سیاسی ہلچل
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
لندن میں پاکستانی سیاست کے تین
بڑے نام کل یکجا ہوئے ، چوہدری، خان اور قادری کی لندن میں بیٹھک نے
انقلابی سیاست کرنے والوں اور ان کے بادِ مخالف دونوں کی صفحوں میں ہلچل
مچا دی ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر نے بھی حکومت کو انتقامی
کاروائیوں سے باز رہنے کی تلقین کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ
اگر انتقامی کاروائیاں بند نہ کی گئیں تو دوسرا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
طاہر القادری صاحب نے کہا کہ ملک میں جمہوریت نہیں خاندانی بادشاہت قائم ہے۔
ویسے خان صاحب کی ترجمان نے صرف یہی کہا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں سے ملنے گئے
ہیں اس کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا ان کے پروگرام میں شامل نہیں۔مگر میڈیا
چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ چوہدری، خان اور قادری مل کر کوئی الائنس تشکیل
دے رہے ہیں۔ چوہدری برادران نے تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے
ملاقات اور بات چیت کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ خدا خیر کرے! ہمارے ملکی حالات
پر……اور سیاسی حالات پربھی۔ ویسے تو خان، چوہدری اور قادری کی باتوں میں
صداقت نظر آتی ہے کہ ملک میں افرا تفری عروج پر ہے، انسان محفوظ نہیں، دہشت
گردی عروج پر ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تینوں کو بجائے ملنے جلنے اور
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھک کے میدانِ عمل میں آنا چاہیئے۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ
ہوگا کہ انقلاب ضرور لائیں ، اور شاید ایسے ہی کسی انقلاب کا قوم انتظار
بھی کر رہی ہو مگر اس کے لیئے ضروری ہے کہ وہ اپنی آسائشیں، ٹھنڈے کمروں کا
لطف چھوڑیں، قوم کے ساتھ قدم بہ قدم ملائیں، لوڈ شیڈنگ کے مزے وہ بھی لیں۔
تاکہ عوام ان کے ساتھ کھڑی ہو۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک میں انسانی وحشت اور بربریت میں
دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، نئی نسل اپنی سمت ہی مقرر نہیں کر پا رہی ہے۔
شقی القلبی بڑھتی جا رہی ہے۔ شرافت اور نیکی کی قدریں بدی سے منھ چڑاتی پھر
رہی ہیں، درندگی کا بول بالا ہے، انسانیت پشیمان ہے، جدھر نظر دوڑایئے
جرائم کی دنیا آباد نظر آتی ہے۔ قتل و خونریزی کی اندوہ ناک وارداتیں عام
ہو چکی ہیں، چوری، ڈکیتی ، راہ زنی، بھتہ خوری، نشانہ وار قتل،اغواء کے
واقعات روز مرہ زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب تو جنسی ابتذال بھی اپنے
نقطہ عروج پر ہے۔ یہ تمام عفریت جیسے سنگین جرائم جو ابھی ایسا لگتا تھا کہ
شہر تک تھے آج یہ قصبہ جات اور دیہی علاقوں کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔ کوئی دن
ایسا نہیں جاتا اخبارات اور میڈیا میں ایسے دلدوز واقعات کی سرخی نہ بنتے
ہوں۔ اس کے باوجود بھی ہمارے وہ تمام رہبران جن کے ماتھے پر آج تخت کا تاج
ہے بے ضمیری اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ یہ جملہ اس لئے لکھا گیا کہ
ابھی تک عملی طور پر ان جرائم کی سینہ کوبی کے لئے کوئی مربوط پروگرام
لاؤنج نہیں ہوا۔ اور یہ سارے کرائم میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر
عوام کی بے ضمیری اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ان سنگین خبروں سے سرسری
گزر جاتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم اس اخلاقی اور روحانی زوال کے
اسباب و علل پر بھی غور کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ اور وہی کچھ مخالف
پارٹیاں بھی کرتیں ہیں یعنی وہ بھی صرف بیان دے کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں،
وہ نہیں جاننا چاہتے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی حد درجہ برایوں اور
بدعنوانیوں کا تدارک کس طور ممکن ہے۔ آخر سوسائٹی میں جرم اس تیزی سے بڑھ
کر پھل پھول کیسے رہا ہے؟ کیا اسے روکنے اور اس پر قدغن لگانے کی کوئی صورت
نہیں ہو سکتی؟ہماری نوجوان نسل اور نئی عمر کی نئی فصل کو آخر بدی کا
اندھیرا مرغوب کیوں کر رہا ہے؟ نیکی کی طرف ان کی مراجعت کب ہوگی؟ معاشرے
میں پھیلتی ہوئی ان شدید برائیوں کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ اس لئے اب قوم
سمیت ہر ایک پر چاہے وہ حکومتی اراکین ہوں یا مخالف جماعتیں سب کو سوچنا
ہوگا پھر چاہیں تو وہ میدانِ عمل میں آئیں ، اس کے بعدیقینا قوم ضرور جاگے
گی۔ سچ بتاتا ہوں ہماری قوم کو تو آج تک کسی طرف سے بھی سچا پیار اور
بھلائی کے کام نصیب ہی نہیں ہوئے ورنہ یہ قوم تو راہ میں آنکھیں بچھانے
والی ہے۔ آپ ان کی اچھائی کے لئے ایک قدم بڑھائیں تو یہ قوم دس قدم بڑھائے
گی۔ وعدے ایسے ہوں جو ایفاء بھی ہوں۔ ایسے وعدے نہیں کہ الیکشن کے زمانوں
میں کہا جائے کہ لوڈ شیڈنگ چھ ماہ میں ختم کر دیں گے اور ایک سال میں بھی
ختم نہ ہو۔ اور اب چار سال کے بعد لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا عندیہ دیا جا رہا
ہے۔ ایسے وعدوں سے عوام بد ـظن ہیں ۔
وہ کھا رہے ہیں قسم پہ قسم کیا کریں
ہم ان پر اعتبار نہ کرتے تو اور کیا کرتے
خان، چوہدری اور قادری صاحب کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کو
مدنظر رکھنا ہوگا کہ سیاست کی آلودگی بھری آب و ہوا میں جب پاکستان کی
جمہوریت کے ماحول کو تعفن آمیز پروان مل رہی ہو تو عوام میں عجیب طرح کی
کشمکش کی کیفیت بھی پروان چڑھنے لگی ہے، غریبی، مہنگائی اور بے روزگاری میں
اضافہ ہوچکا ہے اور بلا ناغہ ہو رہا ہے۔ امیروں کی امیری اور غریبوں کی
غریبی بتدریج بڑھ چکی ہے تو سیاست سے دور پاکستان کے معاشرتی اُفق پر آپ کی
آمد فعال شخصیت کے طور پر جلوہ افروز ہوگی۔ بے روزگاری اس قدر عروج پر ہے
کہ یہ تمام فتنے جنم لے رہے ہیں۔ نوکریاں میسر ہونگی تو یقینا برائیوں کا
خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ پینتیس صوبے بنانا ، اقرباء پروری ختم کرنا، روزگار
فراہم کرنا، بلاشبہ آپ تینوں صاحبان کا اچھا اقدام ہے۔ مگر کیا تخت نشین
ہونے کے بعد یہ تمام وعدے آپ سب پورے کر سکیں گے۔ دیکھ لیجئے! کہیں ایسا نہ
ہو کہ آپ کے وعدے بھی آج اور آج سے پہلے قائم ہونے والی حکومتوں کی طرح ہوا
ہو جائے۔ تب اس قوم کا کیا ہوگا۔ ان کا تو اعتبار پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے ،
اس کے بعد تو قوم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ جیسے آج
کل قوم کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت لوڈ شیڈنگ نے ختم کر رکھا ہے۔ بجلی کی
عدم فراہمی کی وجہ سے پانی نہیں مل رہا ہے۔ جن لوگوں کے پاس جنریٹر ہے وہ
بھی اتنے پیسے خرچ کرکے جنریٹر سے حاصل کردہ بجلی سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ اب تو گیس کمپنی والوں کو بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ٹائم ٹیبل
معلوم ہو گیا ہے۔ جیسے ہی بجلی بند ہوتی ہے اُن کا گیس پریشر بھی ڈاؤن کر
دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جنریٹر بھی چلنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔
یہ ہے احوال عوامی بلکہ قومی کسمپرسی کا!ایسے میں صرف نعروں سے کام نہیں
چلے گا بلکہ پاکستانی سیاست کے منظر نامے کو تبدیل کرنے کی ضرورت درپیش
ہوگی۔کالا دھن بیرونِ ممالک سے واپس لانا ہوگا۔ مہنگائی میں کمی اور کھانے
کی چیزیں سستی کرنی ہونگی، لوگوں کو نوکریاں دینا ہونگی، تیل ڈیزل سستا
کرنا ہوگا، بے ایمانی اور بدعنوانی میں ملوث رہنے والوں کو جلد سے جلد سزا
دینا ہوگا،پینتیس صوبوں کا خواب سچ کرنا ہوگا، تبھی جاکر ملک میں اور ملک
کے عوام میں خوشیاں آئیں گی۔ اگر یہ بنیادی ایشوز حل ہو گئے تو بقیہ بھی آپ
حل کر سکتے ہیں۔ قوم کے یہ تمام خواب اگر سچ کرنے کا مصمم ارادہ آپ لوگوں
نے کر لیا ہے تو آیئے اس ملک کو اور اس قوم کو بڑی بے قراری سے آپ کا
انتظار ہے۔ |
|