حکومت کے خلاف ”معرکے“ کی تیاری

مسلم لیگ ق اور عوامی تحریک حکومت کے خلاف میدان میں اتر چکی ہیں۔ہفتے کے روز لندن میں بیٹھ کر دونوں جماعتوں کے سربراہان چودھری برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے دس نکاتی ایجنڈے کی کاپی پر دستخط کیے ہیں اور پاکستان میں نئی عوام حکومت کے قیام کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ لندن میں ہونے والی میٹنگ کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری نے رواں ماہ پاکستان واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیک اوور آرمی نہیں عوام کریں گے، یہ ٹیک اوور عوامی و جمہوری ہوگا اور سب کچھ آئین کے مطابق ہوگا۔ میری پاکستان آمد کے بعد دھن، دھونس، دھاندلی کی حکومت کے خاتمے اور عوام کی شراکتی جمہوریت کی جدوجہد کا آغاز ہو جائے گا۔ جبکہ اس موقع پر مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما پرویزالٰہی نے کہا کہ یہ انقلاب ظلم کے خلاف ہے، اقتدار میں آ کر نچلی سطح تک انصاف فراہم کریں گے اور (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ طاہر القادری کے خیالات سے ق لیگ مکمل اتفاق کرتی ہے، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور تمام شخصیات سے رابطے شروع کر دیں گے اور صرف زبانی جمع خرچ نہیں، بلکہ تبدیلی کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق لندن میں ہونے والی اہم ملاقات میں گرینڈ الائنس کے لیے ایم کیو ایم، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور تحریک انصاف کو بھی گرینڈ الائنس میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی جائے گی، تاہم اس کے شامل نہ ہونے پر بھی الائنس بنایا جائے گا، مزید یہ کہ نظام بدلنے کی خواہش مند جماعتوں کا الائنس بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے خلاف حتمی معرکے کے لیے کسی پر انحصار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور آئندہ چند روز میں ڈاکٹر طاہر القادری ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے بھی ملاقات کریں گے۔ جبکہ حکومت کے خلاف بننے والے الائنس میں شمولیت کی دعوت ملنے سے پہلے ہی تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہماری پارٹی اپوزیشن کے کسی گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنے گی۔ جبکہ تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ کچھ دوست بہت جلدی میں ہیں، ابھی اس کا وقت نہیں۔ نواز شریف جمہوریت کی طرف بڑھیں، جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہوں گے، حکومت گرانا نہیں چاہتے، سیاسی فیصلے پاکستان کی سرزمین پر ہوں گے۔ تجزیہ کاروںکا کہنا ہے کہ عمران خان کے انکار سے لندن میں بیٹھ کر پاکستانی حکومت گرانے کی کوشش کرنے والوں کو دھجکا لگا ہے، کیونکہ طاہر القادری اور چودھری برادران اس حوالے سے کافی پرامید تھے کہ عمران خان حکومت کے خلاف بننے والے الائنس میں شمولیت اختیار کر کے ان کا ساتھ دیں گے، لیکن انہوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس الائنس میں شمولیت سے انکار کردیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی حکومت کے خلاف لندن میں ہونے والی میٹنگ کو ملک کی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے خلاف خطرہ گردان رہی ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے اس اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے اور اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ کچھ لوگ جمہوریت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لندن میں بیٹھ کر لندن کی بات ہوگی، پاکستان کی نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو قیام امن کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔ ایسے لوگ مارشل لاءکے دور میں جمہوریت اور جمہوریت کے دور میں مارشل لاءکی باتیں کرتے ہیں۔ اس وقت سیاست کی بجائے قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جو کھیل کھیلا جا ر ہا ہے اس سے واقف ہیں، لیکن کسی کو جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے۔ ہم جمہوریت کا تسلسل اور استحکام چاہتے ہیں۔ جمہوریت کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں کرتے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ کوئی کینیڈا سے اعلان کررہا ہے اور کوئی لندن میں اجلاس بلا رہا ہے، احتجاج کرنے والوں کا مقصد اور ایجنڈا سمجھ میں نہیں آرہا۔ خدا کے واسطے ترقی کے خلاف یہ احتجاج کرنے والے ملک کو چلنے دیں۔ یہ پاکستان کی ترقی کا ایجنڈا ہے یا تباہی کا۔ انہوں نے کہا کینیڈا اور لندن میں بیٹھ کر ہمارے خلاف منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ احتجاج کرنیوالے لوگ پاکستان کی تباہی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ طاہرالقادری اور چودھری برادران سیاسی بے روز گار ہیں، ان میں سے ایک اپوزیشن اور دوسرا پارلیمنٹ میں نہیں آسکے گا۔ مشرف کی باقیات ان کے پیاروں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جبکہ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیرعلی کا کہنا تھا کہ کینیڈین شہریت کا حامل ایک شخص پاکستانی عوام کو انقلاب کے سبق دیتا ہے، طاہر القادری نے لندن میں ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جو بلدیاتی انتخابات بھی نہیں جیت سکتے، جن کے خلاف اربوں روپے کے مالیاتی اسکینڈلز ہیں اور عمران خان بھی ماضی میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دے چکے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اختلاف رائے، احتجاج اور جلسے جلوس جمہوریت کا حسن کہلاتے ہیں، ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے احتجاج کرسکتا ہے، لیکن اگر کوئی تحریک جمہوریت کی ہی بساط لپیٹتی نظر آئے، تو اس کو کسی طور بھی جمہوریت کا حسن نہیں کہا جاسکتا ۔ لندن میں ہونے والی چودھری برادران اور طاہرالقادری کی میٹنگ سے بھی جمہوریت کے حوالے سے کوئی خیر برآمد ہوتی نظر نہیں آرہی، بلکہ اس سے جمہوریت کو نقصان ہوسکتا ہے۔کیونکہ بے شمار مسائل میں گھرا ملک جمہوری حکومت کے خلاف چلنے والی کسی تحریک کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک خداداد کی تاریخ جمہوریت اور آمریت کی کشمکش اور ٹکراﺅ سے عبارت ہے۔ ہماری قومی زندگی کا بڑا حصہ طالع آزماﺅں اور آمران وقت کی تگ وتاز کی نذر ہوچکا ہے۔ حصول آزادی کے بعد ریاست میں جمہوری روایات اور سیاسی اقدار کو استحکام، ثبات اور مضبوطی حاصل نہ ہوسکی، کیونکہ ہمارے ہاں تاحال عمومی طورپر سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ قائدین اور عام کارکنان میں وہ سیاسی شعور، پختہ فکری اور بالغ نظری پیدا نہیں ہوسکی، جو ملک وقوم کے حقیقی مفادات کا تحفظ کرنے اور موجودہ مسائل و مصائب کی دلدل سے نکلنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتی ہے، لیکن بعض سیاست دان عوامی جذبات واحساسات کو اپنے سیاسی مفادات و اغراض کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں چوکتے۔ جب تک ہمارے سیاسی قائدین اور رہنما اس منفی طرز عمل کی اصلاح کے لیے قرار واقعی سنجیدگی اور خلوص کا اظہار نہیں کریں گے ، صورت حال میں کسی مثبت اور خوش کن تبدیلی کی امید رکھنا بے جا امر ہوگا۔ وطن عزیز کو درپیش مختلف النوع بحرانوں اور مسائل کا سامنا تمام سیاسی جماعتیں ملک وملت کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بیدار مغزی اور باہم اتحاد کا مظاہرے سے کرسکتی ہیں ، لیکن اگر جمہوری پارٹیاں ہی جمہوریت کے خلاف موچہ زن ہو جائیں تو جمہوریت کسی طور بھی محفوظ نہیں رہ سکتی، جو سراسر مسائل کی چکی میں پسے ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 647333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.