ہم معذرت خواہ ہیں!
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
آج وفاقی حکومت اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنے جا
رہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ بجٹ غریب عوام کے لئے اچھا اور نیک شگون لے کر آئے۔
خدا کرے کہ اس بجٹ میں غریب سرکاری ملازمین کا بہتر طور پر خیال رکھا گیا
ہو۔ خدا کرے کہ مہنگائی کی کمی کا عندیہ بھی اس بجٹ میں شامل ہو۔ خدا کرے
کہ اس بجٹ سے روزگار کا سلسلہ دراز ہو۔ خدا کرے کہ اس بجٹ سے ترقی کے نئے
دروازے کھلیں۔ مگر ہم معذرت خواہ اس لئے ہیں کہ ایک ہفتے سے میڈیا کے ذریعے
بجٹ کے حوالے سے جس طرح کے ڈراؤنے خواب دکھائے جا رہے ہیں اس سے کسی خیر کا
امکان نظر نہیں آتا۔بلکہ عوام مزید کسمپرسی اور مہنگائی کے جھپیٹے میں آتے
ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ویسے تو حکومت ضرور چاہتی ہوگی کہ یہ تمام معاملات
عوام کو میسر آ جائیں تاکہ ان کی حکمرانی میں چار چاند لگ جائیں مگر یہ جو
لفظوں اور ہندسوں کا گھروندہ ہے جسے ہم ’’بجٹ ‘‘ کہتے ہیں یہ کسی طور بھی
ملک کو ، یہاں کے بسنے والے غیور عوام کو چین کی بانسری بجانے سے روکتا ہے۔
اب دیکھئے کہ ہندسوں کا یہ کھیل کل اسمبلی میں اور اس کے بعد میڈیا پر
عوامی سطح میں کس حد تک مقبول ہوتا ہے۔ ویسے یہ عددوں کا کھیل نہایت ہی
گھٹیا اور پیچیدہ ہے کہ کاغذوں میں تو عددی ہندسے ٹھیک دکھائی دیتے ہیں مگر
عام طور پر عوامی سطح میں اس کے اثرات قدرے مختلف خد و خال کے ساتھ سامنے
آتے ہیں۔
ہم ترقی یافتہ، دولت مند، آسودہ حال تو بننا چاہتے ہیں مگر شاید ہمارے
اعمال اس طرف ہمیں ترقی کی سمت متعین نہیں کرنے دیتے، ہم گناہوں سے لبریز
ہیں، سودی نظام اس ملک کے چپے چپے میں رائج ہے۔ اور سود ہی سب سے بڑی لعنت
تصور کی جاتی ہے، پھر ہم کس طرح ترقی کے زینے چڑھنے کو بیتاب ہیں۔ اس قدر
زیادہ سود عوام سے لیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ!ایک تجزیہ ہاؤس بلڈنگ فنانس
کارپوریشن کے حوالے سے یہ ہے کہ کسی شخص نے پانچ لاکھ لون لیا تو یہ ادارہ
اٹھارہ سالوں میں بیس لاکھ روپے کی وصولی کرتا ہے۔ اب سوچیئے کہ کوئی اگر
اس چکر میں پھنس گیا تو پھر اس کی تو خیر نہیں۔ پانچ کے بیس لاکھ دینا
غریبوں اور متوسط طبقے پر ظلم سے کم نہیں۔ نظام اس طرح کا متعین ہونا
چاہیئے کہ قرض خواہ جلد از جلد اپنے لیئے ہوئے قرض سے فراغت حاصل کر سکے۔
نہ کہ زندگی کا ایک طویل عرصہ انہی چکروں میں الجھا رہے۔ خیر بات ہو رہی
تھی بجٹ کی تو آیئے اُسی طرف چلتے ہیں۔
ایک صاحب سے ہم نے پوچھا کہ آج اتنے خوش نظر کیسے آ رہے ہو تو موصوف نے
برجستہ مجھے یوں مخاطب کیا۔ ’’اے ریاستِ بیوقوفاں کے باشندے! چند گھنٹوں کی
خوشی تو پا لینے دو ۔ ابھی بجٹ آنے کی خوشی ہے، اور یہ بھی خوشی ہے کہ شاید
کچھ اچھا ہو جائے، اگر بجٹ دل پر بار نہ گزرا تو خوشی میں چار چاند لگ
جائیں گے ورنہ تو پھر وہی گھٹا ٹوپ اندھیرا ہی ہوگا اور ہم اس کے مکین۔ ہر
جمہوری حکومت جون میں سالانہ بجٹ پیش کرتی ہے، جس کا عوام بے صبری سے
انتظار کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں، کیونکہ یہ بجٹ اُن کی سیاسی، معاشی،
سماجی، تہذیبی، تعمیری، طبی، مذہبی، تعلیمی، فلمی، ادبی اور تمدنی زندگی کو
متاثر کرتا ہے۔ جب تک بجٹ پیش نہیں ہوتا، تب تک اس کا بخار سب پر چڑھا رہتا
ہے اس کے بعد سب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ میں نے عرض کیا ! حضور بجٹ کا تعلق تو
معاشی زندگی سے ہے، پھر آپ یہ کیسے فرما رہے ہیں کہ بجٹ ایک شہری کی سماجی،
سیاسی، تہذیبی اور یہاں تک کہ مذہبی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے؟ میرا
یہ سوال بے جمال سن کر راویٔ بد زباں نے کہا: ’’ ایسا لگتا ہے کہ تو کسی
کمیونسٹ یا سوشلسٹ ملک کا رہنے والا ہے، کیونکہ سنا ہے ایسے ہی ملکوں میں
بجٹ عوام کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی زندگی پر اثر نہیں ڈالتا، ورنہ سرمایہ
دارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ ممالک میں تو عوام اچھی طرح اس حقیقت کو
جانتے اور مانتے ہیں کہ وزیر خزانہ جو سالانہ بجٹ پیش کرتے ہیں، وہ ان کی
زندگی کے ہر پہلو کو منفی یا مثبت طور پر متاثر کرتا ہے۔ سنا یہی جاتا ہے
کہ عموماً سرکار خسارہ میں ہی رہتی ہے اور خسارہ کا ہی بجٹ پیش کرتی ہے۔
کیا خسارہ کے بجٹ کی وجہ سے سرکار، وزراء اور افسران خسارے میں آجاتے ہیں؟‘‘
میرا تو یہ ماننا ہے کہ سرکار نہیں بلکہ عوام ہی ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔
کیا ہم نے بجٹ کے بعد کسی وزیر با تقدیر یا افسر با تدبیر کو معاشی طور پر
کمزور ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ اُن کی دولت و املاک تو ہر بجٹ کے بعد شیطان کی
آنت کی طرح بڑھ جاتی ہیں، البتہ غریب مزدور کسان اور نوکری پیشہ لوگوں کی
امیدیں ضرور گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہو جاتی ہیں۔ ہر بجٹ کے بعد معاشی
تنگی کے باعث خود کشی کرنے والے غریبوں کی تعداد ہر گز کم نہیں ہوتی، بلکہ
بڑھ جاتی ہے۔ کیا کبھی ہمارے جمہوری ملک میں کرپشن نشان میں کسی وزیر یا
افسر نے معاشی تنگی یا مہنگائی کی وجہ سے خود کشی کی ہے؟ ہرگز نہیں۔کسی
شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
آدمی کا خون تو کچھ اور سستا ہوگیا
بڑھ گئی پر، دوسری چیزوں پر مہنگائی بہت
ہمارے ملک میں تو یہ رواج رہا ہے کہ ہر بجٹ کے بعد غریبی، بے روزگاری،
مہنگائی، بے گھری اور بد عنوانی میں اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ دیانت داری،
فرض شناسی میں کمی آجاتی ہے۔ ہر دور میں ہر سطح پرکرپشن کے حوالے سے باہم
تعلق جوڑتے ہیں۔ اور ایسے تمام گڑبڑ بجٹ کے بعد ہی شروع ہوتے ہیں۔ میرا
مطلب یہ ہے کہ گڑبڑ اور بجٹ میں چولی دامن کا ساتھ ہوا کرتا ہے۔اب ایسی
باتیں سن کر اعداد و شمار کے ایکسپرٹ حضرات یہی کہیں گے کہ آپ علمِ معاشیات
سے تو بے بہرہ ہیں ہی اور صرف شعری بحر و زون سے ہی واقف لگتے ہیں ورنہ تو
ایسی بے تکی بات نہیں کرتے۔ خیر! ہماری کیا مجال کہ ہم اعداد و شمار کی
گنتی کو شمار کریں ۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ آج کل بجٹ کا بخار ہر طرح
کے عوام میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ بخار جلد ہی اُتر جائے گا جب اسمبلی
سیشن میں بجٹ پیش کر دیا جائے گا۔ سچ پوچھیں تو اس سال ملک کے عوام کو وزیر
خزانہ اور بجٹ سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ پہلی توقع تو یہ ہے کہ سرکاری
پارلیمانی انتخابات کے دوسرے بجٹ کے پیشِ نظر سرمایہ داروں کے علاوہ اس بار
عوام کا بھی کچھ خیال رکھا جائے گا۔ نیز نئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا بوجھ
غریبوں کے کاندھوں پر نہیں ڈالا جائے گا۔ عوام کو بجٹ سے دوسری اُمید یہ ہے
کہ وزیر خزانہ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے کوئی کار گر قدم اٹھائیں گے۔
علاوہ ازیں مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ، ہاؤس
سیلنگ، کنوینس، میڈیکل میں قدم ضرور اٹھائیں گے۔ یعنی کہ اس بار کے بجٹ میں
عوام پر اپنا نظرِ کرم ضرور فرمائیں گے۔ اور مہنگائی اور کرپشن کو کم نیز
پیداوار اور دیانت داری کو زیادہ کرنے والا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے
گا۔ اور جہاں تک بجٹ کے اس بخار کے اُترنے کا تعلق ہے تو فی الحال یہ بخار
موسمی بخار کی طرح ہر چھوٹے بڑے، جوان، بوڑھے اور امیر و غریب کو چڑھا ہوا
ہے۔ میڈیا کی خبروں اور تجزیوں سے بہتوں کو کبھی ہائی فیور ہو جاتا ہے تو
کبھی بخار کم ہو جاتا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان مڈل کلاس کے لوگ ہیں اور بجٹ
کے بخار میں بُری طرح مبتلا ہیں۔اس لیئے پہلے ہی ہم معذرت خواہ ہیں اگر آپ
کے پسند کے مطابق بجٹ نہ آئے توشکوہ سے گریز کریں، اور اختتامِ کلام بس
اتنا کہ:
چڑھا ہوا ہے بجٹ کا بخار قوم پر
خدا کرے کہ اُتر جائے بارِ مہنگائی |
|