بجٹ - ٹیکس اور قرض کیوں، اپنا روپیہ کیوں نہیں؟

ہر بجٹ میں عوام کے اوپر مزید ٹیکس اور سودی قرض کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور سال کے دوران پٹرول وغیرہ کی قیمت بڑھا کر جو مزید روپیہ عوام سے وصول کیا جاتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ سب رقم کرنسی نوٹ چھاپ کر حکومت حاصل کرے تو کیا حرج ہے؟ آپ کہیں گے اس سے “افراطِ زر“ ہوگی تو یہ بالکل غلط ہوگا۔ اس سے “افراطِ زر“ نہیں، “افراطِ“ پیداوار ہوگی، جسکی پاکستان میں لا محدود گنجائش ہے۔ آپ پیداوار میں حقیقی طور پر مشغول لوگوں کو پیداوار بڑھانے کے لئے جتنا بلاسود قرض دیں گے اور چھوٹی قسطوں میں واپس لیں گے اتنی ہی پیداوار بڑھے گی، آپکا قرض بھی باٰسانی واپس ھو جائیگا۔ مزید برآں قرض پر سود نہ ہونے کی وجہ سے مقروض کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ جس سے شاید اسے آئندہ قرض لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسطرح پیداوار بڑھتی جائیگی اور اسکی قیمتیں کم ہوتی جائنگی، جس سے غریب خوشحال ہو جائنگے۔ اسی طرح حکومت کے کرنسی نوٹ چھاپ کر ترقیاتی اور فلاحی کام کرنے سے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ جس سے غربت کا خاتمہ ہوگا۔

یہ سب کچھ سودی نظامِ مالیات ختم کرنے سے ہوگا، جسکا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے۔ سودی نظامِ مالیات ختم کرنے سے ہوگا، جسکا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے۔ سودی نظام مالیات ختم کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ حکومت حسبِ ضرورت کرنسی نو ٹ چھاپے اور اسے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے حوالے کرنے اور اس سے بطور سودی قرض لینے کے بجائے اپنے کنٹرول میں لے اور ان کرنسی نوٹوں کو ملک کو ترقی یافتہ فلاحی مملکت بنانے کے لئے استعمال کرے۔ یہ کام دوسری غیر مسلم حکومتیں کوشش کرنے کے باوجود نہیں کرسکی ہیں( امریکہ کا صدر ابراہام لنکن اس کوشش میں مارا گیا) - مگر مسلمان اپنی قوتِ ایمانی اور اللہ کی مدد سے پاکستان جیسے اسلامی ملک میں یہ کام کرسکتے ہیں۔ صرف اتنا کرنا ہوگا کہ وزارتِ خزانہ سے یہودیوں کے ایجنٹوں(آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ) کو نکالنا ہوگا۔
ظفر عمر خاں فانی
About the Author: ظفر عمر خاں فانی Read More Articles by ظفر عمر خاں فانی: 38 Articles with 39220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.