احمد آج بہت خوش تھا
کیونکہ اس نے ایف ایس سی اعلیٰ نمبروں کے ساتھ کر لی تھی اور اپنے پورے
ڈویژن میں فرسٹ رہا تھا۔احمد اپنے ایک دور کے رشتہ دار حامد کے پاس مٹھائی
لیکر پہنچتا ہے ۔حامد جو بمشکل پانچ جماعتیں بھی نہ پڑھ سکا تھا۔احمد کو
بہت خوش دیکھ کر حامد نے کہا احمد آج میں بھی بہت خوش ہو کیونکہ تم نے پورے
ڈویژن میں پوزیشن لی ہے یہ خوشی ہم منائے گے اور ابھی منائے گے حامد احمد
کے لیے بھی شراب تیار کر کے لیے آیا پہلے تو احمد نے منع کیا نہیں یار امی
ناراض ہونگی لیکن حامد نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں احمد کو پلا دی ۔احمد
کے باپ کا انتقال ہو چکا تھا احمد کی امی بڑی مشکل سے گھر کے خرچ کے ساتھ
ساتھ احمد کو پڑھا رہی تھی اور احمد کی ہر خواہیش پوری کرنے کی کوشش کرتی
تھی ان کا خواب تھا کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے ۔احمد جب شراب کے نشے میں گھر
پہنچا تو ماں سمجھ ہی نہ سکی کہ بیٹے نے شراب پی رکھی تھی دن گزرتے گئے اور
احمد شراب کا عادی ہوتا گیاآخر اب حامد کتنی دیر احمد کا خرچہ برداشت کرتا
حامد اور احمد نے نشہ پورا کرنے کے لیے چوریاں کرنا شروع کر دی ۔اب کافی
دنوں سے چوری کا موقع بھی نہ مل سکا تو دونوں نے نشہ پورا کرنے کے لیے سستا
کام ڈھوند لیاتھا۔ میڈیکل سٹور سے سستا نشہ آورانجکشن اور ایک سرنج دونوں
کے لیے کافی ہوتی ۔اب دونوں نے مل کر انجکشن لگانا شروع کر دیئے یہ سستا
اور زیادہ مزے کا کام تھا ۔ دوسری طرف احمد کی ماں نیم پاگلوں کی طرح ادھر
ادھر بھاگتی کہ کوئی اس کے بیٹے کو نشے کی اس دنیا سے وآپس لائے لیکن وہ
بیچاری اس کام میں بھی ناکام رہی دن مہنوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے
کہاں دیر لگتی ہے ۔اور ایک دن یہی نشہ موت بن کر آیا اور احمد کی لا ش ان
کے گھر پہنچ چکی تھی احمد کی ماں کی آنکھوں کے تو آنسو بھی خشک ہو چکے تھے
۔آج دوسرے رشتہ دارون کے رونے کی آوازوں پر احمد کی ماں کہتی تم کوں روتے
ہو آج میرے بیٹے کو سکون نصیب ہوگیا ۔اورخود بالکل پاگل ہوچکی تھی ۔کون ہے
قصور وار اس سارے عمل کا حکومت یا سارا معاشرہ جس کا ہم بھی حصہ ہیں
۔2011میں نوجوانوں کی ایک تنطیم شباب ملی نے منشیات کے خلاف ایک بھر پور
مہم کا آغاز کیا ۔اس مہم میں میں بھی شامل ہو گیا ۔ابھی ابتدا میں جب
میڈیکل سٹور مالکان اور منشیات فروشوں کے اڈوں کے خلاف ثبوت اکھٹے کیے
جارہے تھے کہ ایک دوست نے فون کر کے مجھے سول ہسپتال پہنچنے کو کہا میں اسی
وقت سول ہسپتال پہنچا تو منظر دیکھ کر میراسر ہی چکرگیا وہاں سرکاری ہسپتال
کی دیوار کے ساتھ ساتھ کوئی سو سے زائد 20سے40سال کی عمر کے نوجوان اور
افراد پنے جسموں کے مختلف حصوں میں نشہ آور انجکشن لگا رہیے تھے ۔ڈاکٹرز کے
مطابق یہ منشیات مین سے سب سے خطرناک نشہ ہے ۔انہی دنوں ہم نے ایک 9سال کے
بچے کو پکڑا جو انجکشن لگا رہا تھا۔اس کو لیکر کر محکمہ صحت کے ایک آفیسر
کے پاس لیے گیے جس نے بڑی مشکل سے وعدہ کیا کہ آپ میڈیکل سٹورز کی نشاندہی
کرئے ہم کاروائی کرئے گے ۔جبکہ شباب ملی کی ٹیم نے صرف دو دن میں ہی کوئی
20سے زائد اڈون میڈیکل سٹورز کا سراغ لگا لیا تھا لیکن یہ آفیسران ہاتھ پر
ہاتھ رکھے خاموشی سے نوجوانوں کو اس خطرناک نشے کی لت میں پڑتا دیکھتے رہتے
ہین اور خود اپنا ہفتہ اور منتھلیاں لیکر کر ایسے بن جاتے ہیں جیسا کہ شہر
میں نشہ آوور انجکشن اور منشیات بالکل بھی موجود نہیں ہیں۔اگر حکومت سختی
سے منشیات بالخصوص نشہ اوور انجکشن کے خلاف کاروائی کرئے تو اس بیماری کو
جڑ سے اکھاڑا جا سکتا کیونکہ نشہ آور انجکشن میڈیکل سٹوروں آسانی سے مل
جاتا ہے۔جہاں جہاں نشہ آور انجکشن فروخت ہوتے ہیں وہاں کا محکمہ صحت کا
عملہ برابر کا شریک ہوتا ہے اور اس کہ علم میں یہ بات ہوتی ہے ۔کہ کون کون
سے میڈیکل سٹور یہ اڈے سے انجکشن اور منشیات ملتی ہے ملک بھر میں اگر
سرکاری سطح پر ایمانداری کے ساتھ منشیات کے خلاف مہم چلائی جائے تو پاکستان
کواس انتہائی خطرناک بیماری سے نجات دلائی جا سکتی ہے ۔اور ہزاروں نہیں
لاکھوں ماوں بہنوں کے خواب ڈوبنے سے بچائے جاسکتے ہیں منشیات کی طرف زیادہ
تر نوجوان ہی راغب ہوتے ہیں۔حکومت کے علاوہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہمارا بھی
فرض ہے کہ ہم شراب ،نشہ آور انجکشن وغیرہ استعمال کرنے والوں کی ہر طرح
حوصلہ شکنی کرئے اور اس کام سے باز رہنے کے لیے ان کی مدد کریں منشیات کے
خلاف بہت سے این جی اووز بھی کام کر رہی ہے ۔قابل احترام ہیں وہ لوگ جو
بلاکسی لالچ کے اس نیک کام میں دن رات اپنی توانائیاں لگاتے ہیں اور اﷲ کی
رضا کے لیے اور انسانیت کی خدمت کے لیے لوگوں کی زندگیاں بچاتے ہیں ہے ویسے
دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس آفیسران خود منشیات فروشوں کو اپنے جیبیں بھرنے
یا سیاسی رہنماوں کو خوش کرنے کے لیے کھلا آزاد چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ بات
میں پورے یقین اور تجربے کی نبیاد پر کہہ رہا ہوں کہ میری نظر میں پنجاب
پولیس کا ایک ایسا بھی ایس ایچ او طاہر اعجاز موجود ہے جو جہاں جاتا ہے
وہاں کے منشیات فروش شہر چھور جاتے ہیں اور اور کوئی بھی سیاستدان اس ایس
ایچ او کے پاس منشیات فروشوں کی شفارش کرنے کی جرات نہیں کرتا اگر پنجاب
بلکہ پاکستان بھر کے تمام پولیس آفیسران طاہر اعجاز جیسے بن جائے تو اس
لعنت سے ہمیں کئی سالون کیا صرف چند ماہ میں ہی نجات مل سکتی ہے- |