عدالت میں سابق اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ اور
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اب عدالتوں کی ساکھ
بھی راکھ میں ملائی جا رہی ہے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو اب عدالتیں بھی بند
ہوں گی دفاتر بھی۔ محبوب شاعر مرحوم منیر نیازی کی رشتہ دار یاسمین خان نے
بتایا کہ مجھے گھر سے بچوں کے سکولوں تک چھ سات ناکوں پر روکا گیا اور سکول
میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ نجانے دہشت گردوں کو کیوں نہیں روکا جاتا۔
تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے حوالے سے شعیب بن عزیز کا فون آیا جسے میں
سیکرٹری اطلاعات کہوں تو دل خراب ہوتا ہے۔ مگر وہ ایک پروفیشنل٬ قابل
اعتماد٬ لائق افسر اور دوست ہے۔ افسر بالعموم دوست نہیں ہوتے اور دوست
بالخصوص افسر نہیں ہوتے اس کی باتوں میں درد مندی تھی سکول بند کئے گئے کہ
طلباء کی زندگی عزیز ہے۔ یہ جو تعلیمی ادارے اربوں کا کاروبار کرتے ہیں۔
لاکھوں میں فیسیں لیتے ہیں۔ انہوں نے ایک ایک سکول سے دس دس پندرہ پندرہ
تعلیمی دکانیں کھول لی ہیں۔ تعلیمی کاروبار کرنے والے اپنے اداروں میں اپنے
سٹوڈنٹس کیلئے سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کرسکتے۔ سب کچھ حکومت والے ہی کریں!
کچھ تو تجارت والے بھی کریں۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اس پر کتنا خرچ آئے گا۔
امیر کبیر بننے کی ہوس دلوں کو بند کردیتی ہے۔ یہاں بھی دہشت گردی کا خطرہ
ہے۔ بچوں سے فیس زیادہ لینا مہنگائی کرنے سے بڑا ظلم ہے یہ کرپشن بھی ہے۔
یہ غریبوں کا زیادہ بڑا استحصال ہے۔
کچہریوں اور عدالتوں کے بند ہونے کا وقت آگیا ہے۔ کھلی کچہریوں کو فوراً
بند کرانا چاہئے۔ یہ ظالم کو اور زیادہ ظالم اور مظلوم کو مزید مظلوم بناتی
ہیں۔ اب کچہریوں اور کھلی کچہریوں میں فرق مٹ گیا ہے۔ درس گاہیں بند ہوئی
ہیں تو عدالتیں بھی بند کر دی جائیں گی۔ نوائے وقت کے عثمان ملک نے اسلام
آباد سے رپورٹ کیا ہے کہ لطیف کھوسہ اور صدر زرداری ملاقات میں اعلیٰ عدلیہ
کے ججوں کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لطیف کھوسہ پیپلز لائرز فورم
کے صدر بھی ہیں۔ اٹارنی جنرل جو بھی آئے وہ لطیف کھوسہ سے مختلف آدمی تو
نہیں ہوگا۔ ایوان صدر کی آشیر باد کے بعد سپریم کورٹ نمبر ون میں لطیف
کھوسہ نے چیف جسٹس پاکستان سے جھڑپ کی اور کہا آپ میرے خلاف مقدمے کی سماعت
نہ کریں۔ سابق اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ مجھے چیف جسٹس نے ہٹوایا ہے۔
جب لاہور ہائیکورٹ میں مجھے جوتیاں دکھائی جا رہی تھیں تو چیف جسٹس نے مجھے
نہ بچایا۔ یعنی چیف جسٹس اٹارنی جنرل کے سیکورٹی گارڈ ہیں؟ کیا اٹارنی جنرل
کو بے عزت ہونے سے نہ بچا سکنے کی کوتاہی کے لئے چیف جسٹس کو دوبارہ غیر
فعال کر دینا چاہئے؟ چیف جسٹس سے آجکل صدر زرداری اتنا ڈرتے ہیں کہ اٹارنی
جنرل کے خلاف الزام آتے ہی انہوں نے اسے نکال دیا مگر اسے ترقی دیکر
وزیراعظم کا مشیر بنا دیا گیا کیا یہ بھی چیف جسٹس کی سفارش پر کیا گیا ہے؟
عدالت کے ساتھ حکومت کے پھڈے کے بڑھنے کیلئے یہ ضروری تھا۔ رحمٰن ملک اور
شوکت ترین کے مشیر بننے کے بعد یہ عہدہ مشیر اعظم کا ہو گیا ہے جس سے
وزیراعظم کو مسلسل دباﺅ میں رکھنا مقصود ہے جو دونوں کے وزیر بننے کے بعد
یہ دباﺅ کچھ دب گیا تھا اب لطیف کھوسہ اس کمی کو کم کریں گے۔
لطیف کھوسہ کیلئے میرا خیال اچھا تھا کہ اس کے لاہور والے گھر میں بے نظیر
بھٹو سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ لطیف کھوسہ کیلئے ججوں کے نام پر کسی سے 30
لاکھ لینے کا الزام ہے مدعی کو کھوسہ صاحب نے کچھ نہیں کہا۔ لڑائی تو چیف
صاحب کے ساتھ کرنا ہے۔ ایوان سیاست و حکومت کی بھی یہی ہدایت ہے اے اے ڈوگر٬
نواز شریف کا وکیل ہے اب وہ کہہ رہا ہے کہ چیف جسٹس کو سوموٹو ایکشن لینے
کا اختیار نہیں۔ دیانت اور استقامت والے ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ عام
لوگوں کی لوٹ مار اور استحصال پر عدالتوں کو خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ بھارت
میں ہم سے بہت زیادہ سوموٹو ایکشن ہوتے ہیں ”مرے کو مارے شاہ مدار“ عوام کے
خلاف متحد ہونے والے حاکموں اور ظالموں کے خلاف چیف جسٹس عدالت اور میدان
کا فرق مٹا دیں۔ مظلوموں کی داد رسی ہونا چاہئے۔
ایک مشورہ میری طرف سے تازہ دم مشیر لطیف کھوسہ کیلئے ہے کہ وہ صدر زرداری
سے ایک دفعہ پھر این آر او جاری کرا دیں۔ تاکہ یہ مقدمہ بھی ختم ہو۔ اربوں
روپے کے مقدمے ختم ہو گئے صدر زرداری بھی صدر مشرف کی طرح بااختیار صدر ہیں
اب لگتا ہے کہ لطیف کھوسہ کے مقدمے کیلئے اس کے بغیر نجات ممکن نہیں سپریم
کورٹ نے پٹرول کی قیمتیں 5 روپے کم کیں تو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 10 روپے
کا اضافہ ہو گیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف صدارتی آرڈیننس زیادہ طاقتور ہے۔؟
چیف جسٹس کو صدر کے اختیارات کا اندازہ ہے۔ صدر کو عوامی ”بے اختیاریوں“ کا
بھی اندازہ ہونا چاہئے۔ صدر مشرف چھپتا پھرتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میں
سب کو نظر آ رہا ہے۔ صدر زرداری کو صدر مشرف والی غلطی نہیں کرنا چاہئے وہ
یہ غلطی نہ کرتا تو شائد.... آج بھی صدر ہوتا۔ سیاستدان اسے آٹھ سال تک نہ
نکال سکے الٹا اس نے انہیں وطن سے ہی نکالے رکھا۔ وہ چیف جسٹس کے لئے
وکیلوں کی تحریک کے زور پر آئے۔ صدر بنتے ہی چیف صاحب کو صدر زرداری بحال
کر دیتے مگر یہ ان کی قسمت میں نہ تھا۔ سابق جج سابق اٹارنی جنرل اور سابق
صدر پاکستان بار ملک قیوم نے کہا کہ اٹارنی جنرل حکومت اور عدالت کے درمیان
پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ لطیف کھوسہ کو عدالت میں اس طرح کی گفتگو نہیں
کرنا چاہئے تھی چیف جسٹس بھی یہ معاملہ چیمبر میں نبٹا لیتے۔ ملک صاحب کی
خدمت میں عرض ہے کہ یہ پل نئے سرے سے بنانا پڑے گا۔ یہ کیس بار کونسل کے
حوالے کر دیا جاتا پھر اس کی اپیل بھی سپریم کورٹ میں ہو سکتی تھی نامور
ایڈووکیٹ ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آخری عدالت ہے اس کے بعد
اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
یہ بات بھی کسی طرف سے آئی ہے کہ عدالت کو قیمتیں طے کرنے کا اختیار نہیں
مگر حکومتیں ذخیرہ اندوزوں اور مافیا کے ساتھ مل کر مہنگائی کریں کہ عام
آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے ہمارے حاکم اور
ظالم چاہتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور
عدالتیں بھی خاموش رہیں۔ علی احمد کرد نے کہا ہے کہ عدالتوں میں فرعون
بیٹھے ہوئے ہیں۔ کرد صاحب کو سیاست میں وکالت اور زندگی کے ہر شعبے میں
فرعون نظر کیوں نہیں آتے فرعونیت ایک ذہنیت ہے یہ کسی وقت کسی پر بھی طاری
ہو سکتی ہے۔ |