بنتِ حوا کلام اقبال کی روشنی میں

کلامِ اقبال نگینوں سے مرصع وہ شاہکار ہے جو پڑھنے والے کو ہمیشہ ایک نئی دنیا سے روشناس کرواتا ہے اوریہ دنیا عقل و دانش سے بلند تر عشق کی رخصت کی طرگ لے جاتی ہے اور ایسے اسرار عنکشف کرتی ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کے کلام میں اسلام کی روح اس طرح سموئی ہوئی ہے کہ ان دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، علم و ہنر کی بات ہو یا گفتارِ سیایت کا تذکرہ، محبت کا سفر ہو یا عقائد کی بات ہو،مذاہب کا تقابلی جائزہ اسلام اور قرآن ان کے کلام مین ہم قدم نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مفکرِ اسلام یعنی اقبال اپنے کلام میں بنتِ حوا کے مقام کا تعین بڑے عزت و احترام سے کرتے ہیں۔ بظاہر اس مغربی علم و جن کے ماہر جدید زمانے کے پیرو کار اندر مشرقیت اور اسلامی روح کا پیکر ہے۔ جو آج بھی عورت کا مقام و مرتبہ ابھی بھی انہی بنیادوں پر استوار دیکھنے کا آرزو مند ہے جس کا تعین اسلام نے صدیوں پہلے کر دیا تھا۔ آپ عورت کو ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے رشتے میں سمو کر عزت و احترام سے نوازتے ہیں آپ کا کلام اس بات کا عکاس ہے۔

سب سے پہلے تو آپ اہلِ مشرق پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مغرب نے عورت کو مرد کے برابر حقوق کا دعویٰ کرکے اس ایک ایسی جنس بنا دیا ہے جو اپنی قدر و قیمت خود گھٹا رہی ہے۔ اس کی جسمانی و نفسیاتی ضروریات سے قطع نظر کرتے ہوئے اس شمع محفل بنا دیا گیا ہے۔ اور اس میں بھی زیادہ قصور عورت کا اپنا ہے۔ جو ــ"آزادیٔ نسواں" کے نعرے میں الجھ کر رہ گئی۔

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند

کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

اس راز کو عور ت کی بسیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں،مردانِ خرد مند

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیٔ نسواں کہ زمرد کا گلو بند

عورت کا مستور کہا جاتا ہے ، عورت کو وہ نازک آبگینے کہا جاتا ہے جس کی حفاظت خواہ وہ کسی بھی رشتہ میں ہو مردِ مسلماں پر فرض ہے۔ معاشرے میں بگاڑ اسی وقت آتا ہے جب یہ نازک آبگینے ٹھیس لگنے سے بکھر جائیں اور اس کے نگہبان اس کی حفاظت سے پہلو ہتی کریں۔ اقبال"عورت کی حفاظت" میں یوں اپنے خیالات قلم بند کرتے ہیں۔

ایک زندہ حقیقت میرے سینہ میں ہے مستور
کیا سمجھے گا جس کی رگوں میں ہے بہو سرد

نے پردہ، نہ تعلیم نئی ہو کر پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خود رشید بہت جلد ہوا زرد

کلامِ اقبال خود ی کے تصورکے بغیر نامکمل ہے، انکی کوئی بھی نظم ہوغزل ہو، قطعہ یا رباعی وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر فلسفۂ خودی بیان کرتی نظر آئے گی۔ یہ وہ جوہر ہے جو ہر انسان کے اندر قدرت کا عطا کردہ ہے اور اس پر لازم ہے کہ خودی کو اپنی تعمیر ذریعہ بنائے۔

جب اقبال تہذیب ِ نسواں کا ذکر کرتے ہیں تو اسی خودی کا درس صنفِ نازک کو بھی دیتے نظر آتے ہیں کیونکہ آہکے خیال میں کائنات کے بہت سے اسرار و رموز ابھی تک انکشاف کے منتظر ہیں اس لیے تو ہم کن فیکون کی صدائیں سن رہے ہیں کیونکہ انسان نے بھی تک اپنی خودی کو نہیں پہچایا۔

بہت رنگ بدلے پہر بریں نے
خدایا یہ دنیاجہاں تھی وہیں ہے

تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں، میں نے
وہ خلوت نشین ہے، یہ جلوت نیشن ہے

ابھی تک ہے پردہ میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکار انہیں ہے

اگر کائنات کو سات سُروں میں تقسیم کیا جائے تو سب سے خوبصور ت اور دلفریب رنگ بنتِ خواکا ہے۔ اسلئے اقبال اس تصویر کائنات کا حسین تنگ قرار دیتے ہیں اور ایک ایسے ساز سے مشابہ قرار دیتے ہیں جس میں زندگی کا سوزِ دروں شامل ہے۔ بظاہر اس کمزور، جذباتی ہستی کی مشتِ خاک شرف میں ثریا سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس کے قدموں تلے جنت ہے اور اسکی دعاؤں میں رازِ کامیابی ہے۔جسے کائنات نے ماں کے رشتے کا نام دیا ہے۔ کوئی عورت نبی، ولی یا تصوف کی کاملیت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی، لیکن ہر ولی، ہر پیغمبر ، ہر درویش اور فلسفی اسی کے بطن سے جنم لیتا ہے اور اسکی کی آغوش میں اپنا پہلا درس پاتا ہے اقبال اس نکتے کو کیا خوب لکھتے ہیں

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

اقبال کے نذدیک آزادیٔ نسواں وہی ہے جو اسلامی احکامات کے مطابق ہے، اہل مغرب مسلمان عورتوں کو چار دیواری میں قید، اپنے حقوق سے بے خبر اور مرد کے جبر و استبداد کا شکار سمجھتے ہیں، تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے، وہ اپنی تعلیم میں ایک ایسا فلسفہ پیش کرنے ہیں جو عورت کو اسکی نسواتیت اور عزت و شرف سے بیگانہ کر رہا ہے۔

تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انسان کے لیے اسکا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسۂ زن

ہے عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

ہنر یونان ہیں کسکے حلقۂ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بیکار و زن ہتی آغوش

آپ خواتین کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں باعزت مقام دیتے ہیں"فاطمہ بنتِ عبداﷲ" اور والدہ کی یاد میں لکھا جانے والا مرثیہ اسکا ثبوت ہے۔

اقبال کے کلام کی شوخی ، گہرائی پڑھنے کو متوجہ کرتی ہے۔انکا کلام ہشتِ پہلو جس میں کبھی تو بے ساختگی محسوس ہوتی ہے تو کبھی سوز لیکن ان کے بیان کردہ خیالات، پیش کردہ تصورات پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں یوں لیتے ہیں کہ پڑھنے والا دیر تک خود وک ان کے سحر میں محوس کرتا ہے اور یہی چیز کلامِ اقبال کے فن کی معراج ہے۔

 

Andleeb Zuhra
About the Author: Andleeb Zuhra Read More Articles by Andleeb Zuhra: 9 Articles with 20757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.