اچھے برے دن آتے جاتے رہتے ہیں ۔ سچ تو یہ
ہے جو دن کسی ایک فرد کیلئے اچھا ہوتا ہے وہی دوسرے کیلئے برا ہوجاتا ہے۔
جس دن وزیراعظم نریندر مودی کی دہلی میں حلف برداری ہوئی دہلی سے گورکھ پور
جانے والی گورکھ دھام ایکسپریس حادثے کا شکار ہوگئی اور ۴۰ افراد موت کے
گھاٹ اتر گئے۔ دو دن بعد جب نئے وزراء نے اپنے دفاتر میں قدم رنجا فرمایا
تو بہرائچ سے دہلی آنے والی ایک بس حادثے کا شکار ہو گئی اور دس لوگ جان
بحق ہوگئے لیکن اس کے بعد جس دن وزیر اعظم اپنے سرکاری مکان ریس کورس روڈ
پر منتقل ہوئے تو دہلی میں ایسی آندھی آئی کہ گیارہ افراد کو اپنے ساتھ
اڑا کر لے گئی ۔ ۳۵۰ پیڑ اکھڑ گئے۔ بے شمار گاڑیوں کے علاوہ ۵ ہوائی جہازوں
کوبھی نقصان پہنچا۔ میٹرو ریلوے کوبند کرنا پڑااور کئی علاقوں میں ۵ گھنٹوں
تک بجلی منقطع رہی۔اس تباہی سے بنگال، اترپردیش اور جھارکھنڈ اور یوپی بھی
متاثر ہوئے اس روز بشمول دہلی جملہ ۴۵ لوگ ہلاک ہوگئے۔چلئےان سب وارداتوں
کو نحوست کے بجائے اتفاق کے زمرے ڈال کر امید کریں کہ یہ سلسلہ دراز نہ ہو۔
نریندر مودی کی حکومت کے آنے سےبرے دنوں کی ابتداء بی جے پی کی حلیفوں سے
ہوئی ۔ اگر حلف برداری کی تقریب میں اسرائیل کے وزیراعظم کو دعوت دی جاتی
تو مسلمان لاٹھی بلم ّ لے کر میدان میں اتر آتے اور یہ کہا جاتا کہ عوام
کی رائے کا احترام نہیں کرتے لیکن ہوا یہ کہ سری لنکا کے صدر راجپاکسے کے
خلاف بی جے پی تملی حلیف میدان میں کود پڑے ۔ کرونا ندھی اور جئے للیتا نے
تو خیر اخباری بیانات پر اکتفاء کیا لیکن وائیکو دہلی کی سڑکوں پر آگئے ۔
اس طرح مودی کی اولین عملی مخالفت کرنے کا شرف ایم ڈی ایم کے کےوائیکو کے
حصے میں آیا جو این ڈی اے کا حصہ ہیں۔ وائیکو سے علی الرغم بی جےپی کی سب
سے قدیم ہمنوا شیوسینا کو پاکستان کے وزیراعظم کی دعوت پر اعتراض تھا ۔
گزشتہ سال نواز شریف نے اپنی حلف برداری میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو
دعوت دی لیکن بی جے پی نے اس قدر دباؤ بنایا کہ وہ ہمت نہ کرسکے۔ بی جے پی
کاالزام تھا کہ ۲۶ نومبر کے ملزم حافظ سعید ہنوزپر کوئی کارروائی نہیں
ہوئی۔ داؤد ابراہیم پاکستان میں پناہ گزین ہے۔ سربجیت سنگھ کو جیل میں
ہلاک کردیا گیا اور چند پاکستانی فوجیوں نے سرحد پر ہندوستانی فوجیوں کا
گلا کاٹ دیا ایسے میں منموہن پاکستان کیونکر جاسکتے ہیں؟
اس ایک سال کے دوران کو ئی تبدیلی نہیں ہوئی اس کے باوجود نواز شریف کو
دعوت دی گئی۔ اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھی ہندو پاک
تعلقات بہتری کی جانب بڑھتے ہیں اچانک کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ کیوںرونما
ہوجاتا ہے جس سے امن و آشتی کی فضا مکدر ہوجاتی ہے ۔ مثلاًواجپائی کے
پاکستان دورے کے بعد کارگل کا واقعہ یا صدر پاکستان آصف زرداری کی آمد سے
قبل فوجیوں کا قتل وغیرہ۔ عام طور سے ایسے میں پاکستانی فوج یا آئی ایس
آئی کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہندپاک دشمنی کا سب
سے زیادہ فائدہ امریکہ بہادر کو ہوتا ہےاس لئے امریکی زاویہ سے اس پر غور
ہونا چاہئے۔ ہرات پر حملے کے ذریعہ کچھ لوگوں کو یرغمال بناکر وزیراعظم
نوازشریف کی آمد کو روکنا مقصود تھا لیکن اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔ اس
حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی اور جس بری طرح وہ ناکام ہوا وہ بھی
طالبان کی روایت کے خلاف ہے۔ اس لئے یہی بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ
افغانستان میں موجود امریکیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ یہ حملہ کروایا ہو۔
وزیراعظم نواز شریف کی آمد سے قبل ہرات میں ہندوستانی سفارتخانے پرجو حملہ
ہوا اس کے حوالے سےتصور کریں کہ اگر یہ کانگریس کے دور میں ہواہوتا تو بی
جے پی کے کیا تیور ہوتے؟ لیکن اس بار تو ایسا ہوا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
شیو سینا نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
شیوسینا کی دوسری ناراضگی اننت گیتے کو ملنے والی بڑی صنعتوں کے قلمدان کو
لے کر تھی۔ ایک زمانے میں جب حکومت کے تحت بڑی بڑی صنعتیں قائم کی جاتی
تھیں یہ اہم شعبہ تھا لیکن نرسمھا راؤ کے زمانے سے انہیں نجی ہاتھوں کو
فروخت کرنے کا سلسلہ چل پڑا اور اب حکومت کے پاس صرف مہابیمار صنعتیں بچی
ہیں جن کا کوئی گاہک نہیں ملتا ۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے چلتے کسی نئی
سرکاری صنعت کا امکان نہیں ہے سینا کو امید تھی اسے پہلے کی طرح بجلی کا
قلمدان مل جائیگا لیکن جب ایسا نہیں ہواتو اننت گیتے نے ابتداء میں
انکارکردیا۔ ممکن ہے بی جے پی والوں نے انہیں بتایا ہو کہ اب ہمیں تمہاری
ضرورت نہیں ہے۔ نئی دلہنراج ٹھاکرے کی ایم این ایس ہمارے لئےکا فی ہے اس
لئے وہ بادلِ ناخواستہ راضی ہو گئے۔ قدیم ترین حلیف کے ساتھ بی جے پی کا یہ
سلوک اس کی طوطا چشمی کاغماز ہے۔
خواتین عام طور پر امورخانہ داری کی ماہر سمجھی جاتی ہیں مگر نریندر مودی
نے اڈوانی کی بھکت سشما سوراج کو بیرون خانہ کی ذمہ داری دے کر ملک بدر سا
کردیا۔ اپنے دفتر میں امور کارجہ کا ایک نیا سکریٹری مقرر کرکے یہ پیغام دے
دیا کہ وہ اس بابت خود کفیل ہوں گے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حلف برداری
کی تقریب میں آنے والے کسی بیرونی مہمان نے سشما سے ملاقات کی زحمت نہیں
کی۔ نوازشریف نے نریندر مودی کے علاوہ ہیما مالنی، دھرمیندر اور شترو گھن
سنہا کے ساتھ کچھ وقت گزارہ جامع مسجد گئے اور واپس ہو لئے۔ اسرائیل کا
سفارتکار بھی سشما کے بجائے سمرتی ایرانی سے ملنے چلا گیا جبکہ اس کا کوئی
جواز ہی نہیں بنتا۔ اوما بھارتی کو بےاہم آبی وسائل اور گنگا جل دے ٹرخا
دیا گیا۔ ان دونوں کو وزارت دینا مودی کی مجبوری تھی اور اب دیکھنا یہ ہے
کہ کب اور کیسے اپنی ان مجبوریوں سے نجات پائی جاتی ہے؟
نریندر مودی کی ذہانت اور مہارت کے حوالے سے ذرائع ابلاغ نے جو ہوا بنائی
تھی اس کی قلعی تو وزارت سازی میں کھل گئی ۔ مودی نے بھی اپنی ساری صلاحیت
کا استعمال فلاح بہبود کے بجائے اپنی گدی مضبوط کرنے اور پارٹی کے اندر
اپنے مخالفین کا قلع قمع کرنے میں صرف کردی۔ ۷۵ سال کی حد نافذ کرکے ایک
ساتھ کئی کانٹے نکال دئیے لیکن اگر ۷۵ سال سے زیادہ عمر کا آدمی وزارت
نہیں سنبھال سکتا تو اسے انتخاب لڑ کر پارلیمان کا رکن بھی نہیں بننا چاہئے
اور اس لئے بی جے پی کو چاہئے تھا کہ وہ کسی بزرگ کو ٹکٹ نہیں دیتی لیکن
نریندر مودی کے اندر انتخاب سے قبل یہ جرأت نہیں تھی اس لئے ان تمام لوگوں
کو انتخاب لڑایا گیا اور پھر ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ۔ شتروگھن سنہا کے
علاوہ جسے کوئی وزارت نہیں ملی کسی نے اس فیصلے پر اعتراض کرنے کی غلطی
نہیں کی ۔ مہا بھارت کی طرح مودی نےدھرت راشٹرکو ٹھکانے لگا دیا ۔
جمہوری نظام کے دلدادہ دن رات یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اس میں عوام کے
نمائندوں کے توسط سے جمہورحکومت کرتی ہے حالانکہ ہر انتخاب کے بعد اس دعویٰ
کی سرِعام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ کانگریس کی اس روایت پرنریندر مودی نے
خوب عمل کیا ۔ اس کی وزارت میں اہم عہدوں پرتقریباً آدھے چہرےتو ایسے ہیں
جنہوں نے انتخاب لڑنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی ۔ ایسے چاپلوس ترجمانوں کو
جن کا کام ٹیلی ویزن کے پردے پر مودی کے نام کا بھجن کرنا تھااپنی وفاداری
کے عوض خوب نوازے گئے۔ ہندوستان کے دستور کا یہ ایک نقص ہے کہ وہ ان لوگوں
کو وزیر بننے کے حق سے نواز دیتا ہے جو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ اس
دستوری کجی کا ہر سیاسی جماعت نے بشمول بی جے پی زبردست فائدہ اٹھایا ہے
اور اپنے نااہل وفاداروں کو اہم ذمہ داریاں تفویض کرکے ملک و قوم کے ساتھ
غداری کی ۔
کسی ایک ایسے شخص کو جو نہایت باصلاحیت ہومگر انتخاب لڑنے کی سکت نہ رکھتا
ہو کوئی اہم وزارت دے دینے کو اگر سیاسی مجبوری سمجھ لیا جائے تب بھی کسی
ایسےشخص کو جس نے بڑے طمطراق سے انتخاب لڑا ہو ۔ جس کو کامیاب کرنے کیلئے
خود وزیراعظم نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہو اور اس کے باوجود عوام نے اسے
مسترد کردیا تو اس کو وزیر بنا کر عوام پر تھپ دینا جمہورکی توہین ہے ۔
سونیا گاندھی نے شیوراج پاٹل کو انتخاب میں ناکامی کے بعد وزیر داخلہ
بنادیا تھا اور نریندر مودی نے ارون جیٹلی کو وزیر دفاع اور وزیر خزانہ کے
دو اہم ترین قلمدان اسےسونپ کر یہ پیغام دیا کہ ہندوستانی جمہوریت میں عوام
کی مرضی پر رہنما کی مرضی کو فوقیت حاصل ہے۔
ارون جیٹلی ایک ماہر قانون ہیں لیکن انہیں وزارت قانون کا کا شعبہ نہیں
بلکہ وزارت خزانہ کی ذمہ داری دی گئی جس کی بظاہر کوئی منطق نظر نہیں آتی
سوائے اس کے کہ وہ مودی کی آنکھ اور کان ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سب سےامیر
وزیر ہیں ان کی اعلان شدہ میراث ۱۱۳ کروڈ ہے ۔ مثل مشہور ہے روپیہ روپئے کو
کھینچتا ہے۔ اب جیٹلی انتخاب کے بعد روپیوں کی ضرورت کو پورا کریں گے۔ اس
کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ بدعنوانی وزارت دفاع میں ہوتی ہے
اس لئے کہ اس پر قومی سلامتی کی چادر پڑی رہتی ہے تو وہ شعبہ بھی انہیں کو
دے دیا گیا۔ ارون جیٹلی کے علاوہ سمرتی ایرانی کو وزارت انسانی وسائل کا
قلمدان سونپنا فی الحال متنازعہ بنا ہوا ہے ۔
اس انتخاب سے قبل ایم جے اکبر کی طرح مدھو کشور نے اپنا سرخ پرچم پھینک کر
بھگوا چولہ اوڑھ لیا تھا اور انٹر نیٹ پرمودی نامہ شروع کیا نیز مودی اور
مسلمان نامی کتاب لکھ کر نریندر مودی کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے
ملادئیے ۔ مدھو کشورکو امید رہی ہوگی کہ ان کی اس مدح سرائی کے بدلے انہیں
وزارت تعلیم تو مل ہی جائیگی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایک بارہویں پاس
سمرتی ایرانی کو اس شعبہ سے نواز دیا گیا تو وہ چراغ پا ہو گئیں اورا نہوں
نےمخالفت کا محاذ کھول دیا ۔ کانگریس نےتائید کی بعد میں چلا ایرانی الیکشن
کمیشن میں جمع کئے گئے اپنے حلف نامہ میں کذب یانی بھی کر چکی ہیں ۔ پہلے
انہوں نے اپنے آپ کو بی کام کہا تھا پھر بارہویں پاس ہوگئیں لیکن اگرخود
نریندر مودی اپنے حلف نامہ میں جھوٹ لکھ سکتا ہے تو ایرانی کیوں نہیں ؟مثل
مشہور ہے چور چور موسیرے بھائی بلکہ بھائی بہن ۔
ایک نظریاتی جماعت آرایس ایس کیلئے جس کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی
ہے کہ اس نےبڑے پیمانے پرہندو تعلیم یافتہ دانشوروں کو اپنے نرغے میں لے
لیا ہے ایک پڑھا لکھا وزیر تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہوجانا یا تو زبردست
قحط الرجال یا بے پناہ بے بسی کی علامت ہے۔ مسئلہ صرف سمرتی ایرانی تک
محدود نہیں ہے بلکہ مودی وزارت کے دس وزیر ایسے ہیں جن کو کالج کا منہ
دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔اب یہ جاہل وزیر ان پڑھے لکھے نوجوانوں کا مستقبل
سنواریں گے جنہوں نے مودی کی چکنی چپڑی باتوں اور میڈیا کے بہکاوے میں
آکراس نئی حکومت سے روشن مستقبل کی امیدیں باندھ رکھی ہیں ۔ اس وزارت میں
جاہلوں کے علاوہ تیس فیصد سنگین قسم کےمجرم لوگ بھی ہیںلیکن ایک اہم پہلو
یہ ہے کہ ۹۱ فیصد وزیرکروڈ پتی ہیں ۔ ان میں سے دو کا اثاثہ سو کروڈ سے
زیادہ ہے اور جو سب سے غریب ہے اس کے پاس ۶۵ لاکھ سفید دولت ہے کالا دھن اس
سے علٰحیدہ ہے۔ ایسے میں چائے والے وزیر اعظم کی وزارت سے عام آدمی بھلا
کس خیر کی توقع رکھ سکتا ہے؟
کشمیر کےدفع ۳۷۰ حوالے سے ناتجربہ کار وزیرجیتندر سنگھ ایک نیا تنازعہ کھڑا
کردیا ۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اس پر زبردست احتجاج کیا اور قانونی و
دستوری زاویہ سے بحث کرکےیہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہندوستان کاکشمیر سے
الحاق اسی بنیاد پر ہے ۔ سنگھ کے رام مادھو نے اڑیل رخ اختیار کرتے ہوئے
بلادلیل جواب دیا کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے مگر اس پر بہترین تبصرہ
حریت کانفرنس کےرہنما ایاز اکبر کا تھا جنہوں نے کہا چونکہ ہم کشمیر سے
ہندوستا ن کا الحاق تسلیم ہی نہیں کرتے اس لئے اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں
پڑتا۔ ہم جنسی کے حوالے کانگریس کے زمانے میں راج ناتھ سنگھ نے پارلیمان
میں کڑا رخ اختیار کیا تھا لیکن اب خود سنگھ پریوار نے اس کے حوالے سے اپنے
موقف میں لچک پیدا کرلی ہے ۔ آر ایس ایس کا یہ موقف تھا کہ وہ سارے لوگوں
کو ہندوستانی شہری سمجھتی ہے اور اکثریت و اقلیت کا فرق روا نہیں رکھتی یہ
تفریق کانگریس کی ووٹ بنک سیاست ہے لیکن اقلیتی امور کی وزارت نجمہ ہیبت
اللہ کو سونپ کر اس نے اپنے برسوں پرانے موقف کی مٹی پلید کردی ہے۔ اس سے
پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اقتدار حاصل کرنے سے قبل جو کچھ کہتے ہیں بعد میں وہ
نہیں کرتے بلکہ کچھ اور کرنے لگتے ہیں ۔
اتر پردیش کے اندربدایوں میں دوخالہ زاد بہنوں کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل
کے واقعہ نے ایک سنگین سیاسی موڑ لے لیا ہے۔ اس میں حملہ آور یادو ہیں اور
مظلوم بہنوں کا دلت سماج سے تعلق ہے ۔ ان دوشیزاؤں کو بدایوں اعظم گڈھ
اغواء کرکے لے جایا گیا جو ملائم کا حلقۂ انتخاب ہے۔ یہ واقعہ ایک خطرناک
سازش کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اگرنہ ہو تب بھی بی جے پی کیلئے نہایت فائدہ
بخش ہوسکتا تھا۔ اس لئے کہ اگر ملائم ظالموں کے خلاف اقدام کرتے ہیں تو ان
کی اپنی برادری ان سے ناراض ہو جائیگی ورنہ دلتوں کے ان کے قریب آنے کے
امکانات مفقود ہو جائیں گے۔ اس طرح جو کچھ بہار میں ہوا کہ لالو نے جنتا دل
(یو) کی حکومت کو گرنے سے بچا کر بی جے پی کو مایوس کیا اس صورتحال کے
اترپردیش میں پیدا ہونے کا امکان ختم ہو جائیگا۔
اس موقع پر مایا وتی نے سی بی آئی کی تفتیش کا مطالبہ کرکے کھلیش یادو
کیلئے آسانی پیدا کردی انہوں نے مایاوتی کے مطالبے کو تسلیم کرلیا
اورمعاملہ سی بی آئی کے حوالے کرکے ایک طرف ہو گئے۔ اب اگر سی بی آئی کی
جانب سےسخت کارروائی ہو تی ہے تو وہ یادو سماج سے کہیں گے یہ بی جے پی نے
کیا ہے ۔ اگر سی بی آئی کچھ نہیں کرتی تو اس کا الزام بھی مرکزی حکومت پر
چلا جائیگا۔ اس طرح گویا اس گیند کو مرکزی حکومت کے پالے میں اچھا ل کر
پہلی مرتبہ اکھلیش نےسیاسی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس صورتحال میںامت
مسلمہ ہی ذات پات سے اوپر اٹھ کر ظلم کے خلاف احتجاج کرسکتی ہے اور اس کو
آگے بڑھ کر ایسا کرنا چاہئےاس لئے کہ مظلوم کی حمایت و نصرت ہمارا دینی
فریضہ ہے۔
سیاست کے اس کھیل میں کانگریس اور بی جے پی کی یکسانیت آئے دن عیاں ہوتی
جارہی ہے۔ مودی نے اپنے وزراء سے کہا کہ وہ کنبہ پروری سے گریز کرتے ہوئے
اپنے اعزہ کو کوئی ذمہ داری نہ دیں لیکن یوپی کی پرینکا سنگھ نے اس کے حکم
کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے والد کو اپنا نمائندہ نامزد کردیا ۔ اس سے دلچسپ
معاملہ راؤ اندرجیت سنگھ کا ہے جو کسی زمانے میں کانگریس کے وزیر تھے ان
پر بی جے پی کےکیریٹ سومیا نے فوج کی زمین کو ممبئی کے ایک بلڈر کلپترو کو
بیچ کھانے کا الزام لگایا تھا۔ اس کی تصدیق سی اینڈ جی کی رپورٹ میں بھی
ہوئی اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے بھی اس کا اعتراف کیا
تھا ۔ انتخاب سے قبل راؤ صاحب پالا بدل کر بی جے پی میں چلے آئےاورکامیاب
بھی ہوگئے۔ مودی نے انہیں وہی قلمدان پھر سےسونپ دیا لیکن اب کیریٹ سومیا ّ
کے سامنے خود اپنی ہی پارٹی کے وزیر کی مخالفت کا دھرم سنکٹ آن کھڑا
ہواہے۔ یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو مختلف کہنے
والے نریندر مودی اور کانگریس میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے اور انتخابی مہم
کے دوران جو شور شرابہ کیا گیا تھا وہ محض عوام کو بے وقوف بنانے کا ایک
حربہ تھا ۔ اقتدار حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کی بابت تمام سیاسی
جماعتوں کے اغراض و مقاصد اور طریقۂ کار میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس
حمام میں سب یکساں طور پر عریاں ہیں۔ |