بھان متی کا کنبہ اکٹھا ہو ا چاہتا ہے

ہم تو بچپن سے یہ مثال سنتے چلے آرہے ہیں ”کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا بہان متنی نے کنبہ جوڑا“ نواز شریف حکومت میں بظاہر تو کوئی ایسی برائی ہے نہیں جس پربہان متی بھر پور تلملاہٹ کا شکار ہو ۔ مگر پھر بھی بھان متی پریشانی کا شکار تو ضرور ہے۔کیونکہ اس کے اصل کبنے کا چوہدری ذرا مشکلات کا شکار ہے۔اُس کو بچانا اس لئے ضروری ہے کہ اُسی نے تو انہیں اتنا منہ زور بنایا ہے ، کہ جس تھالی میںکھاﺅ اُس میں سراخ ضرور کر کے واپس آﺅ کہ تمہارے سوائے کوئی اور کھا ہی نہ سکے۔ یہ ملک جن لوگوں کے آبا و اجداد نے اپنا سب کچھ تج کے قربانیاں دے کر بنایا انہیں کبھی پنپنے نہ دو ُان سے سب سے پہلے تعلیم چھینو او ر اُن کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دو۔ہاں ان میں ایسے غلام پیدا کرادو جو تمہاری ماریں کھا کے بھی تمہاری ہی صدائیں بلند کرتے رہیں،انہیں نعروں کی حد تک اپنوں کی فکر ہو، ہو سکے تو ان کے تن پر سے کپڑے بھی چھین کر بہان متی کی خدمت گذاری میں لگے رہیں تو تم اقتدار پر بھی ہمیشہ قابض رہو گے ۔گذشتہ تین عشروں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے یہ کھیل دن رات کھیلا جا رہا ہے۔ اور بہان متی اس سے مکمل انجوئے کر رہی ہے۔ بہان متی کے آقاﺅں نے اس کو ایک یہ کام بھی سونپ دیا ہے کہ اس ملک کو ترقی کی ٹریک پر کبھی نہ چڑھنے دینا ورنہ تہمارا ناں نفقہ ہر دو جانب سے بند کر دیا جائے گا اور تمہارا کچا چٹھا سب کے سامنے لانے میں ہمیں کوئی دیر نہیں لگتی ہے۔

بھان متی اب آہستہ آہستہ نئے گیم کے مہرے اکٹھا کرنے میں دن رات مصروف ہے۔اس کے پیٹینٹ مہروں کے علاوہ بھی بساط بچھانے اور اس پر شہسواری کے لئے پیادوں کے ساتھ بادشاہ اور وزیروں کو بھی و اکٹھا تو کرنا ہے نا !!! اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانا بھی تو بڑی ذمہ داری ہے ،اور پھر اس ملک کا منہ زور میڈیا تو ہر بات کی پول کھولنے پر آمادہ رہتا ہے۔اس لئے سب سے پہلے ایسے منہ زور پر ہاتھ ڈالا جائے جس کے متعلق لوگوں کا گمان ہے کہ اس کو قابو کرنا نہایت مشکل ہے۔اگر اس کو قابو کر لیا گیا تو باقی مفادات پرست میڈیا ،اور کے کرتا دھرتا منہ زور سے خائف ، بزدل تو خود بخود ہماری ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے۔یہی ہو ا کہ جن لوگوں کو جیو کی کھری کھری باتیں تکلیف میں مبتلا رکھتی تھیں انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے غداریِ وطن اور مذہب کو آڑ نبا کرایک منہ زور اینکر جس کو آئین شکن مشرف بھی اپنے دور اقتدار میں تڑیاں لگوچکا تھا اور کئی اور بھی طاقت کے نشے میں یہ سب کچھ کرچکے ہیں ،کو بھر پور ڈوز دینے کے لئے اور اس کو اپنے راستے کا پتھر سمجھنے والو نے اس کے قتل کا منصوبہ تو بنایا مگر ان سب سے بڑی قوت نے ان کے اس ڈرٹی گیم کو ناکام بنا کر بتا دیا کہ مارنے والے سے بچانے والے کی طاقت لازوال ہے۔ جس کےلئے اقبال نے کہا تھا کہ
”کافر ہے تو تلوار پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“بے تیغ سپاہی کو مارنے والے ایمان کی قوت سے معمور نہیں دکھائی دیتے ہیں۔اس ملک کو پاکستان اورپاکستانیوں کے ایسے ہی نوکروں نے باپ کی جاگیر سمجھ کر کھلونا بنا یا ہوا ہے۔یہ لوگ ہر جمہوری حکومت کے درپہِ آزار رہتے ہیں۔

یہ ملک قادیانیوں اور ان کے ہمنواﺅں کےلئے نہیں بنایا گیا تھا جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کوتحریری طور پرلکھ کر دیا تھا کہ پنجاب کے وہ مسلم اکثریتی علاقے(جہاںقادیانی بستے ہیں،یہ ابھی یہ غیر مسلم ڈیکلیئرنہیں کئے گئے تھے)ان علاقوں میں بسنے والے لوگ پاکستان کے بجائے ہندوستان کی میں شامل رہنا چاہتے ہیں۔اس الحاق پر قائد اعظم نے بھی تاسف کا اظہار کیا تھا اور سر سرائیل ریڈ کلف کے فیصلے پر تنقید بھی کی تھی۔لگتا یہ ہے کہ ہمارے تمام اداروں میں یہ لوگ مسلمانوں کا لبادہ اڑھے سرائت کئے ہوے ہیں جو اقلیت کی شکل میں سامنے آنے سے کتراتے ہیں ان کا کھیل پاکستان کے خلا ف1947 سے اب تک مسلسل جاری ہے۔پرویز مشرف بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔جو اسرائیل کا زبردست حامی تھا اور اس جیسے کئی مصنوئی چہروں کی شناخت رکھنے کے باوجود، ان یہودو نصارا کے ایجنٹوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا ہے۔کیونکہ طاقت کے ایوانوں میں ان کی لابیاں سب سے زیادہ مضبوط ہیں اور یہ ہی لابیاں کبھی مرد مومن کی شکل میں کبھی مشرف ا ور یحیٰ کی شکل میں اس ملک کے جمہوری دور کو پنپنے نہیں دیتی رہی ہیں۔ آج بھی جمہوریت کو سب سے زیادہ انہی سے خطرہ لا حق ہے۔ان کے ہمنوا وزیر اعظم کو اپنازر خرید سمجھے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے احکامات تو کیا یہ لوگ عدالتوں فیصلوں کے آگے دیوار بنے ہوے ہیں۔

بھان متی کا ایک شہسوار جو باشاہ بننے کے خوابوں میں گذشتہ دو عشروں سے غلطان ہے۔جو برطانیہ کے ایک یہودی کھرب پتی کا داماد ہے اور اس کے سرمائے سے نا صرف پاکستان میں نام نہاد فلاحی کام کئے جا رہے ہیں بلکہ تعلیمی ادارے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ان کے ذریعے یہودیت کا ایک خاص ایجنڈا پاکستان پر تھوپنے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ایک چھوتا ساواقعہ شوکت خانم کی خدمت گذاری کا بتا تا چلوں میری ایک رشتہ دار جس کو کینسر تھاکراچی میں انکی شوکت خانم لیب میں کینسر کے ٹیسٹ کے سلسلے میں گئی (یہ کہتے ہیں کہ ہم انسانی خدمت کیلئے کا م کر رہے ہیں)خیال یہ تھا کہ آغا خان لیب کے مقابلے میں یہ کم پیسوں میں ٹیسٹ کر دیں گے ،جب لیب والوں نے کینسر کے ٹیسٹ کی بھاری فیس مانگی تو اتفاق سے ان کے پاس ٹیسٹ کی بھاری فیس کی ڈیمانڈ کے مطابق دو ہزار روپے کم تھے ،انہون نے لیب والوں کی منتیں کیں کہ وہ جو پیسے کم ہیں گھر سے لا کر بعد میں ادا کر دیں گے، کیونکہ ٹیسٹ کی رپورٹ تو کئی دنوں کے بعد دی جانی ہے۔اگر تمہیں پیسے نہ دیئے جائیں تو رپورٹ روک لو۔ مگر اس ظالمان خان کے کارندوں نے اُس لبِ مرگ مریض کا ٹیسٹ کر کے نہیں دیا ۔یہ ہے ظالمان خان کا اصل چہرہ جس کیلئے یہ ہماری زکواتوں پر نظر رکھتا ہے۔اور پھر اپنے آپ کو اس ملک کی راج گدی کا حقدار بھی اپنے آپ کو قادیانیوں اور یہودیوں کے سہارے سمجھتا ہے۔یہ اپنے آپ کو برطانیہ و امریکہ کا مخالف ظاہر کر کے ہمارے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔یہ بات بھی ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اس ایجنٹی میں کو ن کتنا آگے ہے۔موصوف جنرل مشرف کے ہر غیر قانوں ی حربے میں یہ اس کا دست بازو تھے۔جب وزارتِ عظمیٰ سے دھتکارے گئے تو چہرے کا نقاب بدل کر اسلامی قوتوں کے حامی بن گئے ۔نیٹو سپلائی کے خلاف پہلے خوب شور مچایا ور آج نیٹو سپلائی ان کے اقتدار کے ایوانوں سے پشاور شہر سے ہو کر گذر رہی ہے۔ان کی بیک چینل ڈپلومیسی کچھ اور ہے اور عوام کے سامنے ان کے چہرے کا ماسک کچھ اور ہوتا ہے۔پھر جب یہ نقاب بھی میلا ہوگیا تو نکلے تھے حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے اور جیو موصوف کی زد میں آگیا۔حکومت کو بھول کر جیو پر الزام تراشیاں شروع کر دی گئیںاور یہ الزام دھر دیا کہ اس نے انہیں طالبان خان بنا کر پیش کیا تھا۔آپ اپنی لایعنی حرکتوں کی وجہ سے طالباں خان بنے ۔آج اس بات سے انکاری ہیں کیوں؟؟؟

بھان متی کے کنبے کی طرف سے خود ساختہ طالباں خان کو یہ یقینا دہانی کرا دی گئی ہے کہ نواز شریف کو بہت جلد رخصتی کی صورت میں نا صرف جلد دوبارہ انتخابات کرائے جایئں گے بلکہ مسندِ وزارتِ عظمیٰ کی ان کی دیرینہ خوہش بھی پوری کر دی جائے گی(کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک) یہی وجہ ہے کہ آج ایک نیا اتحاد بہان متی بنوانے میں مصروف ہے جس میں ایسی مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو مسلسل دور یتیمی سے گذرتی رہی ہیں۔جن کو جمہوری عوام کبھی بھی لفٹ نہیں کراتے ہیں۔ان کے علاوہ اس اتحاد کا حصہ ایک بڑا بھونپو جو سیاسی یتیمی میں بھی مثالی ہے ،چوہدری برادرانمارشل لاءکی گود میں بیٹھنے والے جن کا کردار پوری قوم پر واضح ہوچکا ہے ،کینیڈا کے شیخ اسلا م اور مسٹر عمران خان بننے جارہے ہیں۔ان سب کے پیٹ میں موجودہ جمہوری حکومت کا درد ہے۔یہ تمام گروہ کبھی ریلیاں نکال رہے ہیں تو کبھی دھرنے دے رہے ہیں ۔مقصد ان کا ملک میں انتشار پیدا کر کے ٹرپل اے کو متحرک کر کے ملک میں مارشل لاءلگوانا ہے۔کینیڈا کے شیخ الاسلام بھی پاکستان میں بقول ان کے نواز شریف کی غیر جمہوری اور غیر آئینی حکومت کے خاتمے کیلئے دن رات بے چینی میں گذار رہے ہیں۔ وہ جولائی کی بجائے اب جون میںہی پاکستان میں دھما چوکڑی ڈالنے کے لئے آیا چاہتے ہیں۔ یہ پورا بہان متی کا کنبہ ملک کو بد امنی اور انتشار میں مبتلا کر کے یہاں بینڈ باجوں کی آوازین سنوانے کا متمنی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بینڈ باجوں کی آوازیں سن سن کر اس قوم کے کان پک چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب کسی بینڈ والے کو یہ قوم آسانی سے شب خون نہیں مارنے دے گی۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213205 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.