کرہ ارض کی آب و ہوا میں تبدیلی
نے ماہر ماحولیات کو متنبع کیا ہے کہ وہ اپنی زمین کو محفوظ کرسکیں۔ بین
الاقوامی بنچ برائے ماحولیاتی تبدیلی نے تجویز پیش کی ہے جس کی بنیاد طبعی
سائنس پر ہے۔ انہوں نے تجزیہ دیا ہے کہ ماحول کا گرم ہونا اس وجہ ہے کہ
انسانی سبز گھروں(گرین ہاوسسز) میں گیس کی مقدار کی زیادتی ہے۔بین الاقوامی
بنچ برائے ماحولیاتی تبدیلی نے انکشاف کیا ہے کہ 10-12فیصد گیس زراعت کی
وجہ سے ہے۔ اس میں 40فیصد میتھین اور 60فیصد نائٹرس آکسائیڈ شامل ہے۔جگالی
کرنے والے جانور عمل تبخیر سے اپنے معدہ سے گیس خارج کرتے ہیں۔ اس میں بھیڑ،
بکری اور گائے شامل ہے۔ گیس عمل تبخیر کا آخری امر ہے۔ گویہ جو میتھین اور
نائٹرس آکسائیڈ سے بنتی ہے گرم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ گرین ہاؤس گیس کی
پیداوار میں آدھا حصہ جانوروں کی صفت ہے۔ اس آدھے حصہ میں آدھا گوبراور
آدھا عمل تبخیر سے گیس پیدا ہوتی ہے۔
اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ جڑی بوٹیوں کے بطور خوراک استعمال پر توجہ دی
جائے اس طرح گیس کے اخراج کم ہوجائے گا۔ اور اس طرح کا ربن ڈائی آکسائیڈ کی
مقدار بھی کم ہوجائے گی۔
جانوروں میں گیس کے اخراج کو کم کرنا:
۱۔ یہ خوراک اور چارا کے ہضم ہونے کی صلاحیت کو زیادہ بہتر طریقے سے بڑھاتا
ہے۔
۲۔ خوراک میں اضافی اشیاء کے استعمال سے ہائیڈروجن کو وہ اپنے ساتھ باندھ
دیں گے جو کہ درمیانی حصہ ہے۔ میتھین کی پیداوار میں۔
۳۔ اوجھڑی والے بیکٹیریا کم کیے جائیں جو میتھین گیس پیدا کرتے ہیں۔
۴۔ اوجھڑی والے خوردبینی جاندار بڑھائے جائیں تاکہ وہ ایسا مادہ پیدا کریں
جو اچھا ہو نہ کہ میتھین۔
۵۔ کوشش کی جائے دودھ کی مقدار بڑھائی جائے اور جانوروں کی مقدار کم کی
جائے۔
جھاڑیوں اور درختوں کی غذائی اہمیت:
اگر پودوں کی چنائی ہوئی قسمیں کیوٹہ طریقہ کار سے کاشت کی جائیں تو کاربن
میں کمی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جس کو گرین ہاؤس آسیٹ کے طور پر یہ بیچا جاتا
ہے۔ جو جانوروں میں غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ پتوں کی خوراک کی اہمیت
گرم علاقوں میں پودوں اور جھاڑیوں کی گھاس سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ جس میں
پروٹین زیادہ اور فائبر کم ہوتے ہیں۔ درختوں کی ٹہنیوں اور جھاڑیوں کے بہت
زیادہ فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر کافی مقدار میں پروٹین انرجی اور سلفر
ریومن (Rumen)کے بیکٹیریا کو مہیا کرتے ہیں۔ اور انہیں باڑ کی لائنوں اور
ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
جانوروں کی خوراک میں اس کی اہمیت:
۱۔ آسانی سے دیا جاسکتا ہے۔
۲۔ خوراک میں ورائٹی مہیا کرتا ہے۔
۳۔ خوراک میں ڈائٹری نائٹروجن ، منرلز اور وٹامنز کا ذریعہ ہے۔
۴۔ قبض کشا ہے۔
۵۔ یہ چارہ ٹینن (Tanine)پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو کرموں کے اثر کو زائل کرتا
ہے۔
۶۔ بھیڑ میں کرموں کی تعداد کم کردیتا ہے۔ دودھ میں پروٹین کی پیداوار
بڑھاتا ہے۔
۷۔ بھیڑ میں کرموں کی تعداد کم کردیتا ہے۔
۸۔ پروٹین کی زیادتی بالخصوص امائنو ایسڈ کا چھوٹی آنت میں بہاؤ سے آتی ہے۔
پولی فینولک (Condensed Tannin)کا درختوں کی شاخوں اور جھاڑیوں میں پایا
جانا:
قدرتی طور پر پولی فینولک (Polyphenolics)گرم علاقوں والے درختوں میں قوت
مدافعت پید اکرتا ہے۔ اور ان پودوں کے اندربیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پید
اہوتی ہے، فارم جانوروں اور جنگلی جانوروں پہ مثبت اور منفی اثرات مرتب
ہوتے ہیَ تاہم پروٹین کے اثر کو بطور سبز چارہ دینے کے بجائے پتوں کے ساتھ
خشک چارہ ملاکر دیں۔
چارے میں میتھین گیس بننے پروٹین کا اثر:
ٹینن(Tannin)پر مشتمل پودوں کے پتے کھلانے پر میتھین گیس کے پیدا ہونے میں
کمی آجاتی ہے۔ بہت زیادہ چارے جو ٹینن (Tannin)پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں
میتھین کا لیبارٹری اوردو باہ ربننے میں کمی آجاتی ہے۔اگر ہم بھیڑ کے
میمنوں کو لولیم پینڈوکولیٹس کھلائیں تو 16%کمی آجاتی ہے۔
اگر ہم دوسر اچارہ سری سالسیبڈوزا میتھین کے بننے کے عمل کو بلاواسطہ
ہائیڈروجن کے کم پیدا ہونے سے کم لیا جاتا ہے۔ اور بلاواسطہ غذا پر میتھین
کے اثر کو روکا جاتا ہے۔
نتیجہ:
درختوں کے پتوں اور جھاڑیوں کو جانوروں کو کھلانے سے غذائی ضروریات پوری
ہوتی ہیں۔جانوروں کے گوبر کا موثر استعمال کیمیائی کھادوں کے خلاف
اینتھروپوجیتک گرین ہاؤس کی گیس Gasesکے اخراج کو کم کرتا ہے۔ |