پاکستان میں کل رقبہ کے صرف
4.8فیصد پر جنگلات ہیں حالانکہ یہ رقبہ کل رقبے کا 25فیصد ہونا چاہیے ۔
جنگلات زمین کا زیور کہلاتے ہیں اور یہ ’’ زیور‘‘ ہمارے ہاں بڑھنے کی بجائے
کم ہی ہورہا ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جنگلات کے فروغ کی جانب وہ توجہ
نہیں دی گئی جتنی ہاؤسنگ سوسائٹیوں ، شاہرات کی تعمیر سمیت دیگر منصوبوں پر
دی گئی ۔ آج زرعی ملک ہونے کے باوجود اشیاء ضروریہ کی قیمیتں آسمان سے
باتیں کررہی ہیں ۔ زرعی اراضی پر کنکریٹ سے بنے پلازے اور مکانات نظر آتے
ہیں یہی سلسلہ رہا تو کھانے کے لیے سب کچھ درآمد کرنا پڑے گا۔ ایندھن کے
لئے درختوں کی کٹائی بھی رکنے کونہیں آرہی ہے اگر گھر سوئی گیس نہ سہی ایل
پی جی کی سستے داموں فراہمی ممکن بنالی جائے تو شاید درخت کٹنے سے بچ جائیں
اور ہمارا موسم بھی ’’ تبدیلی ‘‘ کی زد میں نہ آئے جسے ’’Climate Change‘‘
کا نام دے کر ترقی یافتہ ممالک سر جوڑے بیٹھے ہیں قدرتی جنگلات کو بے دریغی
سے کاٹا گیا ہے اور شجر کاری نہ ہونے کے برابر ہے ہر سال ڈھنڈورا تو پیٹا
جاتا ہے مگر سب کچھ صرف ’’ دکھاوے ‘‘ تک ہی محدود رہتا ہے جنگلات کی اہمیت
و افادیت کے لیے اب بھی آگاہی مہم ضروری ہے ۔ جنگلات کی کٹائی پر صوبہ خیر
پی کے میں پابندی کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں یہ پابندی برقرار
رکھی جائے اور نئی شجر کاری پر بھی بھرپور توجہ دی جائے محکمہ کے افسران
اہلکار ان کی بہتر کارکردگی پر حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ’’defore
station‘‘ کے مسئلے سے ہمارا ملک دو چار نہ ہو درخت کے کٹنے کا نقصان زمینی
کٹاؤ ، بارشوں میں کمی اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔ ملک
عزیز کو 9ایکالوجیکل زونز میں تبدیل کیا گیا ہے وسیع البناد یہ تقسیم
الپائن زون ، ٹمپریٹ زون ، سب ٹراپیکل ، ٹراپیکل زون ، اور کوسٹل زون پر
مشتمل ہے ۔ الپائن فاریسٹس ہمالیہ ، قراقرم اور ہندو کش کے پہاڑی خطوں میں
بہت بلند جگہوں پر پائے جاتے ہیں یہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر کی بلندی
پر ہوتے ہیں ان میں سب الپائن ، الپائن سکرب اور الپائن پاسچرز بھی ہوتے
ہیں ۔ ٹمپر یٹ فاریسٹس زیادہ قدرتی سدا بہار کا نیفرز کے درختوں پر مشتمل
ہوتے ہیں یہ سطح سمندر سے 1500سے 4000 میٹر کے درمیان پائے جاتے ہیں یہ
زیادہ تر پاکستان اور کشمیر کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں ۔ یہ جنگلات
کمرشل ٹمبرز کا بہت اہم ذریعہ ہیں ۔ سب ٹراپیکل فاریسٹس ہمالیہ ہندو کش اور
سلیمان خطے میں چھ سو سے سترہ سو میٹر سطح سمندر سے بلند پر پائے جاتے ہیں
ان سب بڑے پتوں والے سب ٹراپیکل فاریسٹ اور سب ٹراپیکل پائن فاریسٹ پر
مشتمل ہیں ۔ چوڑے بڑے پتوں والے جنگلات سطح سمندر سے چھ سو سے ہزار میٹر تک
کی بلندی پر واقع ہوتے ہیں اور یہ 1,191,000 ہیکٹر ایریا پر پھیلے ہوتے ہیں
جبکہ سب ٹراپیکل فاریسٹ سطح سمندر سے 1000سے 1700 میٹر کی بلندی پر ملتے
ہیں ۔ ملک عزیز کا دو تہائی ایریا ڈرائی ٹراپیکل فاریسٹس پر مشتمل ہے اس
قسم کے جنگلات پنجاب کے انڈس پلین ، سندھ اور جنوبی و مغربی بلوچستان کے
نچلے پہاڑی علاقوں میں موجود ہیں ۔ جنگلات کی ایک اور قسم کوسٹل ’’
مینگروو‘‘ فاریسٹس بھی ہے یہ مینگروو کے نام سے بھی مشہور ہیں اور یہ انڈس
ڈیلٹا اور بحرہ عرب کے ساحلی علاقوں کراچی کے ساحل اور بلوچستان پسنی کے
مقام پر موجود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق 207,000 ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے ہیں
ان کے علاوہ ملک عزیز میں ریویرین فاریسٹس اور ایریگییٹڈ فاریسٹس بھی موجود
ہیں ۔ ریو یرین جنگلات انڈس ریور کے کناروں اور خشک جگہوں پر پائے جاتے ہیں
یہ زیادہ تر سندھ اور کچھ حد تک پنجاب میں بھی ہیں اس کے برعکس ایریگیٹیڈ
جنگلات کو ایندھن کے لئے استعمال کیاجاتا ہے یہ زیادہ تر پنجاب میں پائے
جاتے ہیں اور یہ جنگلات 226,000 ہیکٹرز رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں یہی کچھ
زمین کا زیور ہے جس میں گزشتہ 65سالوں سے بڑھوتری کی بجائے کمی ہی ہورہی ہے
فی زمانہ موسمیاتی تغیر و تبدیل سے رونما ہونے والے حالات واقعات سے پتہ
چلتا ہے کہ درختوں کی موجودگی کتنی ناگزیر ہے ۔ بائیو ڈائیورسٹی کی اصطلاح
کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جنگلات مختلف جنگلی حیات کا مسکن ہوتے ہیں اور
موسم کو باقاعدہ بنانے میں بھی اہم کردرار ادا کرتے ہیں بارشوں کا بھی اہم
ذریعہ ہیں ۔ زمین کی مضبوطی ان ہی کے دم قدم سے ہے ۔ جنگلات کی تباہی بے
دریغ کٹائی سے ہو یا جلانے سے اس نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا ۔ جنگلات
میں لگنے والی آگ فضا میں کاربن کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے درخت نہ ہوں گے
تو بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ خوراک بنانے کے لیے جذب نہ ہوگی اور اگر انہیں
آگ کی نذر کریں گے تو بھی فضا ایسی کاربن سے بھرتی جائے گی ۔ جنگلات جہاں
ایندھن کا ذریعہ ہیں وہاں بارشیں بھی ان کی مرہون منت ہیں ۔ جنگلات کی
کٹائی deforestation کے نتیجے میں زمینی کٹاؤ ، اراضی کا نقصان ہوتا ہے
وہاں بارشوں کی مقدار اور تقسیم پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ درخت کٹنے سے سیلابی
پانی زیادہ آتا ہے اور اس کے انسانی آبادیوں کی معاشی حالات پر بھی گہرے
اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مختلف الا قسام اور مختلف النسل جنگلی حیات کے ان
مسکن کو تباہ و برباد کرنے والے ہاتھ روکنے ہوں گے حکومتی سطح پر پابندی
بھی مستحسن اقدام ہے لیکن محکمہ بذات خود اس زیور کی حفاظت یقینی بنائے اسے
روپے پیسے کی گیم بنا کر نہ لوٹا جائے ۔ اگر اٹھارہ کروڑ کی آبادی والے ملک
میں ہر سال نو کروڑ بھی درخت لگائے جائیں اور پھر ان کی اپنے بچوں کی طرح
حفاظت کی جائے تو زمین کا یہ زیور اپنی آب و تاب پوری دنیا کو دکھا سکتا ہے
۔ آئیے عہد کریں کہ شجر کاری پر توجہ دینگے اور درختوں کی بے دریغ کٹائی پر
آواز حق بلند کرینگے ۔ موسموں کے پاکستان میں کل رقبہ کے صرف 4.8فیصد پر
جنگلات ہیں حالانکہ یہ رقبہ کل رقبہ کا 25فیصد ہونا چاہیے ۔ |