پاکستان کے شمالی علاقہ جات جتنے
خوبصورت ہیں اس سے بھی زیادہ خوبصورت یہاں کے لوگ ہیں میں سکردو میں آٹھ دن
رہا ہوں وہاں کی ناقابل بیان خوبصورتی کو اپنے الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے بس
یہی کہہ سکتا ہوں کے اﷲ تعالی نے اس حصہ کو جنت نظیر بنا دیا ہے اور یہاں
کے رہائشیوں کو ظاہری حسن سمیت اندرونی طور بھی حسین بنا رکھا ہے سکردو میں
بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں مگر سب سے اہم اور قابل ذکر ملاقات سکردو
پریس کلب کے صدر جناب نثار عباس سے ہوئی جو سکرود میں جیو ٹیلی ویژن کے
بیوروچیف بھی ہیں ان کی اپنے علاقہ کے لیے خدمات وہاں کے حکومتی عہدے داروں
سے بہت زیادہ ہیں بطور ایک صحافی کے انہوں نے نہ صرف پریس کلب میں تمام
صحافیوں کو ٹیلی فون ،انٹرنیٹ اور فیکس کی مفت سہولت دے رکھی ہے بلکہ سکردو
پریس کلب میں ہونے والی ہر پریس کانفرنس کی فیس جو 5ہزار روپے لی جاتی ہے
اسے برابر حصوں میں وہاں پر موجود تمام صحافیوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے
جبکہ نثار عباس نے اپنے آبائی گاؤں سدپارہ کوجہاں کی خوبصورت جھیل دنیا کی
چند خوبصورت جھیلوں میں سے ایک ہے کے رہائشیوں کے لیے ایک عدد پن بجلی گھر
تعمیر کرلیا ہے جسکی بجلی پورے گاؤں کو روشن رکھے گی نہ صرف اس مفت کی بجلی
سے لوگوں کے گھر روشن ہونگے بلکہ سردیوں کے سخت ترین سرد دنوں میں انہیں اس
بجلی سے ہیٹر کی سہولت بھی میسر ہوگی جس سے وہ اپنے گھروں کو گرم رکھ سکیں
گے اور اسی بجلی پر وہ لوگ اپنا کھانا بھی تیار کریں گے اس پن بجلی گھر سے
نہ صرف لوگوں کی ہزاروں روپے کے بجلی کے بلوں سے جان چھوٹے گی بلکہ لکڑیوں
کی مد میں آنے والے ہر ماہ ہزاروں روپے کی بھی بچت ہوگی اس علاقے کے لوگ نہ
صرف سخت محنتی ہیں بلکہ ایمانداری اور فرض شناسی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں
اسی گاؤں کے رہائشی جناب حسن سدپارہ بھی ہیں جن سے سکردو میں ملاقات ہوئی
جنہوں نے نہ صرف دنیاکی بلند ترین چوٹیاں کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا
بلکہ انہوں نے سب سے کم وقت میں ان بلندیوں پر پاکستان کا پرچم لہرا کر ایک
نیا عالمی ریکارڈبھی قائم کردیا مگر بدقسمتی سے حکومت کی پیشہ وارانہ بے
حسی کے باعث حسن سدپارہ کانام ورلڈ ریکارڈ آف گینزبک کی زینت نہ بن سکا اور
نہ ہی انہیں حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد دی گئی بلکہ انکی خدمات کے
اعتراف میں حکومت نے جو اعلان کیے تھے ان پر بھی عمل نہیں کیا جاسکا یہاں
پر قابل ذکر بات جو ہے وہ یہ ہے کہ حسن سدپارہ نے جب دنیا کی ان بلند ترین
چوٹیوں کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھا تو دنیا کے مختلف ممالک نے انہیں نہ صرف
شہریت دینے کا اعلان کیا بلکہ انہیں مالی طور پر بھی کروڑوں روپے کی آفر کی
گئی مگر انہوں نے پاکستان کی عزت کی خاطر ان تمام آفرز کو ٹھکرادیا اور اب
وہ خود مالی مشکلات کا شکار ہیں اگر حکومت نے اس علاقہ اور اس علاقے کے
باسیوں کی محرومیوں کو دور نہ کیا تو یہ پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہوگا
کیونکہ اب یہاں کے لوگ اکتاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں یہاں کے لوگ اپنے علاقہ ،اپنی
سماجی روایات اور پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں ہمیں اب مزید انکا امتحان نہیں
لینا چاہیے جس طرح فوج اس علاقے کی رہائیشیوں کے لیے دن رات خدمت میں مصروف
ہے اگر حکومت بھی اس علاقے کی طرف توجہ دے تو نہ صرف گلگت بلتستان کے لوگوں
کی قسمت بدل سکتی ہے بلکہ پاکستان کو سیاحت کے شعبہ سے اربوں روپے بھی حاصل
ہوسکتے ہیں اگر ایک نثار عباس اپنے گاؤں کی تقدیر بدلنے کے لیے دن رات ایک
کیے ہوئے ہے تو حکومت اس علاقے کے باسیوں کو سپورٹ کرے تو یہاں کا ہر فرد
نثار عباس بن کر اپنے اپنے گاؤں کی ترقی کے لیے نکل کھڑا ہو جائے گااور جنت
نظیر قدرتی معدنیات سے بھر پور یہ علاقہ پاکستان کی خوشحالی کا ضامن بھی بن
سکتا ہے ان علاقوں میں نہ چور ہیں نہ چوری کا خطرہ ہوتا ہے سکردو جیل میں
کل چار قیدی تھے ان علاقوں میں آپ ساری رات اپنے ہاتھوں میں لاکھوں روپے
پکڑ کر گھومتے رہیں کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی آپ کی طرف نہیں دیکھنا یہاں کے
لوگ نہ صرف اخلاقی طور پر مضبوط ہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی مضبوط ہیں یہی
وجہ ہے کہ 1948میں ڈوگرا راج کے خلاف اپنے زور باز سے آزادی حاصل کرکے
پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھااس لیے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ
ان کے جائز مطالبات پر فوری عملدرآمد کیا جائے اور گلگت بلتستان کے ساتھ
متصل خیبر پختون خواہ کے جن علاقوں میں دہشت گرد پناہ لیے ہوئے ہیں انہیں
وہاں سے پکڑ کر قانون کے حوالے کرکے امن قائم کیا جائے شاہراہ ریشم اور
شاہراہ قرام کو مزید بہتر کرکے وہاں پر ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ کو فعال کیا جائے
راولپنڈی سے سکردو کا بذریعہ سڑک کا سفر تقریبا 25گھنٹوں پر محیط ہے اگر
حکومت سکردو اور گلگت کے لیے نیشنل اور انٹرنیشنل فلائٹس کو آنے کی اجازت
دیدے تو اس علاقے کی قسمت جاگ جائیگی کیونکہ ان خوبصورت علاقوں کو دیکھنے
کے لیے جانا پڑے تو صرف پی آئی ہے کا ایک جہاز اسلام آباد سے اڑتا ہے جو
موسم کی خرابی کے باعث یا کبھی فنی خرابی کے باعث جا نہیں پاتا اور مسافروں
کو کافی کھجل خواری اٹھانا پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اسی وجہ سے اس
علاقے کے قدرتی حسن کو دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ |