پاکستانی میڈیا کا وہ دھڑا جو اس
وقت زور و شور سے ’جیو ‘ پچھاڑ مہم کا حصہ بنا ہوا ہے اور اپنے طاقتور ترین
کمرشل حریف کو چت کرنے کا ایسا نادر موقع کسی صورت ہاتھ سے جانے دینے پر
تیار دکھائی نہیں دیتا کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہاتھیوں کو پکڑنے کے مقصد
سے جو گڑھا کھودا جاتا ہے اس میں آج ایک ہاتھی آن گرا ہے تو کل کسی اور کی
باری بھی آئے گی۔ ذاتی و کمرشل مفادات کے حصول کو جذبہ حب الوطنی و مذہبی
عقیدت کا لبادہ اوڑھانے والے سورماؤں کو پیمرا کے پرائیوٹ ممبران کے ایک
متنازع فیصلے پر چھلانگیں مارنے سے پہلے عقل کو ہاتھ مار کر دیکھ لینا
چاہیے کہ پرائیوٹ ممبران جیسی کٹھ پتیلیوں کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی
ہیں۔ ایسی ہی محبت دکھانے والوں کا حال جناب احمق پھپھوندوی نے کیا خوب
لکھا ہے:
اگر ہم جان بھی دیدں محبت میں تو کیا حاصل
وہاں عاشق کی خدمت قابلِ تحسیں نہیں ہوتی
عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے کہ میڈیا ہاؤسز کسی ایک ٹی وی چینل کے
خلاف متحد ہو کر پاکستان کی کوئی خدمت سر انجام نہیں دے رہے بلکہ ایسے
اقدام پاکستان کو چار قدم پیچھے کی جانب دھکیل دیں گے۔ ایک مکمل آزاد میڈیا
معاشرے کی آواز ہوتا ہے ! آواز اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی پر شاید
ہمارے حقیقی بڑے صرف وہی راگ رنگ سننا چاہتے ہیں جو انکی روح کی تسکین کا
باعث بنے۔
وہ ادارے جن کی محبت کا دم بھرتا آج کل میڈیا کا یہ دھڑا اور عوام نہیں
تھکتے ان کے لئے مشورہ مفت ہے کہ روز صبح نہار منہ پانی بھگوئے تین عدد
بادام چھلکا اتار کر کھایا کریں حافظہ میں بہتری کے ساتھ ساتھ قوت بصارت
میں اضافہ ہو گا اور پاکستان کی تاریخ صاف صاف دکھائی دینے لگے گی! تاریخ
میں گھسے تو بات دور تلک جائے گی اسی لئے بالخصوص میڈیا کی آزادی کے حوالے
سے بس اتنا یاد کروانا ہی مناسب ہے کہ وہاں ملک دو لخت ہو رہا تھا اور یہاں
’سب اچھا ہے‘ کی خبر تھی۔ سرکاری انفارمیشن ہمیشہ ’سب اچھا ہے‘ نامی موذی
وائرس کا شکار ہوتی ہے لہذا اس سے بچنا اشد ضروری ہے اور واحد طریقہ آزاد
میڈیا نامی ویکسی نیشن ہے۔ بہر حال فیصلہ میڈیا اور عوام کے ہاتھ میں ہے کہ
وہ کس جانب کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ ذاتی و کمرشل مفادات کے حصول اور جذبات کی
تسکین کر کے پاکستان کو واپس وائرس زدہ سرکاری کنٹرولڈ انفارمیشن کے دور
میں دھکیلنا ہے یا غلطیاں سدھار کر آگے بڑھنا ہے!
غلطیاں سب سے سرزد ہوتی ہیں۔ یہاں کوئی فرشتہ نہیں۔ نہ کوئی ادارہ اور نہ
ہی کوئی شخص!نہ کسی کا ماضی بے داغ ہے اور نہ کسی کا حال۔ اسی طرح میڈیا سے
سرزد ہوئی غلطیوں کی نشاندہی بھی ضرور کی جانی چاہیے پر اصلاح کے مقصد سے!
فوجی ڈکٹیٹروں کی غلطیاں پاکستان کے سیاہ ترین ادوار تخلیق کرنے کا موجب
بنیں تو کیا افواجِ پاکستان کے ادارے کو ہی ختم کر دینا چاہیے؟ سیاسی
قائدین کی غلطیاں ملک میں بد ترین انتشار کا باعث بنتی رہی ہیں تو کیا ان
کی سیاست و سیاسی جماعتیں ہی ختم کر دی جانی چاہییں؟عوام کے محبوب کھلاڑی
چند ٹکوں کی خاطر ملک کا نام بیچتے رہے تو کیا کرکٹ کے کھیل ہی پر پابندی
عائد کر دینی چاہیے؟ ہر ادارے کی ایک بنیاد اور مقصد ہوتا ہے۔ ادارے
اہلکاروں سے بلند ہوتے ہیں۔ ادارے اپنے آپ میں قانونی حیثیت رکھتے
ہیں۔اہلکار آتے ہیں جاتے ہیں پر ادارے اپنا وجود قائم رکھتے ہیں۔ادارے
اہلکاروں کی غلطیاں بھی بھگتتے ہیں اور انہی کی اچھی کارکردگی پر نام بھی
کماتے ہیں!!! ادارے غلطیاں کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں
اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہی ارتقاء ہے۔ یہی ترقی ہے۔
بات سادہ سی ہے! کسی ایک میڈیا ہاؤس کو نشانہ بنا کر مفادات و جذبات کا
کھیل کھیلتے رہنا پاکستان کے لئے نان ایشو ہے ! نان ایشوز پر وقت برباد
کرنے سے بہتر ہے کہ حقیقی عوامی مسائل پر قوت صرف کی جائے۔ کسی جانب سے یہ
سوال نہیں اٹھایا جا رہا کہ موسمِ برسات سر پر آن کھڑا ہے۔ کیا اس سال بھی
لاکھوں کیوسک بارانِ رحمت سیلاب کی رو عذابِ الہی بن کر پاکستان کے طول و
عرض میں تباہی مچاتا سمندر میں جا گرے گا۔ پچھلی برسات سے اب تک اس قیمتی
برساتی پانی کو سیلاب میں تبدیل ہونے سے روکنے اور محفوظ و قابلِ استعمال
بنانے کے لئے کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ یا اس مرتبہ بھی حکومتوں کا زور سیلاب
زدگان میں راشن تقسیم کر کے تشہیری مہم پر رہے گا اور نشیبی علاقوں میں
نکاس آب کے لئے پمپ چلا کر عوام کی خدمت کی جاتی رہے گی؟ کہیں سے یہ بحث
بھی سماعت سے نہیں ٹکرائی کہ ڈالر کی قیمت 98-99 روپے فی ڈالر آنے کے
باوجود کمرشل امپورٹر اور درآمدی اشیاء کوبروئے کار لا کر مینوفیکچرنگ کرنے
والے صنعت کاروں نے ان اشیاء کی قیمتیں 107 روپے فی ڈالر کی سطح سے کم کرنا
تو درکنار بلکہ دیدہ دلیری دیکھئے انہیں بڑھا دیا ہے۔ ایسی سفاکانہ و
مجرمانہ منافع خوری کے سدِباب اور ڈالر کی قیمت میں کمی کا فائدہ عوام تک
پہنچانے میں حکومت کی مکمل ناکامی پر بھی کوئی سوال کرنے کو تیار نہیں!
سالانہ بجٹ کی آمد آمد ہے۔ حکومت 255 ارب روپے کے نئے محصولات لگانے پر غور
کر رہی اور ہدف یقینا عوام الناس کی جیب ہے۔ دفاعی بجٹ میں 10فیصد اضافہ
کیا جا رہا ہے۔کیا کوئی محب الوطن اس اضافے کے خلاف آواز اٹھانے پر تیار
ہے؟ تعلیم اور صحت پر کیا خرچ ہو رہا ہے؟ اسلحہ پر کتنا خرچ کیا جا رہا ہے؟
وہ اسلحہ اور سیکیورٹی جس پر کم و بیش 25-30 فیصد بجٹ خرچ کرنے کے باوجود
دہشت گرد قریباٌ 60 ہزار پاکستانی قتل کر چکے ہیں ۔ اسی طرح ایک سڑک چھاپ
عام پاکستانی کی زندگی کس حد تک محفوظ ہے؟ کیا کوئی پاکستانی اداروں کی
رگوں میں سرائیت کر چکی کرپشن کوجڑ سے اکھاڑ نہ پھینکنے کی وجوہات حکومتِ
وقت سے پوچھنے کی جسارت کرنے پر تیار ہے۔ صرف کرپشن ختم کر کے اربوں روپیہ
بچایا جا سکتا ہے ، نئے محصولات سے بچا جا سکتا ہے لیکن فکر کس کو؟ بجلی کی
بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگے ترین ذرائع سے بجلی پیدا کیے جانے کے منصوبوں
پر کون بات کرنا چاہے گا؟مسائل کی فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے کہ پرانے
مسائل جوں کے توں کھڑے ہیں اور نئے مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے!!!
عوام اور میڈیا کھوکھلی نعرے بازی میں مصروف ہیں ۔ کھوکھلی نعرے بازی
اورکمزور ہتھکنڈوں کی غلیل سے دو چار چڑیاں مار بھی گرائیں تو کیا حاصل !
جلد ہی حقیقی عوامی ایشوز عفریت بن کر سر اٹھائیں گے تو اسی نعرہ باز عوام
اور میڈیا کو حقیقی مسائل کی جھلساتی دھوپ میں سر چھپانے کے لئے سایہ تک
میسر نہیں ہو گا۔ |