اسلام، دہشت گردی اور مغربی میڈیا

اسلام اور دہشت گردی دو ایسے لفظ ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔اسلام ایک پُرامن دین ہے اور اس میں دہشت پھیلانے کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلام میں ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے اور فساد برپا کرنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔مغربی میڈیا ہمیشہ سے یہ ثابت کرنے کی بے کار کوششیں کر رہی ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اسلام امن وآتشی کا مذہب نہیں بلکہ دہشت گردی پر مبنی مذہب ہے۔

میاں علاوالدین صاحب کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا فلسفہ کوئی نیا نہیں بلکہ دور قبل از مسیح اور ازمنہ وسطہ میں بھی دہشت گردی کے واقعات نظر آتے ہیں۔تصور اور خیال کے آنکھ کے زاویے میں آگ کے اس الاو، منڈپ کو لائیں جو اس حق کے لئے جلایا گیاجو حق کی بات کرتا تھا۔حق کی بات کرنے والے اﷲ کے نبی حضرت ابراہیم ؑ تھے ۔ نمرود اس وقت کا بادشاہ تھاکو حق کی بات اچھی نہیں لگی اور اس نے حکم جاری کیا کہ اس حق پرست (ابراہیمؑ)کو آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔نمرود اس وقت کاسب سے بڑا دہشت گرد تھا۔
فراعنہ مصر اپنے وقت کے سب سے بڑے دہشت گردتھے جنہوں نے اپنے اہرام بنانے کے لئے دہشت گردی کی ابتداء کی اور انکار کرنے والوں کو زندہ درگور کردیا۔ان کے دور کے نجو میوں نے جب پیشنگوئیاں کی کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو فرعون کے تحت اور حکومت کے لئے خطرہ بنے گاتو آل فرعون نے گھروں میں گھس کر ہر اس ماں کی گھود اُجاڑ دی جسکا شیر خوار بچہ تھا ، اور ساری فراعنہ سلطنت میں شیر خوار بچوں کو تہہ تیغ کر دیا۔یہ اس وقت کی سب سے ہولناک دہشت گردی تھی اور فرعون اس وقت کا سب سے بڑا دہشت گردتھا۔اس کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ بھی دہشت گردی سے بھرا ہوا ہے۔کمزور قوموں کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک روا رکھا جاتا۔ہندوستان میں شودروں کے ساتھ جو دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں ، ان کا مثال ملنا مشکل ہے۔کسی کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تو کس کی آنکھیں نکال دی جاتیں۔کسی کی زبان کاٹ دی جاتی تو بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔

تاریخی لحاظ سے دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز کوانقلاب فرانس کے ابتدائی سالوں یعنی 1793-94 کو گردانا جاتا ہے۔ اس دور کو Regime DE-LA Terror‘’ ‘’کا نام دیا گیا ہے۔انہی دنوں میں لفظ Terror اور Terrorism کا باقاعدہ طور پر ‘’ دہشت‘’ اور ‘’ دہشت گردی‘’ کیلئے استعمال کئے گئے۔فرانس میں جو دہشت گردی سامنے آئی اس میں انقلاب فرانس کے حامی چار لاکھ افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے کو گرفتار کیا گیا اور تقریبا چالیس ہزار افراد کو قتل کر دیا گیا۔روس میں بھی دہشت گردی کی کاروائیاں 1878 تا 1881 تک اپنے عراج پر رہیں جو ایک تنظیم ‘’ ‘’Narodnaya-Volya کی طرف سے کی گئی۔

1880 سے لیکر 1910 تک یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات ہوئے۔1894 میں فرانسیسی صدر کارنٹ، 1897 میں سپین کا وزیراعظم کانواس قتل ہوئے۔1898 میں آسٹریا میں ملکہ الزبتھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیااور 1990 میں اٹلی کے صدربادشاہ امبر تو کو قتل کر دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کا قیام کروا کرفلسطینیوں کو غلامی کے گڑھے میں دھکیل دیا اور فلسطینی زمینوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی غیر ملکی بن کر مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے حالانکہ یہ سرزمین اُن کا بنیادی حق تھا۔اب ایسے صورتحال میں ابوندال خریت پسند جنم نہ لیتا تو اور کیا ہوتا ؟؟؟؟اس طرح 9/11 کے واقعات ، 2002 میں بھارت میں ٹرین پر حملہ ، پھر لندن بم بلاسٹس اور ممبئی کے حملوں نے دہشت گردی کا ایک نیا باب کھولا۔ان سارے واقعات کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھرایا جاتے ہیں حالانکہ دور اول سے لیکر اب تک جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ان میں سے کہی بھی مسلمان نہ شریک ہوئے اور نہ ہی کہی مسلمانوں کا ذکر ہوا ہے۔اگر آج مغربی میڈیا مسلمانوں کو دہشت گرد ٹہراتے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ نمرود اور فرعون کون تھے ؟؟شودروں کے ساتھ کس نے دہشت گردی کی؟ اورRegime DE-LA Terror کس کا دور تھا ؟دہشت گردی کا لفظ کہا سے اور کیوں سامنے آیا ہے ؟ ‘’ ‘’Narodnaya-Volya تنظیم کا تعلق کس قوم اور مذہب سے تھا اور فلسطینوں کوکس نے غلام بنائے ہیں؟؟ان سارے سوالوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ دہشت گرد مسلمان نہیں بلکہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے یہ ظلم کئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔اﷲ تعالی مسلمانوں کو ان دہشت گردوں سے محفوظ رکھیں۔آمین