نیا بجٹ مبارک
(Sarwar Siddiqui, Dera Ghazi Khan)
اہلیان ِ وطن کو مبارک ہو۔۔۔نیا بجٹ آگیاہے پرچون فروشوں کودلی مبارک ۔۔۔اب
ان پر بھی ٹیکس لگ گیاہے وہ ناراض نہ ہوں ٹیکس امیر دیتے ہیں اب تو ان کا
شمار امیر لوگوں میں ہونے لگے گا یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟ امسال پیش
کئے جانے والے بجٹ میں1422ارب کا خسارہ بتایا گیاہے خود وزیر ِ خزانہ نے
اعتراف کیاہے کہ وہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکے اس کا ایک مطلب یہ
بھی ہے کہ اب پھر عوام کی شامت آنے والی ہے بجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف
پورا کرنے کیلئے انشاء اﷲ عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی
نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی اسحق ڈار اورCBRحکام کی مصروفیات زیادہ ہوئیں
تویقینا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جائے گاہر
حکومت اسی تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی۔اس
بجٹ میں ایک اور کمال کا نسخہ تجویزکیا گیاہے کہ بجلی کے صارفین سے ایڈوانس
ٹیکس لیا جائے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ
جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے ایک سال کے دوران ہوشربا
مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی تسلیم
کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے
بلوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی عام آدمی کا جینا دوبھرہوگیاہے ڈالرکی
قدر میں کمی ہوئی ہے تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے کیوں نہیں
آئیں؟ ہے کوئی اس سوال کا جواب ۔۔۔ہمارے وزیر ِ ِخزانہ کے پاس؟؟؟ایک دور
تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوں میں استحکام رہتا انتظامیہ اور
صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض
مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا
کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ
بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ متوقع بجٹ
میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا پاکستان
کا ہروزیر ِ خرانہ ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے
ہی وعدے کرتاہے
جناب!اسحاق ڈار صاحب ایسی باتیں نہ کریں غریبوں کو تو پہلے ہی مہنگائی نے
مار کھاہے اب آپ خوشی سے مارنا چاہتے ہیں آپ تو اچھے بھلے ہوا کرتے تھے کب
سے عوام کے دشمن بن گئے؟۔۔۔پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز
سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے
اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر
وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا
کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموں کو خود مختاربنایا ہے انہیں
شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوں پر تو کوئی زور نہیں چلتا
لیکن انہوں نے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں
بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں جیسے سوئی گیس کے گھریلو ارجنٹ
کنکشن کی سیکورٹی فیس35000مقرر کردی گئی ہے دوسرا 25-20پہلے کنکشن لگوانے
والوں سے پھر سیکورٹی کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا
تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو
بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے
سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنماؤں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی
ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے
ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنماؤں کو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا
غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال
پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز
چیزوں کے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار
حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے
چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا
کوئی کب تک سنتا رہے ،جب سے حکومت نے ہر15 دنوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے مہینے میں دو بار مہنگائی کی
نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوں کو چیزیں مہنگی کرنے سے
کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی
بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا
صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام
پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات
کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی
حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی
زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے
کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیاء،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی
قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے،
محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز
اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت
مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس
سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ
خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے
ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری
نہیں ہوگی غریبوں کی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔یہ ایسا بجٹ
ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اﷲ کرے ایسا ہی
ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اﷲ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج
کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس
چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں جناب!اسحاق ڈار صاحب ہمیں
آپ کا پیش کردہ بجٹ قبول ہے لیکن ایک وعدہ کریں کہ اس کے بعد سال بھر کوئی
منی بجٹ نہیں آئے گا۔ |
|