سائیبر جنگ اور برقیاتی جنگ
روایتی ہتھیاروں یا متحرک ہتھیاروں کا توڑ ہے،اسطرح کے الیکٹرونک عمل کو کس
دوسرے عمل سے روک دیا جائے تو خوفناک ترین ہتھیار تک بیکار ہو جاتا ہے۔حال
ہی میں اس کا مظاہرہ بحرہ اسود میں امریکی تباہ کن جہاز ڈونلڈ کک کے ساتھ
پیش آیاجو کریمیا پر روس کے الحاق کے بعدامریکہ نے اپنی موجودگی اورطاقت
کااظہار کرنے کے لیے وہاں بھیجا تھا،یہ جہازتمام جدید ہتھیاروں سے لیس
ہے،کروزمیزائل2500کلومیڑ تک ہدف کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس جہاز میں بیلسٹک میزائل اور ایئر ڈیفنس سسٹم سے آراستہ ہے،اس میں 4ریڈار
نصب ہیں،جس کی وجہ سے کسی حملہ آور جہاز کا پتہ چلانے اور اس کو نشانہ
بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس جدید ترین سمندری بیڑے کو 2روسی جہاز
ـــــ"سو24ــ"نامی جہازوں نے اس کے قریب سے پرواز کر کے اس کے تمام
کمیونیکیشن کے نظام کو جام کردیا،نتیجہ میں یہ پہاڑ جیسا جہاز بیکار لوہے
کا پہاڑ بن کر رہ گیا،جہاز اس رسوائی کے بعد رومانیہ روانہ ہو گیا اور جہاز
کے عملے کے 25افراد نے استعفہ دے دیااس بے بسی کی موت سے گھر بیٹھنا بہتر
ہے۔اس کاروائی نے جہاں بڑے نئے قسم کے سوالات کو جنم دیا وہاں یہ سوال بڑی
فکر سے سے اٹھ رہا ہے دماغوں میں کہ اگر کمیونیکیشن کے نظام ہی جام کردیا
جائے تو ہتھیاروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی جو کہ امریکی تھنک ٹینک اس
کاروائی پر ان کی راتوں کی نیند حرام ہوئی ہے۔
روسیوں نے امریکہ پر نظام منجمد پر اپنی برتری واضح کردی ہے،اس واقع کی
تصدیق امریکہ کی طرف سے ہونے والے اس احتجاج سے ہوتی ہے 2روسی جہازوں نے
امریکی جہاز کی طرف اس طرح رخ کیا کے اس کے پروں میں کوئی اسلحہ نہیں ہے
اور ان جہازوں کو قریب سے گزرنے دیااور اس کے بعد امریکی جہاز سے نکلنے
والے سگنل جام ہوگئے۔اسی طرح پاکستان کے وہ ایٹمی ہتھیار اور میزائل سسٹم
جو کہ کمیونیکیشن سسٹم پر Baseکرتے ہیں اور وہ ہتھیار جو کہ امریکہ اور
یورپی ممالک سے لیے ہوئے ہیں اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان پیدا ہوگیا ہے۔جس
کے لیے ہمارے دفاعی حکام یقینا لاپرواہی کی نیند میں مگن نہیں ہونگے اور اس
ٹیکنالوجی کے حصول یا اس پر تحقیتات شروع کر دی گئی ہونگی اور اگر نہیں تو
آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتے گی۔ |