مسلمان بین الاقوامی تناظر میں

مسلمانوں کی بین الاقوامی اہمیت کی تاریخ تو میثاق مدینہ کے معاہدے سے سے ہی شروع ہو جاتی ہے تاہم صلیبی جنگوں کی تاریخ علامی سطح پر مسلمانوں کی اہمیت اور بین الاقوامی امور میں اسلام کے اثر انداز ہونے کی بڑی دلیلیں ہیں۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی طرف سے پراپیگنڈہ کی وزارت (جسے آجکل وزارت اطلاعات یا انفارمیشن منسٹری کہا جاتا ہے ) کے قیام اور اس کے فوائد سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قوموں ،مذاہب ،اعتقاد،نظریات اور دین کے بین الاقوامی سطح پر تشخص میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں اقوام متحدہ جیسی عالمی امن عامہ کی تنظیمیں سامنے آئیں تو وہیں امریکہ اور روس کے درمیاں سرد جنگ نے عالمی امن کو بھی تباہ کیا۔مسلمان کیوں کہ خدائیت پر یقین رکھتے تھے اس لیےان کے پاس امریکی اتحادی بننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا تو انہیں بین الاقوامی سطح خاص طور پر مغربی یورپ اور امریکہ میں کسی نہ کسی طرح عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ۔لیکن ساتھ ساتھ فلسطین کے مسئلے پر یہودی لابی کی بچھائی ہوئی سازشوں میں کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو عالمی سطح پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں مسلم امہ کا یکجا ہونا اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعققاد سے مسلمان ستر کی دہائی میں عالمی سطح پر ایک منظم متحد اور اقتصادی طاقت کا تاثر دینے لگے۔روس کے افغانستان پر قبضے کے بعد جہاں امریکہ کو مسلمانوں کی زیادہ ضرورت پڑی تو وہیں پاکستان جیسے ممالک نے بھی فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا کی قیادت میں اسلام کے نام پر روسیوں سے لڑنا شروع کیا تو عالمی پنڈت جو اس وقت زیادہ تر سرمایہ درانہ نظام کے حامی تھے نے بھی اسلام کے مثبت پہلووں کے منتر گانا شروع کیے۔جس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کو کیمونزم کے خلاف ڈٹے ہیرو جیسا تاثر ملا تاہم روس کے ٹوٹ جانے کے بعد پہلے ایران عراق جنگ اور بعد میں خلیجی جنگوں سے عالمی سطح پر مسلمانوں کے بنے امیج کی تباہی کا آغاز کیا گیا جس کا آجکل شاید انتہا ہے اور وہی مسلمان جنہیں مغربی اقوام بالخصوص امریکہ دنیا کا نجات دہندہ گردانتے تھے عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے۔اور اس کی سب ے بڑی مثال طالبان کے زیر اثر حقانی گروپ کی ہے جس کے امیر کو روسیوں کے خلاف لڑنے پر تووائٹ ہاوس میں بلا کر ہیرو بنایا گیا تاہم آج اسی حقانی گروپ کو عالمی امن کی تباہی کا سرٹیفکیٹ دینے والا بھی امریکہ ہے۔نائن الیون کے بعد کی صورت حال نے تو مسلمانوں کو جیسے دنیا کے کٹہرے میں ہی لا کھڑا کیا۔افغانستان پر حملے اور بعد میں امریکیوں کے عراق پر قبضے کے بعد عالمی تناظر میں مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند کی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک انجانے خوف نے عالمی طاقتوں کو اسلام کے خلاف اتنا سرگرم کیا کہ اسلام کو مذہب سے زیادہ روزہ مرہ ضرورت اور نام نہاد لبرل ازم کے نام پر بدنام کرنے کی باقاعدہ اور منظم سازش کی گئی۔حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امیر ترین اسلامی ملک سعودی عرب سمیت بیشتر خلیجی دنیا مسئلہ فلسطین میں امرکہ کے اسرائیل کی جانب جھکاو کے باوجود امرکی اتحادی ہیں جبکہ پاکستان سمیت دیگر اسلمی ممالک بھی امریکہ اور مغرب نواز مانے جاتے ہیں پھر بھی عالمی سطح پر مسلمانوں کو عالمی امن کی تباہی کا موجد ہی ثابت کیا گیا۔آج جب دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی اقتصادی مجبوریوں کے باعث امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور اپنے واحد دشمن ایران سے محبت بڑھانےکی باتوں سے تو خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ امریکیوں کی آئندہ پالسی مسلمانوں کا کردار عالمی سظح پر تبدیل کر نے کی ہے لیکن سب سے اہم بات خود مسلمان ملکوں کے لیے یہ ہے کہ کیا وہ خود بھی عالمی سطح پر اسلام کا صحیح اور اصل چہرہ سامنے لا سکیں گے۔اب بحر حال یہ سوال کسی بھی طور عام مسلمان سے نہیں پوچھا جا سکتا تاہم پچاس اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کو امہ کو یکجا کر کے عالمی تناظر میں مسلمانوں کے کردار کوا چھا ثابت کرنا اپنا فرض سمجھنا ہو گا۔اوریہ سب اس وقت ممکن ہے جب مسلم حکمران علاقائی دشمنیوں ،وراثتی جنگوں اور فرقہ ورانہ اختلافات کو بھولا کر ایک ہو حرم کی پاسبانی کے لیے کے مقصد پر سچے دل سے عمل پیرا ہوں۔
Abeera Azid
About the Author: Abeera Azid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.