ساٹھ سالہ شخص

پاکستان میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کراچی میں " نامعلوم" افراد نے نامعلوم طریقے سے سارا شہر بند کروا دیا۔جلاؤگھیراؤ شروع ہو گیا۔گاڑیاں جلا دی گئیں۔ہوائی فائرنگ سے بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ ایم کیو ایم کے ذمہ داران نے فوراََ نائن زیرو پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس طلب کی۔ کہا جاتا ہے یہ ایم کیو ایم کی تاریخ کی سب سے مختصر پریس کانفرنس تھی۔جس میں الطاف حسین کی گرفتاری کی تردید کی گئی ۔کارکنوں کو پر امن رہنے کا پیغام دیا گیا۔ایم کیو ایم کا یہ سٹائل نہیں۔ایم کیو ایم کے قانونی ماہر فروغ نسیم کی میڈیا کے ساتھ گفتگو بے بسی کی منہ بولتی تصویر تھی۔سابق صدر زرداری اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے کابینہ سے بات کرتے ہوئے اپنے پارٹی لیڈرز کو اس معاملے پر بیان بازی سے روک دیا۔ کہا گیا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔اسے ملکی کے علاوہ سفارتی تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہئیے۔

الطاف حسین بلاشبہ پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی اور پاکستان کے ایک طبقے کے متفقہ لیڈر ہیں۔جن کا نعرہ ہی نہیں عمل بھی ہے کہ قائد کا جویار ہے موت کا حقدار ہے۔اس نعرے کی بھینٹ کئی نامور شخصیات کو چڑھنا پڑا۔ایم کیو ایم ہی کے ایک ناراض لیڈر عمران فاروق کے قتل کو بھی بعض حلقوں کی جانب سے اسی نعرے کی تکمیل قرار دیا گیا۔ ایم کیو ایم کی بد قسمتی کہ یہ قتل کراچی کی بجائے لندن میں میں کیا گیا۔اس کیس کی تفتیش پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ ابھی جس منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین کو گرفتار کیا گیا یہ دراصل اسی قتل کیس کی تفتیش سے برآمد ہوا ہے۔ آزاد عدلیہ اور با احتیار پولیس کے نعرے مارے ملک میں سننے کو بہت ملتے ہیں۔ پولیس کا اختیار لیکن وہاں دیکھنے کو ملا۔سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیش میں برطانیہ کا وزیر اعظم کیا ملکہ بھی ، مداخلت کا سوچ ہی نہیں سکتی۔ جرم تو جنت میں بھی نہیں رکا تھا کہ اﷲ نے خود شیطان کو ساری شیطانی طاقتیں جو عطا کر دی تھیں، برطانیہ اور اس جیسے دوسرے ممالک میں بھی ہوتا ہے ۔یہ بات لیکن طے ہے کہ اس معاشرے میں جرم کر کے بچ جانا نا ممکنات میں سے ہے۔ وہاں جرم کی ہرتیسری فائل داخل دفتر نہیں ہوتی۔ عشروں تک کیس کے پیچھے پڑے رہنے والے پولیس آفیسر اسی وقت سکون کا سانس لیتے ہیں جب کیس اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔

احتیاط کا یہ عالم کہ الطاف حسین کو گرفتار کر لینے کے بعد بھی ان کی گرفتاری کا اعلان ایک ساٹھ سالہ ایشیائی کی گرفتاری کے عنوان کے ساتھ کیا گیا۔ نام لینے سے صرف اس لئے احتراز کیا گیا کہ کل کلاں اگر تفتیش میں جرم ثابت نہ ہو تو اس سے اس شخص کو بدنامی سے حتی الامکان بچایا جا سکے۔نام لے کے یہ خبر ہمارے میڈیا نے بریک کی۔پھر وہ دور دور کی کوڑیاں لائے کہ برطانیہ کا میڈیا بھی دانتوں میں انگلی دبا کے رہ گیا۔ہمارے ہاں بھی عدلیہ آزاد ہے لیکن یوسف رضا گیلانی سمیت ہر شخص اپنے خلاف کیس کو نوے کی دہائی کی سیاست کا از سرنو آغاز قرار دیتا ہے۔یہاں جس کے حق میں فیصلہ آئے اسے عدلیہ آزاد نظر آتی ہے اور جس کے خلاف آئے وہ اسے کانا انصاف قرار دیتا ہے۔آزاد عدلیہ اسے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر شخص وہاں کے نظام عدل پہ نہ صرف یقین رکھتا ہے بلکہ اس کی تعریف کرتا بھی نظر آتا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ وزیر اعظم مجرم ثابت ہو جائے تو اسے سزا مل کے ہی رہتی ہے جبکہ بڑے سے بڑے ملزم پہ الزام ثابت نہ ہو سکے تو تفتیشی اداروں کو اکثر اوقات ہتک عزت کے مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

الطاف حسین کی گرفتاری کے بھی بعد سے ایم کیو ایم کے کارکنان نمائش چورنگی پہ دھرنا دئیے ہوئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی اپنے قائد کے ساتھ وابستگی بے مثال ہے۔ ایم کیو ایم کے یہ وہ کارکنان ہیں جنہیں الطاف حسین نے نہ صرف سر اٹھا کے بلکہ دوسروں کے سر جھکا کے جینے کا حوصلہ دیا۔ یہ اس احسان پہ اب بھی اپنے قائد کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت البتہ ایک عجیب امتحان میں ہے۔انہیں اس مقدمے کے انجام کی خبر ہے۔وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی طرح کی گڑ بڑ ان کے کیس کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔ایم کیو ایم قیادت اور صوبائی ومرکزی حکومت اس معاملے پر پوری طرح رابطے میں ہیں لیکن کارکنوں کو ٹھنڈا کرنے میں وقت لگے گا۔کارکن کسی بھی پارٹی کا ہو قابل عزت اور قابل تعریف ہے کہ ان میں سے اکثر نظریات کے غلام ہوتے ہیں۔انہیں اپنے قائد کے قتل اور منی لانڈرنگ کے الزام بھی سیاسی انتقام لگتے ہیں۔

ایم کیو ایم پہ کڑا وقت ہے۔اس وقت میں سوائے ہمدردی کے اور کچھ کہنا مناسب نہیں۔پاکستان میں سب سے یہی درخواست ہے کہ اس موقع کو سیاسی انتقام کے لئے قطعاََ استعمال نہ کیا جائے۔انصاف کو اپنی راہ لینے دی جائے اس یقین کے ساتھ کہ یہ آزاد عدلیہ نہیں جہاں ہر بڑے کیس میں کسی نہ کسی منصف کی کسی نہ کسی مجرم کے ساتھ رشتہ داری نکل آتی ہے اور پھر بھی بنچ کا سربراہ کیس کی شنوائی پہ اصرار کرتا ہے تا آنکہ اسے زبردستی اس کیس سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔الطاف حسین اور ان کے کارکنوں کے لئے بھی یہ مقام تشکر ہے کہ وہ لندن میں ماخوذ ہیں پاکستان میں نہیں۔قائد عوام کا بھی خیال تھا کہ اگر انہیں پھانسی ہوئی تو ہمالیہ روئے گا۔ ایم کیو ایم کی قیادت سے بھی امید ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے کارکنوں کو مطمئن رکھے گی اور نامعلوم افراد سے بھی کہے گی کہ وہ بھی ہاتھ ہولا رکھیں۔ دوستی کے جہاں اصول ہوتے ہیں وہیں دشمنی کے بھی چند اصول ہوتے ہیں ۔دوستوں دشمنوں سب سے گذارش ہے کہ ان اصولوں کو مدنظر رکھا جائے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268396 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More