بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
وفاقی بجٹ 2014-15قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ وہی خسارے کا بجٹ ، جیسا
کہ پچھلے مضمون میں نے کہا تھا کہ حکومت ہر دور میں خسارے کا بجٹ ہی پیش کر
تی ہے۔ اور جب بجٹ خسارے کا ہی ہوگا تو یقین جانیئے کہ عوام کی ترقی ناپید
ہی رہے گی۔اچھے بُرے دن تو آتے جاتے رہتے ہیں، مگر ہمارے یہاں عوام کے لئے
ہمیشہ سے بُرے دن ہی رہے ہیں۔ بس فائلوں، کاغذوں اور رپورٹوں میں سب اچھا
ہے! درج ہوتا ہے مگر حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میٹرو بس اور
میٹرو ٹرین ضرور چلائیں کیونکہ یہ بھی ترقی کے لئے بے حد ضروری ہے مگر
مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داریوں میں
سے ہے ۔ جو اضافہ کیا گیا ہے کیا اُس سے ایک متوسط طبقے کا ملازم اپنے اہلِ
خانہ کے ساتھ خوش اسلوبی سے مہینہ نہیں گزار سکتا ہے؟ دس فیصد کا معمولی
اضافہ سرکاری ملازمین کے منہ میں زیرہ اور آٹے میں نمک کے برابر ہے۔عموماً
ہمارے یہاں چھ افراد پر مشتمل ایک کنبہ تو ضرور ہوتا ہے۔ اس ہوشربا مہنگائی
کے دور میں بچوں کی تعلیم، میڈیکل، راشن، دودھ، کرائے کا گھر، پانی ، بجلی،
گیس کے بل، بچوں کے ٹیوشن، کنوینس کا خرچ ۔ یہ تو چند چیدہ چیدہ ضروری
لوازمات لکھے گئے ہیں اور بھی اوپری خرچ ہوتا رہتا ہے ۔ لکھنے کا مقصد یہ
ہے کہ کیا اس کنبے کا خرچ آج کی معمولی تنخواہوں میں ممکن ہے؟ افسر شاہی جو
بڑے بڑے عہدوں پر بُرا جمان ہیں انہیں تو لاکھوں میں تنخواہوں کی ادائیگی
ہوتی ہے اس لئے انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ مہنگائی کتنی ہے۔ مگر ایک عام
اور متوسط طبقے کا ملازم معمولی تنخواہ میں کس کسمپرسی میں گزارا کرتا ہوگا
اس کا درد حکومت کو ضرور ہونا چاہیئے۔ سیاسی لیڈروں کی محض بیان بازی سے اس
سنگین مسئلے کا تدارک ممکن نہیں، انہیں عملاً کچھ کر دکھانا ہوگاجس سے عوام
کو طمانیت کا احساس ہو۔ مگر افسوس! آج تک متوسط طبقے کے لوگوں کا کسی حکومت
نے خیال نہیں کیا۔ ان کے چولہوں کو ہمیشہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔ شاعر
نے کیا خوب کہا ہے:
وہ جو بازار کے کھلاڑی ہیں
تیرا ہر خواب بیچ ڈالیں گے
کل تو سُوکھے کو بیچ ڈالا تھا
اب کے سیلاب بیچ ڈالیں گے
حکومت سے مطالبہ کرتے رہنا عوام کا حق ہے اور جو کچھ بھی ملے اس پرمطمئن
بھی نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ اطمینان جمود میں تبدیل ہو سکتا ہے لیکن اس
کے ساتھ ہی اس بات کا بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ ترقی اور خوشحالی اپنے پیروں
پر کھڑے ہوکر ہی حاصل ہو سکتی ہے اور حکومت سے ملنے والی رقم اس میں بس کچھ
ہی فرق ڈالتی ہے۔ بہرحال یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ آج قومی اسمبلی میں
پیش کیا گیا بجٹ جسے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے پیش کیا سرکاری ملازمین
کے لئے خوشی کا باعث نہیں بن سکا۔ ہم اس بجٹ میں مالی خسارے کو کم کرنے کے
اقدامات کو تو قابلِ ستائش اقدام ضرور کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بجٹ غریب عوام
اور متوسط سرکاری ملازمین کے حالات کے پیشِ نظر سود مند نہیں ہے۔ خاص طور
پر پسماندہ طبقات ، ضرورت مند افراد اور غٖریبوں کے حق میں اسے کسی بھی طرح
بہتر نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بجٹ میں حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے
نقطۂ نظر سے بہت فراخ دل نظر آتی ہے۔ اس نے اس سلسلے میں ضرور بہتر اقدامات
کئے ہیں۔ یعنی بیرونِ ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کو لانے کے لئے کارگر
قدم اٹھائے گئے ہیں۔ بس افسوس یہ ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی
تنخواہوں میں مضحکہ خیز انداز میں معمولی اضافہ کیا ہے جبکہ مہنگائی کے
لحاظ سے ان کے لئے بجٹ میں کافی اضافے کی گنجائش رکھنی تھی لیکن انہوں نے
کوئی خاص اضافہ تو کیا نہیں حالانکہ تمام ملازمین اس کے انتظار میں تھے جس
کی وجہ سے ان تمام میں مایوسی اور محرومی پائی جاتی ہے۔
دنیا میں قوموں کو وہی چیزیں ملتی ہیں جن کا وہ متحمل ہوتی ہیں ۔ یہ بھی
کہا جاتا ہے کہ دینے والے سے بھی زیادہ اہمیت مانگنے والے کی ہوتی ہے وہ
کون ہے ان کی اہمیت کیا ہے۔ دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ پوری دنیا
میں یہ بات سکہ رائج الوقت کی طرح عام ہے کہ حقوق بھیک میں نہیں ملتے بلکہ
لینا پڑتا ہے، اس کیلئے جد و جہد کرنی پڑتی ہے ۔ دنیا میں ایسی شرافت تو
رہی نہیں کہ کوئی حکمراں بغیر مانگے خود سے وہ سارے حقوق دے دے، جس کا وہ
قوم متحمل ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ، یہاں تو ہر چیز سیاست سے
عبارت ہے، نفع و نقصان سے منسلک ہے، رضا مدنی اور ناراضگی سے وابستہ ہے۔
یہاں کسی طبقے کو کچھ دینے سے پہلے اس کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاتا ہے کہ
اس سے اس کو کتنا فائدہ پہنچے گا اور کوئی اس سے ناراض تو نہیں ہوگاکہ جس
سے ان پر منہ بھرائی کا الزام عائد ہو جائے۔ایسے میں رضا ؔ صاحب کا یہ شعر
یاد آتا ہے:
یارب! عتابِ عام بجٹ سے بچا ہمیں
گھر کے بجٹ کی، جیب کی، انکم کی خیر ہو
قیمت بڑھے نہ پیاز کی، چینی کی اور اب
کپڑے کی، دال، روٹی کی، شلجم کی خیر ہو
یقینا آج تمام لوگوں کے سروں سے بجٹ کا بخار اُتر گیا ہوگا کیونکہ بجٹ اب
آن ائیر آ چکا ہے۔ اور سب غریبوں کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ اب صرف بجٹ
کے حوالوں سے میڈیا پر تبصرہ ہی ہوتا نظر آئے گااور اسمبلی میں بجٹ پر بحث۔
شاید کہ بجٹ میں کوئی ترمیم متوسط طبقوں کی ختم ہوتی روح میں جان ڈال
دے۔سرکار سے بہت عاجزی سے التماس کرنے کی جسارت کروں گا کہ وہ پیش گئے بجٹ
میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو کم از کم ڈبل کر یں، اور
پینشن والوں کی کم از کم پینشن ۸؍ہزار مقرر کریں، جبکہ عام مزدور کی کم از
کم ماہانہ اجرت پندرہ ہزار مقرر کیا جائے۔ گو کہ یہ تمام اضافے بھی مہنگائی
کے تناسب سے بہت کم ہونگے مگر خزانے کو دیکھتے ہوئے اتنی فرمائش ہی کافی
ہے۔ اور شاید اس فرمائش سے سرکاری ملازمین، متوسط طبقہ، مزدور طبقہ، اور
پینشن پانے والے حضرات میں کچھ خوشی کی لہر دوڑ جائے۔ خدا پاکستان کو اور
اس عرضِ پاک میں بسنے والوں کو اپنے خاض حفظ و آمان میں رکھے۔ آمین۔ |
|