وزیراعظم نریندرمودی کی حلف
برداری کی تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی شرکت پر رائے زنی کا
بازارگرم ہےاوردانشوروں کا ایک طبقہ اس میں ان ملکوں کے درمیان ایک بہتر
مستقبل کاآغاز دیکھ رہاہے ۔اسی درمیان یہ بحث بھی جاری ہے کہ سیکولرطاقتوں
کی تمام ترکوششوں کے باوجود ایک فرقہ پرست پارٹی یہ تاریخی فتح حاصل کرنے
میں کیوں کرکامیاب ہوگئی ؟مودی نے اپنی تشہیری اورانتظامی صلاحیتوں سے وہ
کردکھایاجس کی توقع کسی کونہیں تھی۔ عام انتخابات میں سیکولرطاقتوں کی
شرمناک شکست جمہوریت کیلئے بہرحال نیک شگون نہیں ہوسکتا،بہوجن سماج وادی
پارٹی سمیت دیگربڑی علاقائی پارٹیوں کا صفایا ہوجانا اورریاست میں
برسراقتدارپارٹیوں کا محض چندسیٹوںتک سمٹ کر رہ جاناجمہوریت پسندطبقہ کیلئے
لمحہ فکریہ ہے۔سوال یہ ہے کہ آخرعلاقائی پارٹیاں خصوصاً جوریاست میں
سربراقتدارہیں ان کاجادوکوئی کرشمہ کیوںنہیں دکھاسکا ؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ سیکولرپارٹیاں عام انتخابات میں اپنی شکست کے اسباب کا
جائزہ لینے اورخوداحتسابی کے عمل سے گزرنے کی بجائے مودی کی جیت اوراپنی
ناکامی کا ٹھیکرامسلمانوں کے سرپھوڑرہی ہیں حالاںکہ مودی کی جیت کا
سہراصحیح معنوںمیں کانگریس اوراس کی ہمنواسیکولرپارٹیوں کے سرجاتا
ہے۔کانگریس اپنی غیردانشورانہ حکمت عملی کے سبب عام انتخابات میں جہاں مودی
کاسامناکرنے میں ناکام رہی وہیں عوام کے سامنے اپنے ایجنڈے کوپیش کرنے میں
بھی بے دست و پا ثابت ہوئی ۔سیاسی تجربات سے محروم شخص کے ہاتھوں میں عام
انتخابات کی زمام سونپ کرمیدان مارنے کی کوشش کوپس پروہ مدمقابل کی جیت کی
راہ کو آسان کرنے کی سعی سے تعبیرکیاجاتا ہے۔سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو اگر
سونیا گاندھی شہزادے کے زوربازوپر بھروسہ کرنے کی بجائے کسی اوریا
پرینکاگاندھی کے ہی ہاتھوںمیں انتخابات کی باگ ڈورتھمائی ہوتی تو
شایدکانگریس کو اتنی ہزیمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
مودی نے بلکہ آرایس ایس نے عام انتخابات کی تیاری بہت پہلے شروع کردی تھی
اورا س کیلئے اس نے سیاسی توڑجوڑسے لے کرمیڈیا کی سوداگری تک سب کچھ
کیا،مسلمانوں کواپنی جانب راغب کرنے کیلئے بھی مودی نے ہرممکن کوشش کی ،جب
مسلمان راغب ہوتے نظرنہیں آئے تو ٹوپی اورنقاب کے سہارے نقلی مسلمان
تیارکرکے دنیا کویہ تاثردیاکہ ہمیں ہرطبقہ کی حمایت حاصل ہے ۔یہ سب کچھ
حریفوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا لیکن کانگریس وسیکولرپارٹیاں اسے مذاق
سمجھتی رہیں ۔مودی کی حکمت عملی کو سنجیدگی نہیں لیاجانا ہی سیکولرپارٹیوں
کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہرجنگ کا یہ اصول رہاہے کہ مدمقابل کی
تیاریوں کے اعتبارسے اپنی تیاریاں کی جاتی ہیں،تاریخ گواہ ہے کہ دشمن
کوکمزورسمجھنے والوں کواکثرشرمناک ہارسے دوچارہونا پڑاہے ۔عام انتخابات میں
سیکولرطاقتوں کی شکست اس کی زندہ مثال ہے۔یہ سیکولرپارٹیوںمیں
انتشاراورکمزورحکمت عملی کی ہی مرہون منت ہے کہ گجرات ،راجستھان اورمدھیہ
پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں بی جے پی کے علاوہ کسی پارٹی کا کھاتہ بھی
نہیں کھل سکا۔
یوپی میں سماج وادی پارٹی اوربہوجن سماج پارٹی ،بہارمیں جنتادل یونائٹیڈ
اورراشٹریہ جنتادل چاروںپارٹیاں اگرعلاقائی سیاست کی رسہ کشی کوتھوڑی
دیرکیلئے بھلاکر عام انتخابات میں اترتی توشایدعام انتخابات کے نتائج اس
قدرچونکانے والے نہیں ہوتے ۔اترپردیش اوربہاریہ وہ ریاستیں ہیں جہاں سے
دہلی کا سمت طے ہوتا ہے ،ان ہی دونوںریاستوںمیں سیکولرپارٹیوں کوزبردست
ہارکا منہ دیکھنا پڑاہے۔ اترپردیش میں جہاںکبھی بلاشرکت غیرریاست پرحکومت
کرنے والی بہوجن سماج وادی پارٹی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکاوہیں
برسراقتدارسماجوادی پارٹی کومحض ۵ سیٹوںپراکتفاکرناپڑا۔اسی طرح بہارمیں
راشٹریہ جنتادل کی جھولی میں محض ۴ سیٹیں آئیں جبکہ حکمراں پارٹی جے ڈی
یوکوتوقع سے نہایت ہی کم یعنی ۲سیٹ ہی ہاتھ آئیں اورجے ڈی یوکے قومی
صدرشردیادوبھی ہارگئے۔
مسلمانوںپر الزام دھرنے سے قبل اس بات پرغورکیاجاناضروری ہے کہ آخرغیرمسلم
و وٹروںنے انہیں کیوںنہیں قبول کیا؟مسلمان نے آزادی کے بعدسے آج تک
جمہوریت کی حفاظت کرتا رہاہے اورجبھی سیکولرزم پر آنچ آئی ہے مسلمانوںنے
بڑھ کرا س کا مقابلہ کیاہے یہی وجہ رہی کہ سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی
چھوٹی بڑی تمام پارٹیاں مسلم ووٹ کواپنی مورثی جائیدادسمجھتی رہی ہے۔الیکشن
سے عین قبل کبھی فسادات کراکرتوکبھی مندرمسجدکا موضوع گرم کرکے مسلمانوں
ایک طرح سے نفسیاتی خوف میں مبتلاکردیاگیا تھا ۔سیکولرپارٹیاںیہ کا تجربہ
گزشتہ نصف صدی سے کامیاب ہوتا آیا لیکن اس خوف نے اس باراس لیے وہ کام
نہیں کیاجواب تک کرتا آیا تھا کیونکہ ایک طرف مسلمان اپنےمسیحاؤں سے
مایوس اور کنفیوژ تھے تو دوسری طرف اکثریتی فرقے میں زبردست پولرائزیشن
تھایہاں تک کہ دلتوں نے بھی مودی میں اپنا مسیحاڈھونڈ لیا؟
یہ کہناغلط ہوگاکہ مسلمانوں نے بی جے پی کوبالکل ووٹ نہیں دیالیکن ایک ہی
سیٹ سے متعدد سیکولر امیدواروں کے کھڑے ہونے سے جمہوریت پسندعوام کیلئے
فیصلہ کرنابڑا مشکل ہوگیا تھاپھربھی خصوصاً مسلمانوں نے اپنی سیاسی سوجھ
بوجھ کے سیکولرامیدوارکوووٹ دیالیکن متعددامیدوارہونے کے سبب ان کے ووٹوں
کی کوئی قدرنہیں رہی ،اوراس کی ذمہ دارپورے طورسے سیکولرزم کا دم بھرنے
والی پارٹیاں ہیں۔کبھی کبھی ذہن میں سوال ابھرتاہے کہ کہیں سیکولرپارٹیوںنے
بھی مودی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی قسم تونہیں کھارکھی تھی جوسونے کی
تھالی میں سجاکراقتدارکوبی جے پی کے حوالے کردیاکیوں کہ سیاست کے اصول
نرالے ہوتے ہیں کبھی ووٹ حاصل کرکے جیت رقم کی جاتی ہے توکبھی کسی کے ووٹ
کوبے وقعت کرکے فتح حاصل کیاجاتا ہے،۱۶ویں عام انتخابات میں اسی اصول
کودوہرایاگیاہے۔
مودی ملک کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائزہوہی چکے توسوال یہ اٹھتاہے کہ وہ
ملک کوکس راہ پر لے جائیں گے کیاوہ آرایس ایس کے ذریعہ کھینچے ہوئے خطوط
پرملک کے مستقبل کا تانا بانا بنیں گے جن میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی اوریکساں
سول کوڈ وغیرہ شامل ہےیاپھرہندوستانی جمہوریت کا بھرم رکھتے ہوئے اس کی
عظمت میں اضافہ کریں گے ۔چوںکہ مودی وہ شخص ہے جس نے آرایس ایس کا پرچارک
بننے کیلئے ۱۸ سال کی عمرمیں اپنی نئی نویلی دلہن تک کوتیاگ دیا اس لئے
اگرسیکولرعوام کے ذہن میں خدشات وشبہات جنم لے رہے ہیں تواسے بے وجہ
قرارنہیں دیاجاسکتا لیکن انہوں نے جس طرح سے ہندوستان سے سخت ترین حریف ملک
پاکستان کے وزیراعظم کواپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعوکیا، وہ ایک مودی
میں ایک خوشگوارتبدیلی کا اشارہ ہے۔مودی کے وزیراعظم بننے سے مسلمانوں
کواحساس کمتری ونفسیاتی خوف میں مبتلاہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیوں کہ
خداکا شکر ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اوربی جے پی کواتنی بھی اکثریت
نہیں ملی ہے کہ وہ آئین کے بنیادی اصولوںسے چھیڑچھاڑکرسکے ۔اگرایساکرنے کی
کوشش کی گئی تو ملک کے سیکولرعوام سینہ سپرہوجائیں گے- |