سیر و سیاحت کا کس کو شوق نہیں ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے
مطابق سیر و تفریح سے لطف اندوز ہوتا ہے۔مجھے ایران دیکھنے کا بہت شوق تھا
۔اور میری خواہش تھی کہ میں ایران بائی روڈ سفر کروں۔تاکہ پاکستان کے وہ
علاقے جہاں میں نہیں گیا ان کو بھی دیکھ سکوں۔ایک دن میں نے ایران قونصلیٹ
گلبرگ لاہور میں ویزہ اپلائی کر دیا۔یہ 1998ء کی بات ہے۔قونصلیٹ کے باہر
زائرین کا بہت زیادہ رش تھا۔خیر میں ویزہ فارم حاصل کیا اور اسے پر کرنے کے
بعد بنک میں ویزہ فیس جمع کروا دی جو کہ اس وقت 3000روپے تھی۔اب ہو سکتا ہے
کہ زیادہ کر دی گئی ہو۔اپنی باری آنے پر میں انٹرویو کے لئے پیش ہوا ۔تو سب
سے پہلا سوال مجھ سے میری جاب کا کیا گیا۔میں نے بتایا کہ میں کمپیوٹر کالج
میں پڑھاتا ہوں۔تو موصوف جو امیرا نٹرویو لے رہے تھے کہ ہماری ایمبیسی کا
پرنٹر کام نہیں کر رہا۔کیا آپ ٹھیک کر سکتے ہیں۔میں نے کہا دیکھ کر بتا
سکتا ہوں۔لہذا مجھے ایمبیسی کے اندر کمپیوٹر روم میں لایا گیا۔میں نے
اپریٹر سے پوچھا کہ بھائی کیا مسئلہ ہے۔تو اس نے بتایا لہ پرنٹ آوٹ آف پیپر
آ رہا ہے۔میں نے کہا کہ مارجن سیٹ کرو ٹھیک پرنٹ آئے گا۔لہذا میں نے خود ہی
مارجن سیٹ کر دیا جب پرنٹ لیا تو پرنٹ بالکل صحیح تھا۔مسئلہ بڑا نہیں تھا
صرف کمپیوٹر اپریٹر نکما تھا۔خیر میں باہر آیا جہاں انٹرویو ہو رہے
تھے۔میرے ساتھ والے بندے نے ایرانی قونصلیٹ کو بتایا کہ مسئلہ ٹھیک ہو
گیا۔اس نے میرا انٹرویو لئے بغیر مجھے خوشی سے 21 روز کا ویزہ دے دیا جو
میرے لیے کافی تھا۔جب کہ عام طور پر ان دنوں 7یا14دنوں کے ویزے لگتے
تھے۔میں نے اب کوئٹہ کے لئے ٹرین کی ٹکٹ بک کروائی۔راستے میں خوب انجوائے
کرتا ہوا گیا۔کچھ ٹرین میں ایسے دوست بھی مل گئے جو ایران جا رہے تھے۔تو
مجھے اور زیادہ خوشی ہوئی کہ چلو ایران تک مجھے دوستوں کا ساتھ مل
گیا۔تقریباً ہم اگلے روز رات کو کوئٹہ پہنچ گئے۔ہم رکنے کی بجائے سفر جاری
رکھنا بہتر سمجھا۔لہذا ہم تفتان بارڈر جانے کے لئے بس میں سوار ہوئے۔سارا
رستہ خراب تھا ۔سٹرک بھی کوئی خاص پختہ نہ تھی،حالانکہ اس سڑک کو اس وقت کی
حکومت یا کسی بھی حکومت کو بہتر بنانا چائیے کیونکہ یہ ہمارے ہمسایہ ملک کی
طرف جاتی ہے۔مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔راستے میں ہم جس ہوٹل پر بھی ٹھہرتے
وہاں ہمیں پانی کم استعمال کرنے کو کہا جاتا۔کیونکہ وہ لوگ پانی کافی دور
سے لے کر آتے ہیں۔ہم نے خدا کی اس نعمت پر شکر ادا کیا کہ ہمارے پنجاب میں
پانی کی فراوانی ہے۔اور یہاں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں۔خیر اگلے دن ہم تفتان
باڈر پہنچ گئے۔وہاں پر ہمارے پاسپورٹ پر پاکستانی حکام کی طرف سے آؤٹ ہونے
کی مہر لگائی گئی۔اس سے پہلے کہ ہم ایران میں داخل ہوتے میں کرنسی تبدیل
کرنے کا سوچا۔ہم نے ایک آدمی کو جو وہاں کا مقامی تھا اسے پاکستانی
10000روپے کی کرنسی بدلنے کو بولا۔وہ ہمیں ایک قریبی گھر میں لے گیا۔اور
نوٹ گن گن کر رکھنے لگا۔اس وقت پاکستانی ایک روپیہ15ایرانی تمن کا
تھا۔150ایرانی ریال بنتے ہیں۔میں اتنی رقم دیکھ کر بولا کہ بھائی آپ صرف
مجھے 1000روپے کی ایرانی کرنسی دے دو۔کیونکہ یہ بہت زیادہ کرنسی بن رہی تھی
میں اتنے روپے کیسے سنبھالتا۔کرنسی تبدیل کرنے کے بعد میں ایران میں داخل
ہوگیا۔اب وہاں ایک مختصر انگلش فارم بھرنا تھا۔میں جب بھرنے لگا تو تمام
پاکستانی بھائی بھی وہ فارم مجھ سے بھروانے لگے،کیونکہ اکثر کو وہ فارم
بھرنا نہیں آتا تھا۔جس کا مجھے بے حد افسوس ہوا۔خیر اتنے زیادہ فارم بھرنے
کے بعد آخر میں نے معذرت کر لی کیونکہ ابھی میرا سفر آگے کا تھا۔وہاں سے
ہمنیں ایک بس کے ذریعے لایا گیا۔ہماری تلاشی لی گئی۔اور زیادہ کرنسی والوں
کی کرنسی ضبط کر لی گئی اور ایک رسید دے دی گئی کہ آپ لوگ واپسی پر یہ اپنی
امانت لیتے جائیں۔خیر میں وہاں سے فارغ ہونے کے بعد باہر آیا تو ایک ٹیکسی
والا اردو میں ہم سے بولا کہ آپ لوگ زاہدان چلو گے۔کیونکہ وہاں سے ایران کا
پہلا شہر زاہدان شروع ہوتا ہے۔ہم نے اس کو 4500تمن کرایہ طے کیا ۔ہم نے
پوچھا کہ بھائی تم یہاں کب سے ہو۔اس نے کہا کہ میں یہاں پچھلے دس سال سے
ٹیکسی چلا رہا ہوں۔خیر وہ ہمیں بس ٹرمینل پر لے آیا۔اس وقت ایران میں دوپہر
کے 12بج رہے تھے۔خیر ہم نے سب سے پہلے گھر میں فون کرنے کا سوچا تاکہ اپنی
خیریت سے سب کو آگاہ کر دیں۔پاس ہی ایک پی سی او پر گیا تو وہ موصوف بھی
اردو میں بات کر رہے تھے پوچھنے پر بتایا کہ ان کا تعلق پاکستان کے شہر
سیالکوٹ سے ہے۔دیار غیر میں کسی اپنے ہم وطن کو پاکر جو خوشی ہوتی ہے وہ
بیان نہیں کر سکتا۔خیر گھر میں فون کیا ور بس ٹرمینل کی طرف چل پڑا۔تہران
کے لئے بس کا ٹکٹ لیا جو پاکستانی روپوں میں 500کا تھا۔اب جناب ڈرائیور
صاحب نے کہا کہ بس 4بجے چلے گی۔ہم سب دوستوں کو بھوک لگی ہوئی تھی سو ہم نے
کھانا کھانے کا سوچا۔بس ٹرمینل کے پاس ہی ایک ہوٹل تھا جو عام پاکستانی
ہوٹلوں جیسا ہی تھا۔ہم نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا پکا ہوا ہے۔تو اس بہت
چیزیں بتائیں ان میں ایک پاکستانی قیمہ بھی بتایا۔کیونکہ پاکستانی زائرین
وہاں بہت جاتے ہیں ۔اور ان میں سے اکثریت یورپ جانے والوں کی ہوتی ہے۔خیر
ہم نے قیمہ اور روٹی کھائی۔پاکستانی قیمے میں سرخ مرچیں کچھ زیادہ ہی تھیں
کہ ہماری آنکھوں اور ناک سے پانی نکل پڑا۔قیمے کی قیمت 80روپے تھی۔خیر اب
کافی انتظار کے بعد بس چلنے کا وقت ہو چکا تھا ہم اپنی اپنی نشست پر بیٹھ
گئے۔وہاں ایک سسسٹم بہت پسند آیا کہ حکومت نے بس چلانے کی جو سپیڈ بتائی
ہوئی ہے اسء کچھ فاصلے پر چیک بھی کیا جاتا ہے۔راستے میں جگہ جگی چوکیاں
بنائی گئی ہیں جہاں پر ہم کو بس سے اتر کر پاسپورٹ اور سامان کی چیکنگ
کروانی پڑتی تھی۔کیونکہ اکثر افغانی بغیر پاسپوڑت کے ہوتے ہیں اور وہاں
نوجوان افغانی لڑکے اور لڑکیوں سے جیلیں بھری ہوئی ہیں۔جو ایران کا غیر
قانونی سفر کرتے ہیں۔جب ہم زاہدان سے چلے تھے تو تمام پاکستانیوں کو دو
بسوں میں سوار کرایا گیا تھا۔لیکن راستے میں میں جس بس میں سوار تھا۔اسے
پولیس نے چیکینگ کے بعد روک لیا اور تمام سواریوں کو اتار دیا۔بس یا
ڈرائیور پر کسی قسم کا کوئی مسئلہ تھا۔اب ہم دوسری بس جو اس وقت وہ بھی
وہاں پہنچ چکی تھی اس میں سوار کرا دیا گیا۔اب ہم پھر اپنی منزل کی طرف
رواں دواں تھے رات ہونے کو تھی کہ بس ایک ریسٹورنٹ کے باہر جا کر رکی۔بہت
خوبصورت ریسٹورنٹ تھا۔آپ اپنی مرضی سے جو چاہیں ڈال سکتے تھے ۔پھر بل ادا
کرنے کے بعد ٹیبل پر لاکر کھائیں۔ایرانی زیادہ تر پالک ،ابلے چاول،سرخ
لوبیا پسند کرتے ہیں۔کیونکہ ہر ایرانی ہوٹل پر ہم نے یہ ڈشیں ضرور
دیکھیں۔اس کے علاوہ روسٹ مرغا جو بڑی نفاست کے ساتھ بنایا گیا ہوتا اور
کافی لذیز بھی ہوتا ہے۔وہ بھی کھایا۔ہم اگلے روز رات 8بجے تہران ٹرمینل
پہنچ گئے۔لگاتار سفر کی وجہ سے میں بہت تھک چکا تھا۔وہاں مغرب کے وقت تمام
کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔یا تو میں ہوٹل پہنچ
کر کھاتا۔مگر مجھ میں ہمت نہ تھی۔لہذا میں شہر میں نکل گیا ایک جگہ کھوکھا
نما نظر آیا بالکل پاکستانی پان والے کھوکھے کی طرح۔میں وہاں سے ایک فروٹ
کیک لیا۔اور اس کے سامنے ایک فریش فروٹ جوس کی دکان تھی۔وہاں میں نے جا کر
انار کا جوس لیا جو بہت ہی فریش تھا بہت مزہ آیا یقین جانے خالص چیز پی کر
پتا چلا کہ انار کا ذائقہ کیا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں آدھی برف اور آدحا پانی
ڈال کر جوس بنا کر دیتے ہیں۔ وہاں کا خالص ذائقہ پی کر انار کے رس کا مزہ
ہی دوبالا ہو گیا۔رات ہو گئی تھی اور مجھے ہوٹلوں کے بارے میں کچھ زیادہ
معلومات بھی نہیں تھی۔اتنے مجھے دو پاکستانی آتے نظر آئے وہ بھی ابھی ہی
آئے تھے کیونکہ ان کے پاس سامان موجود تھا۔ان سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ
وہ بھی لاہور سے ہیں۔میں بھی لاہور ہی سے تھاتو بہت خوشی ہوئی۔وہ اکثر
ایران آتے رہتے تھے کیونکہ وہ کاروبار کرتے تھے۔میں ان کے ساتھ ہی ایک
ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ہم ایک ہوٹل کے سامنے رکے تو ان میں سے ایک نے مجھے
ہوٹل ساتھ چلنے کو کہا دوسرا ٹیکسی میں بیٹھا رہا۔ہم ہوٹل میں گئے تو کریہ
پوچھا تو اس نے 900تمن بتایا۔خیر ہمیں سونا تھا کیونکہ رات بہت ہو چکی
تھی۔ہم باہر دوسرے آدمی اور سامان کو لینے ہوٹل سے باہر آئے تو نہ ٹیکسی
تھی اور نی ہی وہ ہمارا بندہ۔میں تو تھوڑی دیر سکتے میں آ گیا۔کیونکہ میرا
بیگ ٹیکسی میں تھا اور میرا سب کچھ حتیٰ کہ تمام رقم بھی بیگ میں ہی
تھی۔میں نے ساتھ والے سے پوچھا کہ آپ اس آدمی کو جانتے ہیں۔ تو اس نے کہا
کہ میرا محلہ دار ہے۔کہیں ٹیکسی والا نہ کوئی ڈرامہ کر گیا ہو۔بہر حال آدھا
گھنٹہ بعد موصوف اسی ٹیکسی میں واپس اسی ہوٹل کے سامنے آ گئے ہم وہیں پر
کھٹرے تھے میری جان میں جان آ گئی۔خدا کا شکر ہے کہ سامان وغیرہ سب ٹھیک
تھا۔پوچھنے پر جناب نے فرمایا کہ ٹیکسی والا کسی ہوٹل کے بارے میں جانتا
تھا۔ہم وہاں چلے گئے تھے۔خیر ہم ہوٹل میں اندر آئے۔چارپائی نما بیڈ تھے اور
کمرہ بھی واجبی تھا۔ہمیں سونا تھا میں نے سوچا صبح ہونے پر سب سے پہلے ہوٹل
کو تبدیل کروں گا۔رات کو نیند بھی صحیح طریقے سے نہ آئی۔مجھے ڈر تھا کہ
کہیں یہ لوگ میرا بیگ لیکر نہ بھاگ جائیں۔خیر صبح ہوئی ہم تینوں ناشتہ کرنے
ایک قریبی ریسٹورنٹ میں گئے۔وہاں ہم نے دو انڈے۔ایک بند جسے برگر کہتے ہیں
جو لمبائی ہمارے دو برگروں کے برابر تھا وہ لیا اور ساتھ ایران کی کولڈ
ڈرنک زم زم لیا جو پیپسی وغیرہ سے کسی طور کم نہ تھا۔فی فر د ناشتہ کے ہم
نے 2500تمن ادا کئے۔اس کے واپس ہوٹل آتے ہوئے مجھے وہ دوست مل گئے جنہوں نے
میرے ساتھ سفر کیا تھا۔ان کے پوچھنے پر کہ وہ قریبی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے
ہیں میں نے بھی ان کے ساتھ جانے کا پروگرام بنا لیا۔اپنے ہوٹل سے سامان اور
پاسپورٹ لیکر ان کے ساتھ دوسے ہوٹل میں شفٹ ہو گیا۔یہ ہوٹل بھی خوبصورت تھا
اور باقی ہوٹلوں سے منفرد بھی ۔وہ اس لئے کہ ایک تو اس کا جو مالک تھا وہ
اردو زبان روانی سے بولتا تھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے اردو کیسے
سیکھی۔اس نے کہا کہ اتنے پاکستانی آتے ہیں کہ بول بول کر اردو آ گئی۔دوسرا
اس لئے منفرد تھا کہ صبح کے ناشتے ہمیں پراٹھے،انڈے اور چائے مل سکتی
تھی۔اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ دیار غیر میں آپکو اپنے ملک کے
کھانے نصیب ہو جائیں۔اس نے کھانے بنانے کے لئے ایک پاکستانی کک کو رکھا ہوا
تھا۔خیر ہم اپنے کمرے آئے جو کافی کھلا کمرہ تھا مہنگا ضرور تھا لیکن بہت
خوب تھا۔میں وہاں دو دن رکا اور اسی ہوٹل میں رہا۔سارا دن ہم دوست تہران کی
سڑکوں،پارکوں اور بازاروں میں گھومتے رہے۔بہت خوبصورت شہر ہے۔میں کچھ بچوں
کے لئے شاپنگ کی۔کیونکہ وہاں پر جو چائینہ کے کھلونے تھے وہ پاکستانی کھلوں
سے بہتر میٹریل میں تیار ہوئے تھے۔جب ہم پارک میں پہنچے تو کچھ نوجوان
کراٹے کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ان کا کھیل دیکھا ۔وہاں ہم نے دو قسم کی
ٹیکسیاں دیکھیں ایک وہ جو بہت اچھی ہیں اور بڑی ٹیکسیاں ہیں ۔ان کو آپ بک
کوا سکتے ہو۔اور ایک ایسی بھی ٹیکسیاں ہیں جن کی حالت کچھ اچھی نہیں۔یہ بہت
سی سواریوں کو بٹھا کر لے جاتی ہے۔اس کے علاوہ ایسے نوجوان دیکھے جو کالج
کی فیس یا اپنا جیب خرچ چلانے کے لئے اپنی بائیک پر بٹھا کو سفر کرواتے ہیں
اور آپ سے پیسے لیتے ہیں۔اب ہم گھر فون کرنے کے لئے تہران کی بڑی ٹیلی فون
ایکسچیج گئے۔وہاں اس نے مجھے 10000ہزار تمن ضمانت کے طور پر مانگے جو میرے
لئے حیران کن تھا۔خیر دس ہزار تمن دے دئیے۔اب بنمبر آنے پر میرا نام اور
بوتھ نمبر بولا گیا۔میں اس بوتھ میں چلا گیا مگر ٹون بئسے مل رہی تھی یا
پھر نمبر نہیں مل رہا تھا۔تھوڑی بہت کوشش کے بعد نمبر مل گیا تو گھر والوں
سے بات ہوئی تو مجھے پاتا چلا کہ میری بیٹی سخت بیمار ہے۔میں نے پیٹی سے
بھی بات کی تو اس نے مجھے آنے کو کہا۔میں نے آگے اصفہان جانا تھا ۔لہذا اس
کال کے بعد میں واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ہم واپس ہوٹل آئے تو جو لڑکے
میرے ساتھ تھے انھوں نے بھی واپس جانے کا ارادہ کیا۔مجھے خوشی ہوئی کہ میرا
جاتے ہوئے بھی ساتھی ساتھ ہوں گے۔ان کا ایک کزن دوسرے ہوٹل میں ٹہرا ہوا
تھا جس نے یورپ جانا تھا۔ہم اس سے ملنے اس کے کمرے میں گئے وہاں ایک کمرے
میں پچاس سے ساٹھ آدمی تھے۔ہم یہ منظر دیکھ کرحیران رہ گئے۔یہ سب کے سب
یورپ جانے کے لئے یہاں جمع تھے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ان میں
سے اکثر اپنی زمینیں،کاروبار،دکانیں بیچ کر آئے ہوئے تھے اور کچھ نے تو
قرضہ بھی لیا ہوا تھا۔غریب ماں باپ ان کے سہانے مستقبل کی راہ میں مزید
بوڑھے اور لاغر ہوتے جا رہے تھے۔اور ایک یہ نوجوان کے یورپ کی چکا چوند
زندگی پانے کے لئے اس حالت میں تھے۔ان میں سے ایک دوست نے بتایا کہ وہ تین
بار یونان کی سرحد سے واپس آ چکا ہے ۔اب نہ اس کے پاس کپڑے ہیں اور نہ ہی
رقم۔اگر یہی نوجوان اپنے ملک میں محنت مزدوری کر لیں تو یقیناً وہاں وہ جس
حالت میں ہیں اس بہتر ہے۔ہم ابھی وہاں کحڑے تھے کہ ایک صاحب ہماری طرف آئے
اور کہا کہ جناب آپ یونان جانا چاہیں گئے۔تو میں معذرت کی کہ میں سیرو
سیاحت کے لئے آیا ہوں یورپ جانے کا بلکل ارادہ نہیں ہے۔مگر موصوف اپنی
داستاں سناتے رہے مگر ہم حالت دیکھ چکے تھے کہ لوگ ہوٹل میں کیسے زندگی
گزار رہے ہیں۔خیر ہم وہاں سے نکلے اور اپنے ہوٹل میں سب دوستوں سے مل
کرسامان اٹھایا اور ایک ٹیکسی لی جو ہمیں بس ٹرمینل تک لے آئی۔بہت خوبصورت
ٹرمینل تھا۔مسافروں کے بیٹھنے کا بہت اچھا انتظام تھا۔خیر ہم نے مشہد شہر
کے لئے ٹکٹ لیئے تاکہ راستے میں جاتے ہوئے اس شہر کو بھی دیکھتے جائیں۔بس
میں سوار ہوتے ہوتے کنڈکٹر نے سامان کے علیحدہ سے پیسے مانگے لیکن ہم نے
دینے سے انکار کر دیا وہ بضد تھا کہ پیسے دیں۔لیکن ہم بھی بضد تھے کہ ہم
پیسے نہیں دیں گے۔خیر جناب مان گئے کہ چلو نہ پیسے دو۔بس چل پڑی اور ہم
اگلے روز صبح مشہد شہر میں تھے۔ایک ٹیکسی والے کو لیااور اسے امام رضا کے
روضے کی طرف جانے کو کہا۔اس نے ہم سے 300تمن لے لئے۔خیر ہم تینوں دوست امام
رضا کے روضے پر آئے دیکھا کہ عورتوں کا ایک سیلاب ہے جو کالے برقعوں میں
لپٹی ہوئی ہیں۔میرا تعلق اہلسنت کی جماعت سے ہے لیکن ہم مشہور دربار ہونے
کی وجہ سے یہاں گے۔وہاں کیمرہ اور کسی بھی قسم کا سامان لے جانے کی اجازت
نہیں ہے۔ لہذا ہم نے کاؤنٹر پر سامان وغیرہ جمع کروایااور ایک ٹوکن لیا اور
واپسی کا وقت بھی بتایا۔اندر گھومنے کے بعد ہم باہر آئے اور پھر آرام کرنے
کے لئے ایک ہوٹل کا کمرہ بک کروایا۔شام کو بازار گے۔وہاں سے ایرانی بیڈ شیٹ
خریدی جو ہمیں 12000تمن میں ملیں۔یہ تمام دکانیں پاکستانی بلوچوں کی
تھیں۔بلوچوں نے اس شہر میں اپنے کاروبار جمائے ہوئے ہیں۔زیادہ تر ان کی
دکانیں پر ایرانی بیڈ شیٹ اور ایرانی کمبل تھے۔ہم نے سنگل اور ڈبل کمبل بھی
خریدے۔سنگل کمبل مجھے 9000تمن میں ملا تھا۔خیر شاپنگ مکمل کرنے کے بعد ہم
لوگ ہوٹل آئے اور کچھ کھانے کے لئے ایک قریبی بازار میں گے وہاں کھانا
کھایا۔پھر ایک فوٹشاپ سے میں نے ایک یادگار تصویر بنوائی۔ااس کے بعد ہم
ٹیکسی لیکر ٹرمینل پر آ گئے۔ اب کی بار ٹیکسی والے نے صرف 100تمن لئے۔وہاں
بھی ٹیکسی والے کم اور زیادہ پیسے لے لیتے ہیں ۔ٹرمینل سے ہم نے زاہدان کے
لئے بس کا ٹکٹ لیا۔اور اگلے روز زاہدان پہنچ گے۔وہاں ایک حمام میں غسل کیا
اور کپڑے بدلے ۔پی سی او سے گھر فون کیا اپنی چار سالہ بیٹی کی خیریت معلوم
کی۔بس میں چاہ رہا تھا کہ جتنا جلدی ہو سکے میں گھر پہنچ جاؤں تاکہ اپنی
بیٹی اور بیٹے سے مل سکوں۔یہاں سے ہم نے ٹیکسی لی اور ایران باڈر کی طرف چل
پڑے۔میرے پاس سامان بہت زیادہ ہو گیا تھا۔جب کہ میرے ساتھیوں کے پاس سوائے
کپڑوں کے کچھ نہ تھا اس لئے مجھے آسانی ہوگئی۔اور انھوں نے میرا سامان اٹھا
لیا۔باڈر پر پہنچ کر پاسپورٹ پر مہر لگوائی اور اپنے ملک تفتان باڈر آ
گے۔خدا کا شکر ادا کیا کہ اب ہم اپنی سرزمین پر تھے۔یہاں بھی واپسی کی مہر
لگوائی اور تیار بس پر سوار ہو گے۔کوئٹہ پہنچ گے۔قارئین اب اس راستے سفر
کرنا بہت خطرناک بن چکا ہے۔کیوکہ کچھ واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ زائرین کو
بسوں سے اتار کر گولیاں ما دیں گئی۔بہتر ہے کہ اب لاہور سے مشہد بذریعہ
ہوئی جہاز سفر کیا جائے۔کوئٹہ پہنچ کر ہم نے فوراً لاہور کی ٹکٹ
کروائی۔پاکستانی باڈر پر ہمارے کسٹم حضرات نے پیسے لینے کے لئے تنگ کیا
لیکن چند سرکاری لوگوں کاحوالہ دیا تو پھر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔جی
قارئین میں ٹرین میں سوار ہوا تو جہاں بھی ٹرین رکتی پولیس والے ضرور اپنا
حصہ وصول کرنے کے لئے آتے۔لیکن میں کسی کو بھی یہ پیسے دینے سے انکار
کیا۔لیکن جس کو انھوں نے دبا لیا یا یوں کہیے کہ ڈرا لیا تو اس سے
400سے500روپے لے کر ہی جان چھوڑتے۔یہ نظام ہمارے ملک سے ختم ہونا چایئے نہ
جانے کب تک ہم اس کرپشن میں جلتے رہیں گے۔خدا خدا کر کے اگلے روز ہم لاہور
اسٹیشن پر تھے۔میں اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور گھر چلنے کو بھی کہا
لیکن انھوں نے بھی جلد ہی سیالکوٹ جانا تھا۔اس لئے معذرت کی۔خیر ہم نے وہاں
سے رکشہ لیا اور گھر کی طرف چل پڑے اپنوں سے ملنے کی خوشی ہی کچھ اور ہوتی
ہے۔گھر آیا تو ماشااﷲ پیٹی بھی تندرست ہو چکی تھی اور بیٹا بھی مجھ سے مل
کر بہت خوش ہوا۔جب میں نے ان کو ان کے تحائف دئے تو بچوں کی خوشی دیدنی
تھی۔امید ہے کہ قارئین آپ کو یہ سفر نامہ پسند آیا ہوگا۔شکریہ
|