وزیر اعظم پاکستان کے دورہ بھارت
کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں پاکستان کو درپیش حالات و واقعات کا جائزہ لینا
پڑے گا ۔ پاکستان جس محل وقوع میں آباد ہے اس کے مغرب میں افغانستان ٬ جنوب
میں ایران مشرق میں بھارت اور شمال میں عوامی جمہوریہ چین واقع ہے ۔ سوائے
طالبان حکومت کے افغانستان ہمیشہ پاکستان کامخالف رہا ہے اور اب بھی افغان
صدر کرزئی کی جانب سے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر زبانی بمباری کاسلسلہ
کم نہیں ہوا ۔افغانستان میں بھارت اپنے پنجے کامیابی سے جما چکا ہے وہاں
بیٹھ کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں اور
تنظیموں کو بھاری سرمایہ اور جدید ترین اسلحہ فراہم کررہاہے ۔ اداروں کی
ناکامی کی بنا پر پورا ملک سیکورٹی رسک کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔کراچی
لاہور پشاور اور کوئٹہ کی بات تو چھوڑیں پاکستان کا دار الحکومت ہر لمحہ
دہشت گردوں کی یلغار کی زد میں رہتا ہے بم دھماکے اور خود کش دھماکے روزانہ
کا معمول بن چکے ہیں دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا آغازامریکہ نے 2001ء میں
کیا تھا اس منحوس جنگ کے سائے پاکستان کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چکے
ہیں۔ جہاں تک ایران کی بات ہے بظاہر اس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار
نظر آتے ہیں لیکن پاکستان افغانستان اور مشرق وسطی میں شیعہ ریاستیں تشکیل
دینے میں ایران کا بڑا اہم کردار دیکھنے میں آرہاہے گزشتہ مہینے چند ایرانی
سرحد محافظوں کے اغوا کا جو واقعہ رونما ہواتھا اس پر ایران نے پاکستان میں
ایرانی فوج بھیجنے کا اعلان کرکے ہماری خوش فہمیوں کو ختم کردیا تھا۔ایران
اس وقت تک ہمارا دوست ہے جب تک اس کے مفادات ہم سے نہیں ٹکراتے ۔رہی بات
چین کی ۔ دنیا میں اگر کوئی سچا اور کھرا دوست ہے تو وہ چین ہے لیکن چین
بھی اس وقت پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا جب خود پاکستان اپنے دشمنوں کے سامنے
سینہ سپرہونے کی پوزیشن میں ہوگا ۔ ان حالات میں اگر نواز شریف بھارتی وزیر
اعظم کی دعوت پر دہلی گئے ہیں تو انہوں نے نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے ۔زبانی
کلامی باتوں اور تڑیاں لگانے سے جنگ نہ تو لڑی جاتی ہیں اور نہ ہی جیتی
جاسکتی ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان تین اطراف سے
دشمنوں میں مکمل طور پر گھیر چکا ہے اور ملکی سالمیت کے چوتھے دشمن وہ دہشت
گرد ہیں جو پاکستان میں طاقت کے بل بوتے پر اپنا نظام مسلط کرنے کا تہیہ
کرچکے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ بھارتی وزیر اعظم مودی بذات خود ایک دہشت
گرد تنظیم کا رکن رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کا ان سے بڑا کوئی جانی دشمن نہیں
ہے انہوں نے اپنی وزارت اعلی کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ جس ہولناک قسم کا
سلوک کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مودی کی کامیابی پر
نہ صرف پاکستان کے اٹھارہ کروڑ پاکستانی تشویش میں مبتلا ہیں بلکہ بھارت
میں رہنے والے پندرہ کروڑ مسلمانوں کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے ۔وادی
کشمیر جہاں پہلے ہی بھارتی فوج ظلم و استبداد کا ہر حربہ آزما رہی مسلمان
کشمیری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں سے بھارتی فوج کھیلتے ہیں جہاں
مسلمانوں کے گھر جلانے اور املاک تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں
کیا جاتا مودی کے وزیر اعظم بننے سے بھارتی انتہا پسندوں کے حوصلے مزید
بلند ہوچکے ہیں جس کی ایک جھلک حلف وفا داری کے دن مودی کی آبائی ریاست
گجرات میں مسلم کش فسادات کی شکل میں سامنے آئی ہے جہاں مسلمانوں کے گھروں
اور املاک کو آگ لگا دی گئی ۔اس میں شک نہیں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور
جب تک یہ شہ رگ بھارت جیسے مکاردشمن کے پنجوں میں جکڑی رہے گی پاکستان کا
وجود مکمل نہیں ہوگا ۔اسی طرح پاکستانی دریاؤں کے پانی پر بھارتی قبضے نے
ایک تنازعے کی صورت اختیار کرلی ہے جب تک یہ دونوں مسئلے حل نہیں ہوجاتے اس
وقت تک پاکستان کے بھارت کے حقیقی دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوسکتے۔بہتریہی
ہے کہ حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ
کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے کشمیر اور پانی کا مسئلہ اقوام متحدہ کے پلیٹ
فارم پر بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے اور دوسری جانب پاکستان اپنے انتظامی
اوراندرونی حالات بہتر بنائے ۔باربار فوجی مداخلت٬ دہشت گردوں کی بڑھتی
ہوئی کاروائیاں ٬ پولیس اور سیکورٹی اداروں کی نااہلیت٬پاکستانی سیاست
دانوں کی غیر دارانہ سرگرمیاں اور سرکاری فنڈ کا غیرسرکاری استعمال
پاکستانی وحدت اور سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کے سامنے آرہے ہیں ۔مجھے
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چاروں اطراف سے خطرات میں گھیرنے کے باوجود
پاکستانی سیاست خود اپنے ہاتھوں اپنی قبریں کھود رہے ہیں مفادات کی جنگ میں
وہ اس قدر بہک چکے ہیں کہ اب دشمن کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں
رہی بلکہ دشمنوں سے بڑھ کر وہ خود قومی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔میں
سمجھتا ہوں اگر نواز شریف بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار
کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس سے ایک جانب ایٹمی جنگ کے خطرات ٹل جائیں گے
تو دوسری جانب پاکستان کو اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کا موقعہ میسر آجائے
گا ۔پاکستان 2001ء سے حالت جنگ میں ہے پولیس کا محکمہ تو کارکردگی کے
اعتبار اپنا وجود کھو چکاہے اس کاہونا یا نہ ہونا برابر ہے لیکن دہشت گردوں
کے پے درپے حملوں فوجی افسروں اور جوانوں کی بے تحاشا شہادتوں کے بعد پاک
فوج کا مورال بھی وہ نہیں رہا جو 1965ء میں ہواکرتا تھا اس لیے حالات کا
تقاضا یہی ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ کے ماحول کو پیدا ہونے سے
پہلے ہی کسی بھی طرح روکا جائے اور امن اور خوشحالی کے سورج کو طلوع ہونے
کا موقعہ فراہم کیا جائے ۔میاں نوازشریف ایک جہاندیدہ لیڈر کی حیثیت سے
قومی اور بین الاقوامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتری کی جانب کامیابی سے
گامزن ہیں اور انہیں اپنی دانشمندانہ حکمت عملی پر عمل پیرا رہنے کا موقع
ملنا چاہیئے کیونکہ یہ وہی نواز شریف ہیں جنہوں نے ایٹمی دھماکوں کے وقت
شدید ترین عالمی طاقتوں کے دباؤ کے باوجود قومی مفادات کے دانشمندانہ فیصلے
کیے تھے مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی قوم کومایوس نہیں کریں گے ۔ |