا کہ زمین پر کسی دن کچھ ہو جائے گا، میں
مثال قائم کرنا چاہتا ہوں اور زندگی میں ایسا موقع ایک بار ہی ملتا ہے اور
میں اسے کسی صورت میں ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ دو سال پہلے مریخ پر
بھیجی جانے والی خودکار روبوٹ گاڑی ’کیوروسٹی‘ کے پہیوں کے نیچے کچلی جانے
والی ایک چٹان نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا تھا۔ سرخ سیارے کے نام سے
معروف مریخ پر پائی گئی یہ چٹان چمکدار سفید رنگ کی ہے اور اسے ’ٹنٹینا‘ کا
نام دیا گیا ہے۔چٹان کا یہ غیرمعمولی رنگ ایسے ہائیڈریٹ یا آبی خاصیت والے
معدنیات کی موجودگی کا اشارہ ہے جو قدیم زمانے میں اس وقت وجود میں آئے تھے
جب مریخ کی سطح پر پانی بہتا ہوگا۔ٹنٹینا میں آبی خاصیت والی معدنیات کی
نشاندہی سے اس سیارے پر ماضی میں پانی کی موجودگی کے خیال کو تقویت پہنچی
ہے۔سفید چٹان کی موجودگی کا اعلان امریکی ریاست ٹیکساس میں چاند اور سیاروں
کے بارے میں چوالیسیوں سالانہ کانفرنس میں کیا گیا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا
ہے اس دریافت کے نتیجے میں اس خیال میں ایک قدم مزید پیش رفت ہوئی ہے جس کے
مطابق سرخ سیارہ کبھی زندگی کے لیے سازگار تھا۔مریخ کے بارے میں کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے چیف سائنسدان جان گراٹزنگر کا کہنا تھا کہ کیوروسٹی مریخ پر
جس جگہ اتری ہے وہ اس سیارے پر دریافت ہونے والا پہلا ماحول ہے جہاں زندگی
پنپ سکتی تھی۔امریکی خلائی ادارے ناسا کی روبوٹ گاڑی اگست 2012 میں مریخ پر
اتاری گئی تھی۔ اس گاڑی نے جو تصاویر بھیجی ان کے مطابق ’کیمرے نے جو دیکھا
ہے وہ چٹانوں کے معدنی ڈھانچے میں موجود پانی ہے۔ یہ پانی ماضی کے آبی دور
کا ہے اور اب آبی خاصیت والی معدنیات میں محفوظ ہے۔‘امریکی خلائی ادارے
ناسا نے کہا ہے کہ مریخ گاڑی کیوروسٹی نے ایک اور اہم دریافت کی ہے۔مریخ
گاڑی نے ایک چٹان میں کھدائی کر کے مٹی کے مرکبات کا سراغ لگایا تھا۔ جن سے
یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یا تو پانی کی اندر وجود میں آئے تھے یا پھر پانی ان
پر خاصا اثرانداز ہوا ہے۔مریخ کے لیے کیوریاسٹی کامشن مہنگے ترین خلائی
پروگرام میں سے ایک ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے سرخ سیارے کی سطح پر اس
چلتی پھرتی لیبارٹری کے پروگرام پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔مریخ کئی
صدیوں سے انسانی تجسس کا مرکز ہے۔ طاقت وردوربینوں کی ایجاد کے بعد اس
سیارے کی سطح کے بارے میں کئی مفید معلومات حاصل ہوئیں اور خلائی سائنس کی
ترقی نے تحقیق کے نئے راستے کھول دیے۔1965ء میں مریخ کے مدار میں پہلا
امریکی راکٹ میرینر فور پہنچاجس سے سیارے پر پانی کی موجودگی کے شواہد
فراہم کیے۔مریخ کی لطیف فضا کے باعث وہاں کیوریاسٹی کا اتارا جانا سائنس
دانوں کے لیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں تھا۔ راکٹ سے الگ ہونے کے بعد
کیوریاسٹی کو مریخ کی سطح پر اترنے میں سات منٹ لگے۔ سات منٹ میں کیوریاسٹی
کی رفتار 13200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سیصفر تک لانا ایک دشوار مرحلہ تھا،
جسے سائنس دانوں نے خوف کے سات منٹ کا نام دیا تھا۔ اسے مریخ کی ریتلی سطح
پر اتارنے کے لیے پیراشوٹ اور رفتار کم کرنے والے راکٹ انجن استعمال کیے
گئے اور یہ منظر ناسا کے مرکزی کنٹرول روم میں سائنس دانوں نے اپنی سانسیں
روک کردیکھا اوراس کے بحفاظت مریخ کی سطح چھونے کے بعد سائنس دانوں کی خوشی
دیدنی تھی۔ ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے سائنس دان مینوئل ہواریس کہتے
ہیں، ’یہ بگولا ویسا ہی ہوتا ہے جو آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا کہ یہ دھول
کے ایک ننھے سے ٹورنیڈو کی مانند ہوتا ہے۔ اس مظہر کو سمجھنا بہت ضروری ہے
کیوں کہ مریخ کے موسم کا تعین بڑی حد تک انھی بگولوں سے ہوتا ہے۔‘یہ گردباد
بعض اوقات پورے سرخ سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یہ گرد فضا کو بھی
گرم کر دیتی ہے۔کیوروسٹی پر نصب آلات سے پتا چلا ہے کہ گاڑی جس گڑھے کے
اندر اتری تھی وہاں عام طور پر ہوائیں مشرق سے مغرب کی طرف چلتی ہیں۔ یہ
بات سائنس دانوں کے لیے حیران کن تھی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ وہاں موجود
پہاڑ کی وجہ سے یہ ہوائیں شمال سے مغرب کی جانب چلیں ۔ناسا کی جانب سے مریخ
پر بھیجے گئے روبوٹ کیوروسٹی نے مریخ کی زمین کے نمونے بھجوائے ہیں جن کی
جانچ پڑتال کے بعد پتا چلا ہے کہ یہ نمونے امریکی جزیرے ہوائی پر ملنے والی
مٹی سے ملتے جلتے ’سیم‘ مٹی کے نمونوں میں سے نامیاتی مرکبات کا اندازہ
لگائے گا، یا ایسے مرکبات جن میں کاربن کی موجودگی ہو جن سے مریخ پر حال یا
ماضی میں زندگی کے شواہد مل سکیں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ
مریخ پر بھیجی گئی ’کیوروسٹی‘ نے اپنا پہلا آزمائشی سفر مکمل کر لیا
ہے۔مریخ پر زندگی کی تحقیق میں کیوروسٹی نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس
تحقیقاتی مشن میں ویسے تو اور بھی آلات تھے۔لیکن کم کیم سب سے زیادہ توجہ
کا مرکز بنا ہوا ہے کیوں کہ یہ گاڑی کے اوپر لگا ہوا ہے اور اس کے شعاعیں
تئیس فٹ کے فاصلے پر پڑے پتھروں تک پہنچتی تھی۔ آلے سے نکلنے والی انفرا رڈ
شعاعیں ہدف پر ایک ملین واٹ توانائی کے ساتھ پڑتی ہیں اور وہ بھی ایک سیکنڈ
کے اربویں حصے سے کم وقت کے لیے۔اس سے چنگاری پیدا ہوتی ہے اور یہ آلہ
دوربین کے ذریعے معائنہ کرتا ہے۔ اور پھر سائنسدان رنگوں سے معلوم کرتے ہیں
کہ کس قسم کے کیمیائی عناصر پتھر میں موجود ہیں۔مریخ پر کیوروسٹی کے دو
سالہ قیام کے دوران کم کیم تجربات کے لیے نمونے اکٹھا کرنے میں اہم کردار
ادا کیا ہے۔ اب حضرت انسان جب مریخ پر پہنچیں گے تو پتہ چلے گا کہ زمین کی
گود اچھی تھی یا آسمان پر چمکتے سیارے۔ |
|