پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین
(Dr Rais Samdani, Karachi)
(عالم اسلا م کی ایک نامور شخصیت
جنہوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجودتعلیم کے میدان میں عظیم کارنامے سر
انجام دیئے)
پروفیسر ڈاکٹر طحہٰ حسین(۱۸۸۹ء۔۱۹۷۳ء) دنیائے عرب کی ایک ایسی عظیم شخصیت
کانام ہے جس کی تما م زندگی حصول علم ، فروغ علم اور تر سیل علم سے عبارت
ہے۔مصر کے اس مرد آھن نے تعلیم کے میدان میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے
جنہیں تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے حروف سے لکھا جاچکاہے۔وہ رہتی
دنیا تک ایک مثال اور ایک نمونہ کے طور پر یاد رکھے جا ئیں گے۔بصارت سے
محروم ہوتے ہوئے علم و تحقیق کی انتہا کو پہنچے، تحصیل علم کے لیے آپ کی
جدوجہد اور اس راہ میں حائل مسائل و مشکلات کو برداشت کر نا قابل ستائش ہے۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین مصر کے ایک چھوٹے سے شہر میں ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے ۔ یہ اپنے
تیرہ(۱۳) بھائیوں میں ساتویں اور گیارہ بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ آپ
نے اپنی بصارت ے محرومی کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ ’’ دیہاتی اور
شہری عورتوں کا فلسفہ مہمل ہو تا ہے وہ مختلف قسم کے ٹوٹکوں ‘ جھاڑ بھونک
اور تعویذ گنڈوں پر بھروسہ رکھتی ہیں، مریض کی مناسب اور بر وقت دیکھ بھال
ان کے نزدیک ثانوی حیثیت ہوتی ہے‘‘۔ ڈاکٹر طحہٰ حسین لکھتے ہیں کہ ’’میری
آنکھیں دکھنے لگیں‘ اس وقت عمر کوئی تین برس تھی ‘ چند دن تو یو نہی چھوڑ
دیا گیا اس کے بعد ایک نائی کو بلایا گیا اور اس نے ایسا علاج کیا کہ
آنکھیں جاتی رہیں‘‘۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین نے بصارت سے محرومی کو کبھی اپنے مقاصد کے حصول میں حائل
نہ ہو نے دیا اور نہ ہی آپ نے اپنے آپ کو زندگی میں کسی لمحہ بے بس ،مجبور
اور قابل رحم تصور کیا بلکہ جب کبھی آپ کے خاندان یا عزیز رشتہ دار نے آپ
سے اظہار ہمدردی کرنے کی کوشش بھی کی تو آپ نے اسے سخت نا پسند کیا ، آپ نے
اپنی زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری اور کٹھن سے کٹھن حالات میں آپ علم کے
حصول میں مسلسل آگے بڑھتے رہے ۔ علم کی انتہائی منزل کو پالینے کے بعداسے
اپنے تک محدود نہ رکھا بلکہ ایک استاد کی حیثیت سے تر سیل علم کا فریضہ
انجام دیتے رہے آپ تحصیل علم کو ہر شخص کا پیدائشی حق تصور کرتے تھے۔فروغ
علم کے لیے آپ کی عملی جدو جہد تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جاچکی ہے۔کلام
مجید حفظ کر نے اورابتدائی مذہبی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم
بھی مصر ہی میں حاصل کی۔آپ ابتدا ہی سے آزاد خیال اور ہر بات کو عقل کی کسو
ٹی پر پرکھنے کے قائل تھے چنانچہ ابتدائی مذہبی تعلیم کے دوران آپ کو دینی
مدارس کے روایتی استادوں سے نفرت سی ہو گئی تھی ۔آپ نے اپنی سوانح عمری میں
ان اسباب کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے اور متعدد واقعات ان استادوں کی کم
علمی ، فرقہ پرستی ، محدودنظری اور قناعت علمی کے بارے میں تحریر کیے ہیں۔
آپ جامعہ الازہر بھی جارتے رہے ، ساتھ ہی شام کے اوقات میں جدید تعلیم کے
ادارے یعنی کالج بھی جانے لگے جہاں سے وہ علوم جدیدہ کی طرف مائل ہوئے ، اس
نتیجے پر پہنچے کہ علم چند کتابوں تک محدود نہیں۔جامعہ الا زہر سے فارغ
ہوجانے کے بعد جہاں پر آپ کو کچھ اختلاف بھی ہواجس کا آپ نے بر ملا اظہار
بھی کیاآپ مصر ی یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے جہاں سے آپ نے ۱۹۱۴ء میں پی ایچ
ڈی کی ڈگری حاصل کی۔شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ ’آپ پہلے طالب علم تھے
جنہوں نے گیارہویں صدی کے شاعر ابو العلا پر مقالہ تحریر کر کے یونیورسٹی
سے ڈگری کے حصول کا اعزاز حاصل کیا‘۔ڈاکٹریٹ کر لینے کے باوجود ڈاکٹر طحہٰ
حسین میں مزید علم حاصل کرنے کی جستجو بر قرار رہی اس طرح آپ نے سمندر پار
کی دنیا کو اپنی بند آنکھوں لیکن کھلے دل و دماغ سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے
کا منصوبہ بنا یا۔اس سلسلے میں جامعہ مصر نے آپ کی بھرپور رہنمائی اور
معاونت کی اور آپ کو فرانس بھیج دیا گیا جہاں آپ فرانس کی یونیورسٹی سے
منسلک ہوگئے اور ۱۹۱۸ء میں مزید ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔گو یا آپ ڈبل پی
ایچ ڈی ہو گئے۔ علم کی ان اعلیٰ ترین اسناد کے حصو ل میں آپ کی بصارت سے
محرومی آپ کے آڑے نہ آئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر انسان کسی مقصد
کے حصول میں سچائی اور لگن کے ساتھ مصروف عمل ہوجائے تو کوئی مشکل ‘کسی بھی
قسم کی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ یہ پیغام ہے نئی نسل کے لیے ، ان
لو گوں اور دوستوں کے لیے جو ذرا سی مشکل کو دیکھ کر ہمت ہار دیتے ہیں اور
اپنا راستہ بدل لیتے ہیں ۔
فرانس میں اپنے قیام اور مشکلات کا ذکر ڈاکٹر طحہٰ حسین نے اپنی ایک کتاب
میں ان الفاظ میں کیا کہ ’’مجھے اپنی خصلتوں میں صبر و اولا العزمی کی
فرانس میں جس قدر شدید ضرورت محسوس ہوئی اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی
تھی۔مجھے وہاں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز اور انسان نیا معلوم ہو تا تھا۔
اسی طرح وہاں کی ہر چیز اور ہر شخص نے مجھے اجنبی سمجھا لیکن صبر اور غیر
متزلزل قوتِ برداشت ہی وہ خصلتیں ہیں جنہوں نے مجھے لو گوں اور چیزوں کو
موقع دیا کہ وہ مجھے سمجھیں اور انہیں خصلتوں کی مدد سے میں فرانس میں
باوجود ابتدائی مشکلات و مصائب کے زندہ رہا اور بالآخر پہلے دو سالوں کے
بعد وہاں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین ایک غیر متزلزل قوت برداشت کے مالک
تھے ان کی اسی خصو صیت نے انہیں زندگی میں کامیاب و کامران کیا۔فرانس میں
قیام کے دوران ڈاکٹر طحہٰ حسین کی ملاقات ایک فرانسیسی خاتون سیوزانی برسیو
سے ہوئی جو طبیعتاً نرم دل، ہمدرد اور تعلیم یافتہ تھی ۔ رفتہ رفتہ وہ
ڈاکٹر طحہٰ کے نزدیک آگئی اور انہوں نے سیو زانی برسیو سے شادی کر لی۔
فرانس سے واپسی پر بر سیو ڈاکٹر طحہٰ کے ہمراہ مصر آگئی اوربقیہ زندگی
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزاردی۔زندگی کے سفر میں سیو زانی کو دیگر مصروفیات کے
علاوہ ایسے کام بھی اضافی کرنا پڑے مثلاً ڈاکٹر صاحب کو اخبارات ، رسائل
اور کتب پڑھ کر سنانا، ان سے ایڈوائس لینا ، تقاریر تحریر کرنا
وغیرہ۔سیوزانی یہ تمام کام خوشی خوشی سر انجام دیا کرتی جس کی وجہ سے ڈاکٹر
طحہٰ حسین نے اپنی شریک حیات کو اپنا ہمدرد اور خیال کرنے والی ساتھی قرار
دیا۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین کی شخصیت ان کے بعض نظریات اور خیالات کے باعث سخت تنقید
کا نشانہ بنی ، وہ ایک جانب تو عربی زبان کے بڑے اور ممتاز ادیب کی حیثیت
رکھتے تھے دوسری جانب ان پر ناقدین نے سخت تنقید بھی کی اور ان کے خلاف مصر
میں بہت سی کتابیں اور بے شمار تنقیدی مضامین تحریرکیے گئے خاص طور پر
جامعہ الازہر کے علماء نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا، ڈاکٹر طحہٰ کی
بعض اختلافی باتیں بہت زیادہ بلکہ خطر ناک حد تک سامنے آئیں۔ان کی کتاب
’’الشعر الجاھلی‘‘پر سخت تنقید ہی نہیں ہوئی بلکہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط
کر لیا۔ اسی زمانے کے ایک مصنف عبد الصمد صارم الزہری نے اپنی کتاب ’تنقید
ات طحہٰ حسین‘ میں یہاں تک تحریر کیا کہ اس میں شک نہیں کہ طحہٰ حسین عربی
کے مشہور نقا دوں میں سے ہیں لیکن انہوں نے جو کچھ تنقید کی ہے وہ تخریبی
ہے تعمیری نہیں۔ اپنی اس کتاب کے پیش لفظ میں صارم الزہری نے لکھا ہے کہ
’کیونکہ انہوں نے بعض ایسی باتیں لکھ دی ہیں جن سے کسی طرح بھی اتفاق نہیں
کیا جا سکتا ، وہ اپنے زور قلم کی بنا پر، بات کو بڑی خوبی سے پیش کرتے ہیں
اور واقعات کی کڑی سے کڑی ملاتے چلاجاتے ہیں کہ کہیں بھی جھول محسوس نہیں
ہوتالیکن ہم دیگر اسلامی مفکرین و مورخین کو سراسر ان کے خلاف پاتے ہیں‘۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین پیرس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹتے ہیں
اور اپنی خواہش کے مطابق عربی ادب کے پروفیسر مقررہوجاتے ہیں ۔ ڈاکٹر طحہٰ
حسین لکھتے ہیں کہ ’تدریس علم کے ساتھ میرے اندر موجود بے باکی اور حق گوئی
کی خصلت نے ظاہر ہو نا شروع کردیا اور میں نے حکام با لا کی توجہ نصاب
تعلیم کی جانب دلانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کو عام کر نے کے لیے آواز بلند کی
جو حکومت وقت کو پسند نہ آئی۔چنانچہ طحہٰ حسین پر حکومتی زیادتیاں شروع ہو
گئیں ادھر طحہٰ کے رویے میں بھی شدت آتی گئی اور انہوں نے عملی سیاست میں
حصہ لینا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر طحہٰ حسین کو طرح طرح کی
مصیبتوں اور مشکلات سے دو چار ہونا پڑا، طحہٰ کی پروفیسری بھی جاتی رہی
لیکن اپنے ارادوں میں پختہ یہ شخص اپنی بات عام لوگوں تک پہنچا تا رہا ، ہر
حکو مت کو اس بات کا احساس دلاتا رہا کہ علم حاصل کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
۱۹۳۶ء میں مصر وفد پارٹی کی حکمرانی قائم ہوئی اس پارٹی میں ڈاکٹر طحہٰ
حسین کے نظریات سے اتفاق پا یاجاتا تھا چنانچہ حکومت نے ڈاکٹر طحہٰ کو
دوبارہ شعبہ ادب کا سر براہ مقرر کیا۔ ڈاکٹر طحہٰ نے اپنے نظریات و خیالات
کا پر چار جاری رکھا ، انہیں وقت کے ساتھ ساتھ مقبولیت حاصل ہوتی رہی ،
تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں ان کے خیالات کو پذیرائی حاصل ہوئی حتیٰ کہ
۱۹۴۰ء میں انہیں حکومت میں شمولیت کا موقع میسر آگیااورانہیں محکمہ تعلیم
میں ثقافتی امور کا ڈائریکٹر جنرل مقررکیا گیا بعد میں وزارت تعلیم کے
ٹیکنیکل مشیر مقرر ہوئے ۔ اسوقت آپ نے تحریر کیا کہ مجھے ایک بار حکومت میں
شرکت کا موقع مل گیا ، اس وقت مجھے شرم آئی کہ میں لوگوں کے اس مطالبے کو
پورانہ کروں جس کا خود میں نے انہیں سبق دیا ہے، چنانچہ میں نے اس سلسلے
میں تمام امکانی کو ششیں صرف کر دیں ، آپ کی کوششوں سے مصر میں ابتدائی
تعلیم عام اور مفت ہوئی، اسکندریہ یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ کچھ عرصہ
کے بعد ایک بار پھر مخالف پارٹی کی حکومت بر سراقتدار آگئی، ڈاکٹر طحہٰ
حسین ایک بار پھر مصائب و مشکلات کا شکار ہوگئے۔ اس بار بھی آپ نے ہمت نہ
ہاری اورمسائل کامقابلہ کرتے رہے اور اپنے مشن کو جاری و ساری رکھاحتیٰ کہ
حکومت کی باگ ڈور ڈاکٹر طحہٰ کے ہم خیال ساتھیوں کے ہاتھ آگئی اور ڈاکٹر
طحہٰ کو مصر کی وزارت تعلیم کا قلمدان سونپ دیا گیاچنانچہ آپ نے اپنی
دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے بارہ سال تک مفت تعلیم دینے کا قانون پاس
کرالیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے اقدامات کیے گئے، مصر کے طلبہ یورپی ممالک
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جانے لگے اور مصر میں جدید علوم پر خصو صی توجہ
دی جانے لگی۔
ڈاکٹر طحہٰ حسین کی تمام زندگی جدوجہد سے عبارت ہے ، بصارت سے محروم ہوتے
ہوئے آپ نے حصول تعلیم میں بلندیوں کو چھوا، عملی زندگی میں قدم رکھاتو
مصائب و مشکلات کو برداشت کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا حتیٰ کہ اپنے
مقصد میں کامیابی حاصل کی، تصنیف و تالیفات کے میدان میں ڈاکٹر طحہٰ حسین
نے نمایاں خدمات انجام دیں ، بے شمارمضامین و خطبات کے علاوہ آپ نے چالیس
سے زیادہ کتب تخلیق کیں۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ۱۹۷۳ میں عرب
دنیا کا یہ عظیم انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔
اﷲ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے ،آمین۔ امیرؔ مینائی کے بقول
ہوئے بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
(شائع شدہ مجلہ افق، گورنمنٹ ریاض گرلز کالج، کراچی۲۰۰۳ء،مصنف کی کتاب
’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل) |
|