حالیہ دنوں پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات ، جموں و کشمیر
کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370کے خاتمے کی بازگشت اور شیریں مزاری کا گلگت
بلتستان سے متعلق بیان انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ،سیاسی و آئینی مبصرین نے
تاریخ کے اوراق ایک بار پھر الٹنے شروع کر دئیے ہیں ، ایک بار پھر تقسیم
ہند سے لیکر اب تک کی پاک بھارت صورت حال اور مسئلہ کشمیر پر بحث زور پکڑ
رہی ہے، دوسری طرف دونوں ملکوں کی موجودہ نواز و مودی حکومت آپس میں بات
چیت کے ذریعے تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، تقسیم ہند کے بعد
سے لیکر اب تک کشمیر کے الحاق کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ، کشمیر کی
خودمختاری کیلئے آزادی کے متوالوں نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا
لیکن مسئلہ پھر بھی حل طلب ہی رہا، 1948 ء میں جب آزادی کی تحریک عروج پر
تھی ایسے میں بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ سے جنگ بندی کرانے کی درخواست کی
، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کرانے کے
ساتھ ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ریاست کا الحاق رائے شماری کے ذریعے کرایا
جائیگا۔کشمیری عوام اپنی حق رائے دہی کے ذریعے جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں
وہ کر سکتی ہے،سلامتی کونسل نے اس رائے دہی میں آزاد کشمیر و گلگت بلتستان
کو بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ شامل کر دیا ، جس کے بعد سے ان علاقوں
کے عوام اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرنے کیلئے 66 سالوں سے انتظار کر رہے
ہیں ، کیونکہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کا مستقبل مسئلہ کشمیر کے حل اور
حق رائے دہی کے استعمال سے مشروط ہے، 1952ء میں بھارت سرکار نے جب دیکھا کہ
سلامتی کونسل رائے دہی پر دباؤ ڈال رہی ہے تو انہوں نے اس وقت کے کشمیری
رہنماوں سے ساز باز کر کے آرٹیکل 370 کو آئین میں شامل کر دیا جس کے تحت
جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تاکہ ریاست بھارت کے زیر کنٹرول رہے، اس
وقت کے کشمیری وزیر اعظم شیخ عبداللہ نے اپنی وزارت اور کرسی بچانے کیلئے
ریاستی اسمبلی میں آرٹیکل 370 کی توثیق کے لئے قرار داد پاس کی۔یوں ریاست
میں بھارتی سرکار تاحال آزاد جموں و کشمیر پر تسلط قائم کرنے میں کامیاب
رہا۔حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی کامیابی کے بعد مودی سرکار
کے ایک سینئر وزیر جتندر سنگھ نے اقتدار کے دوسرے دن ہی آرٹیکل 370 کے
خاتمے کے حوالے سے بیان دیا جسے ریاست جموں و کشمیر کے حریت پسندوں نے واضح
طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے جموں و کشمیر کی عوام کی حق رائے دہی پر کاری
ضر ب قرار دیا ہے، وزیر اعلی جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے یہاں تک کہ دیا
ہیکہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کو اعتماد میں لئے بغیر کسی قسم کی آئین میں
تبدیلی قبول نہیں ،یا تو آرٹیکل 370 رہیگا یا کشمیر بھارت کا حصہ نہیں رہے
گا۔
ranaریاست جموں و کشمیر میں اب بھی عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا
چاہتے ہیں جبکہ مودی حکومت آرٹیکل کو ختم کر کے ریاست کو اپنا حصہ بنانے کے
درپے ہے ایسی صورت میں ایک بار پھرجھگڑے کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے،دوسری
طرف پاک بھارت مابین تعلقات پر اسکا کتنا اثر پڑیگا یہ آنے والا وقت بتائے
گا۔
ہونا تو یہ چاہئیے کہ تاریخی حقائق اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کی روشنی
میں ان متنازعہ علاقہ جات کی عوام کو انکی حق خودارادیت کے استعمال کا موقع
دیا جائے تاکہ یہ مسئلہ جڑ سے ہی ختم ہو سکے ، پاکستان کے تقریبا تمام
حکمرانوں نے جموں و کشمیر کے حوالے سے واضح موقف اپنایا ہے اور سلامتی
کونسل، عالمی کانفرنسوں ،سارک اور غیر جانبدار تحریک میں جموں و کشمیر کے
عوام کی حق خو د ارادیت کی بات کی ہے اورر بہت سے موقعوں پر اس بات کو لیکر
دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بھی پیدا ہوتی رہی ہے، لیکن سابقہ 2 عشروں میں
پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر کے موقف میں کسی حد تک سستی دیکھی گئی ہے،
مشرف دور حکومت سے قبل تک کشمیر کے مسئلہ کو پاکستانی حکومتیں اہمیت دیتی
رہیں اسکے بعد مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور پڑتا جا رہا ہے ، حال
ہی میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر
مودی سے ملاقات کی لیکن اس میں بھی کشمیر کے مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
تاہم دو طرفہ تعلقات اور تمام مسائل کا حل مزاکرات کے ذریعے نکالنے کا
فیصلہ کیا گیا جو کہ خوش آئند اقدام ہے۔
پاکستان اور بھارت کی دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کا مثبت حل
تلاش کریں تاکہ ان ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو سکے عوامی جذبات کا
احترام کیا جائے اس سے نہ صرف یہ علاقے ترقی کرینگے بلکہ دونوں ملکوں کی
ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہو سکیں۔
شیریں مزاری نے حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی امور برائے گلگت
بلتستان و آزاد کشمیر کے اجلاس میں کہا ہیکہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر
سے نتھی کرنا ہماری بیوقوفی تھی ، رائے شماری میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے
کیلئے اس علاقے کو متنازعہ رکھا گیاہے،شیریں مزاری صاحبہ نے بڑی آسانی سے
اس بیوقوفی کا ذکر کر دیااور گلگت بلتستان اور کشمیر کے آپس میں تعلق کو
ختم کر دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں وہ خود عملی طور
پر اس بیوقوفی کو سدھارنے کیلئے کیا کر رہی ہیں ، گلگت بلتستان کی تاریخی
حیثیت ہم چاہے جتنی بھی نفی کریں ہمارے سامنے روز اول کی طرح واضح ہے ۔اگر
وفاقی جماعتیں اس علاقے سے مخلص ہوتے تو ان بڑی بڑی بیوقوفیوں کی نوبت ہی
نہ آتی ، ان کے بیان پر گلگت بلتستان کی بہت ساری جماعتوں نے مذمت کی
ہے۔اور کہا ہیکہ ایسے بیانات حق خود ارادیت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش
ہیں ، یہ ایک حساس عالمی مسئلہ ہے،اور اس حوالے سے سوچ سمجھ کر بیانات دینا
وقت کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان کی عوام گزشتہ 66 سالوں سے آئینی حقوق سے محروم رہی ہے ،
نوجوان طبقہ، دانشور اور ادیب ان محرومیوں کا ماتم ہر دور میں کرتے رہے ہیں
، الحاق پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک اس علاقے کو متنازعہ حیثیت میں رکھا
گیا ، قومی اسمبلی و سینٹ میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے عوام
شدید ذہنی کوفت کا شکار رہے ہیں ، عوامی حق خود ارادیت کے استعمال سے قبل
حکومت پاکستان اس علاقے کو قومی دھارے میں شامل کرنے سے قاصر ہے، آئین
پاکستان میں گلگت بلتستان کا ذکر شایدکہیں ہو لیکن مجھے رات بھرآئین
پاکستان 1973ء کے 280 آرٹیکلز میں کہیں نہیں ملا۔ حکومت پاکستان کو بھی
چاہیے کہ وہ عالمی قوانین اور حق خود ارادیت کو چھیڑے بغیر ان علاقہ جات کو
آئین کا حصہ بنائیں اور پاکستان کے ساتھ ان علاقوں کے رشتے کو مضبوط بنانے
کیلئے اقدامات اٹھائے۔اس اقدام سے نہ صرف ان علاقہ جات میں ترقی ہوگی بلکہ
پاکستان کا موقف بھی عالمی سطح پر مضبوط ہوگا ۔ |