رانا نسیم جمعرات 22 نومبر 2012
سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی
حاصل کرنا۔ اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا، مختلف قدرتی چیزوں کے
بارے میں سوچنا اور پھر اس پر تجربہ کرنے والے کو سائنسدان کہتے ہیں۔
انسانیت کی فلاح کے لئے بلاشبہ سائنس نے بہت سی خدمات سرانجام دی ہیں۔ یہ
سائنس ہی ہے جس نے ہزاروں سال سے پائی جانے والی بیماریوں کی نہ صرف تشخیص
کی بلکہ ان کا علاج بھی بتا دیا۔
کینسر خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے۔ جس کے طریقہ علاج میں سائنس کی وجہ
سے روز بہ روز جدت آرہی ہے اور یہ جدت انسانوں پر اس مرض کی دہشت کو کم
کرنے میں بہت مفید ثابت ہورہی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں پہلی بار جگر کے
کینسر کے لئے ’’کیموباتھ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے کینسر کی
دواؤں کو براہ راست اس مرض سے متاثر حصے تک پہنچایا جاتا ہے۔
کیمو تھراپی کے ذریعے تیزی سے پھیلتے کینسر کے خلیوں کو ختم کیا جاتا ہے،
لیکن یہ جسم کے دوسرے حصے کے صحت مند خلیوں کو بھی ماردیتا ہے۔ ساؤتھمپٹن
کے جنرل اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ صرف ایک عضو کو نشانہ بنانے سے اس
کے سائڈ ایفکٹ یعنی دوسرے خراب اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا
ہے کہ مریض کو مزید نقصان پہنچائے بغیر اس کے ذریعے زیادہ مقدار میں دوا دی
جا سکتی ہے۔ عام طور پر کیموتھراپی کی ادویہ کو مریض کی نسوں میں سوئی کے
ذریعے پیوست کیا جاتا ہے جس سے کینسر کے ٹیومر کے علاوہ دوسرے اعضاء بلکہ
پورا جسم بھی متاثر ہوتا ہے، جیسے تھکاوٹ، بیمار اور کمزوری محسوس کرنا،
بالوں کا گرنا اور عمل تولید کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے۔
’’کیموباتھ‘‘ طریقہ آپریشن میں جگر کے دونوں جانب خون کی نلی کو غبارے کی
طرح پھلا کر جسم کے باقی حصوں سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جگر کو
پورے طور سے کینسر کی دوا دی جاتی ہے اور پھر جگر کو جسم کے باقی حصوں سے
جوڑنے سے پہلے صاف کیا جاتا ہے تاکہ کینسر کی دوا کا اثر دوسرے حصے تک نہ
جا سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جسم میں دوا کا بہت کم عنصر باقی رہتا
ہے اور دوا کے منفی اثرات سے تحفظ مل جاتا ہے۔
اس بارے میں ریڈیالوجی کے ماہر ڈاکٹر براین سٹیڈ مین کا کہنا ہے کہ کسی حصے
کا جسم سے ایک گھنٹے کے لیے علیحدہ کیا جانا اور پھر اسے پوری طرح سے دوا
میں شرابور کر دینا اور اس کے بعد اسے پوری طرح سے صاف کرنا اور پھر پہلی
حالت میں واپس لانا یہ سب ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ
پہلے کینسر کے مریض اور بطور خاص جن کا کینسر جگر تک پھیل چکا ہو، ان کے
لئے کیموتھراپی کا تصور پسندیدہ نہیں تھا کیونکہ معمول کی کیموتھراپی میں
جسم کے باقی حصے بھی اس سے متاثر ہوتے تھے۔ لیکن ’’کیموباتھ‘‘ نے اس مسئلہ
کے حل میں تقریباً مکمل مدد فراہم کردی ہے۔
اس طریقہ کے ذریعے اب تک دو مریضوں کے آپریشن کئے جا چکے ہیں۔ جو آنکھوں کے
مفرد کینسر میں مبتلا تھے اور وہ بڑھتے ہوئے ان کے جگر تک جا پہنچا۔ یہ
سرجری گزشتہ تین مہینوں میں کی گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دونوں مریض رو بہ
صحت ہیں۔ دواؤں کا اثر نظر آ رہا ہے اور ان کے ٹیومر یا رسولی کاسائز چھوٹا
ہو رہا ہے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ’’کیموباتھ‘‘ کینسر کے طریقہ علاج میں ایک بہت بڑی
کامیابی ہے۔ 20 سال بعد کسی ایک حصے میں کینسر کے علاج کے لیے ایسی سوئی
لگانا جس سے پورا جسم زہر آلود ہو جائے، اس طریقہ علاج کے بعد اب فرسودہ
خیال تصور کیا جائے گا۔
|