قائد لاک اپ میں اور کارکن سڑکوں پر

الطاف حسین باالآخر گرفتار ہوگئے۔متحدہ اورالطاف حسین کے لیے یہ واقعہ بھی تاریخی ہے۔ الطاف حسین کو برطانیہ حکومت نے شہرت دی وہ ایک تاریخی عمل تھا اس تاریخی واقعہ پر انہوں نے برطانیہ کا پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑ کر تصاویر دکھائی اور مسرت کا اظہار کیا ۔تاہم جو کچھ الطاف حسین اور متحدہ کے حق میں نہیں ہوا وہ سازش اور جو ان کے حق میں ہوا وہ تاریخی کہلایا ۔ تاہم عام تاثر یہ ہی رہا کہ سب کچھ سازشوں کے تحت ہی ہوا ۔ سب ہی کو معلوم ہے کہ ’’ الطاف حسین اور سازش ‘‘یہ دو الفاظ اگرچہ بہت جدا ہیں ان میں کوئی مماثلت بھی نہیں ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ الطاف حسین اور متحدہ کے خلاف جتنی سازشیں ہوئی یا بیان کی گئی ہے اس کی کوئی اور مثال سیاسی دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

خیر ابھی ذکر ہے الطاف حسین کی گرفتاری کا، جو متحدہ اور اس کے کارکنوں کے مطابق تازہ ’’ سازش ‘‘ ہے ۔تاہم کراچی سمیت ملک بھر کی اکثریت ماسوائے متحدہ کے کارکنوں کے اسے سازش ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی برطانیہ میں ہوئی ہے اور برطانیہ ایسا ملک نہیں ہے جہاں بغیر ثبوت کے کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا جاتا جبکہ پوچھ گچھ کے لیے برصغیر پاک و ہند کا طریقہ نہیں اپنایا جاتا بلکہ الزام ثابت ہونے تک کسی بھی ملزم پر کسی بھی قسم کا جسمانی تشدد نہیں جاتا۔اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ سازش ہے تو برطانیہ حکومت اور برطانیہ پر سنگین الزام ہے تاہم الطاف حسین برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے والی واحد شخصیت ہونگے جن کے خلاف سازش کی گئی ہے ۔ لیکن یہ سازش اس لیے مشکوک ہوجاتی ہے کہ الطاف حسین اپنے خلاف اپنی سیاسی پیدائش کے ساتھ ہی سازشوں کا واویلہ مچاتے رہے رہے وہ اس حالت میں پاکستان سے لندن چلے گئے ، 90سے لندن بنگلے تک کامیابی سے پہنچ گئے ، اس دوران ان کا وزن 80 کلو سے بڑھ کر ایک سو چالیس کلو ہوگیا ۔مگر سازشیں ہیں کہ ختم ہوکر نہیں دے رہی ۔تھوڑی سی عقل رکھنے والا یہ سوچ سکتا ہے کہ آخر کہ ’’ اتنی مشکلات میں اتنی آسانیاں کیسے ہوگئی ؟ ‘‘ کوئی جادو ہے ؟

بہرحال متحدہ قومی موومنٹ اور الطاف حسین بلا شبہ اپنی تاریخ کے بدترین دنوں میں داخل ہوچکے ہیں جبکہ سیاسی معاملات بھی متحدہ کے ہمیشہ ہی متنازعہ رہے ہیں ، پیپلز پارٹی اور مسلم کی حکومتوں کے ا دوار میں متحدہ حکومت میں رہتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرتی رہی ۔ متحدہ دنیا کی وہ واحد سیاسی پارٹی ہوگی جس کے نظریات واضح نہیں ہے ۔ یہ جہاں حکومت کے خلاف شکایت رکھتے ہوئے حکومت میں رہتی ہے تو وہیں پر حال ہی میں سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت سے ماوورائے عدالت کارکنوں کے قتل پر احتجاج بھی کرتی رہی لیکن ان ہی شکایتوں کے درمیان حکومت میں شامل ہوگئی ۔ شائد متحدہ کا یہ بھی احتجاج کا کوئی طریقہ تھا ؟ متحدہ یہ تو دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے کروڑوں حامی ہیں لیکن اس نے کبھی بھی شفاف الیکشن کا عملاََ مظاہرہ نہیں کیا۔اس کے انتخابی کردار پر ہمیشہ ہی انگلیاں اٹھائی گئیں ۔ کراچی ، حیدرآباد ، اور میرپور خاص کے جتنے لوگ متحدہ کے حامی ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے مخالف بھی ہیں ۔ متحدہ ضرورت کے تحت مہاجر نعرہ لگاتی ہے لیکن دباؤ میں آکر مہاجر لفظ کو بھلاکر ’’ اردو بولنے والے ‘‘اپنا چکی تھی ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ متحدہ کے سب سے زیادہ مخالف مہاجر ہی ہیں جبکہ اسکی سیاست سے سب سے زیادہ مہاجرہی متاثرہوئے ہیں ۔ متحدہ مہاجروں کے تحفظ کے لیے بنی تھی لیکن ان ہی کو متاثر اور غیر محفوظ کردیا ۔تاہم مہاجر اپنے آپ کو کراچی کے غیر مہاجر یا مکس آبادی والے علاقوں کو زیادہ محفوظ اور پرسکون سمجھتے ہیں ۔متحدہ کے اپنے خاص لوگ خود ڈیفینس ، کلفٹن ، ملیر کینٹ اور اسکیم 33 کے علاقوں کو رہائش اور دفاتر کے لیے ترجیح دیتے ہیں ۔

متحدہ کے کارکنوں کی لوگ مخالفت کریں یا نہ کریں لیکن ان سے محبت نہیں کرتے ۔اسے اتفاق کہیں یا اﷲ کا نظام ، الطاف حسین نے گزشتہ انتخابات کے بعد 17مئی کو اپنے خطاب میں رابطہ کمیٹی کے اراکین پر برہمی کا اظہار کیا اور ان کی کراچی کمیٹی سے پٹائی کروائی ساتھ ہی اعلان کیا کہ اب پوری تنظیم کا سخت احتساب ہوگا ، انہوں نے رابطہ کمیٹی کو تحلیل کیا اور ازسر کمیٹی بنائی ہے ۔ اس واقعہ کے بعد کئی معزز رہنماء ناراض ہوئے اور گھروں کو چلے گئے ، دوسرے ہی دن الطاف حسین نے دوبارہ خطاب کرتے ہوئے کراچی کمیٹی کو ختم کردیا اس کمیٹی کے سرکردہ حماد صدیقی اور دیگر اپنی معطلی یا برطرفی کے بعد ملک چھوڑ کر اطمینان سے دبئی منتقل ہوگئے ۔ اسی تاریخی خطاب میں الطاف حسین نے کراچی میں اپنے کارکنوں پر اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں کی ’’ چائنا کٹنگ ــ‘‘ میں ملوث ہونے کا واضح الزام عائد کیا تھا ۔کسی کو کس حد تک بھی برا لگے مگر مجھے یہ سچ کہنے میں کوئی ڈر نہیں کہ متحدہ کے قائد شائد اس لحاظ سے بھی منفرد شخصیت ہے کہ جو اپنی ہی تحریک اور کارکنوں کو اپنی ہی زبان سے بدنام کرتے رہے باآواز بلند ان کی تذلیل کرتے رہے جس کے نتیجے لوگ ان سے دور ہوتے رہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ الطاف حسین کے پرانے اور قریبی ساتھیوں میں سے بہت سارے دنیا میں نہیں ہیں یا پھر ان سے بہت دور ،جو ان کے قریب ہیں وہ بھی شائددلی طور پر ان سے دور ہیں ۔

مجھے وہ تقریر آج بھی یاد ہے جس میں الطاف حسین نے بڑے جلسے میں عامر خان اور آفاق احمد کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اپنا ’’ بایاں اور دایاں بازو قرار دیا تھا ‘‘ اور پھر وہ دن بھی یاد ہے جب ان دونوں کو ’’ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے ‘‘ کے نعرے کے تحت تحریک سے علیحدہ کرکے دنیا سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ان کو ان کے علاقوں سے در بدر کردیا گیا اور پھر بعد میں عامر خان کو دوبارہ گلے لگالیا گیا ۔ اس دوران جو سینکڑوں نوجوان ’’ قائد کا غدار ہے موت کا حق دار ہے ‘‘ کے نعرے کے تحت اپنی جانوں سے چلے گئے ۔۔۔۔کیا ان کا حساب کوئی دے گا ؟ کیا اﷲ ان لوگوں کے قاتلوں کو معاف کردے گا ؟

میں ذکر کررہا تھا الطاف حسین کی گزشتہ الیکشن کے بعد کی تقریر یا تقاریر کا جس نے بہت سے رہنماؤں کوان دور کیا ان رہنماؤں کو صرف یہ شکایت ہے کہ انہیں عام کارکن کے سامنے بھی ’’ برا بھلا یہاں تک کے مغلظات بھی بکیں جاتی ہیں ‘ ‘ ۔

اسی وجہ سے انیس قائم خانی ، مصطفی کمال اور بہت سے کارکنوں متحدہ سے دور ہوگئے۔بعد ازاں سلیم شہزادنے بھی تحریک کو خیر باد کہہ دیا۔

الطاف حسین آج برطانیہ پولیس کی لاک اپ میں ہیں تو حیرت کی بات نہیں وہ 1988میں بھی حیدرآباد پکا قلعہ کے تاریخی جلسے کے بعد گرفتارہوکر کراچی کے سی آئی اے پھر ڈاکس پولیس اسٹیشن کی لاک اپ میں دن گزار چکے ہیں ۔اس وقت بھی ایم کیو ایم نے پریس ریلیز کے ذریعے یہ ہی مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس کے قائد اور اس کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں ۔

متحدہ اور الطاف حسین کی طاقت کے اظہار اور جھوٹ کو سچ ظاہر کرنے کی پالیسی نے اسے شہرت تو بہت دی اور مگر وہ اس طرح مقبول نہ ہوسکی جس طرح کے وہ دعوے کرتی رہی اور کرتی ہے ۔اس پالیسی نے متحدہ کو نقصان بھی پہنچایا مگر پھر بھی یہ سلسلہ جاری رہا ، حد تو یہ کہ جب الطاف حسین کو لندن پولیس گرفتار کرکے لے جاچکی تھی تب بھی متحدہ کے طویل عرصے تک خاموش رہنے والے ندیم نصرت ٹیلی فون پر آئے اور انہوں نے یہ ہی کہا کہ الطاف حسین گھر پر ہی ہیں انہیں گرفتار نہیں کیا گیا پولیس ان سے بات چیت کررہی ہے۔

الطاف حسین کارکنوں کو اپنی جس تربیت کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے رہنما اور کارکن الطاف حسین کی تربیت کا حوالہ دیئے بغیر کوئی بات مکمل نہیں کرتے ، کیا ان کی یہ ہی تربیت ہے کہ ’’ جھوٹ اتنا بولوکہ سچ لگے ‘‘ ؟

مصطفی عزیز آبادی جو الطاف حسین کے قریبی ساتھی ہیں اور زیادہ قریب رہتے تھے ( الطاف کی گرفتاری سے قبل تک ) جھوٹ بولنے کے ایسے ماہر ہیں کہ جب لندن پولیس نے الطاف کے گھر پر دسمبر2012 میں پہلا چھاپہ مارا تو انہوں نے بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے اس چھاپے سے مکمل انکار کردیا اور اپنے جواب میں وزن پیدا کرنے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’ اخبار والے ناجانے کہاں سے یہ الٹی سیدھی خبریں لاکر چلادیتے ہیں ‘‘۔ مصطفی بہت معصوم ہیں مجھے اس شخص سے بہت محبت ہے کیونکہ میں ان کے والدین سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان کی عزت کرتا ہوں ، مجھے مصطفٰی کے سب سے بڑے بھائی بھی بہت عزیز ہیں ۔ مصطفی ،ان کے والدین اور چار بھائیوں کا تعلق کبھی بھی عزیزآباد سے نہیں رہا بلکہ وہ آج بھی لانڈھی میں اپنے 80گز کے گھر میں ہی رہتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ مصطفی کے والدین اور بڑے بھائی تو کبھی عزیزآباد گئے بھی نہیں ہونگے ۔لیکن مصطفی کو الطاف حسین کی وجہ سے عزیزآباد سے ایسی محبت ہوئی کہ انہوں نے اپنا نام مصطفی علی سے مصطفی عزیزآبادی کرلیا۔

بات ہورہی ہے کہ اب کیا ہوگا ،؟ کیا الطاف حسین جیل سے متحدہ کی قیادت کریں گے ؟ آج متحدہ بند گلی میں پہنچ چکی ہے تو اس لیے نہیں کہ الطاف حسین گرفتار ہوگئے بلکہ اس لیے کہ متحدہ کے قائد نے اسے اپنی ذات سے آگے بڑھنے نہیں دیا نتیجہ میں ’’ جوقائد کا غدار ہے موت کا حقدار ہے ‘‘ اور ’’ منزل نہیں قائد چاہیے ‘‘ کے مکروہ نعرے تخلیق کیے گئے اور آج تک الطاف حسین نے اپنا نائب بھی کسی نامزد نہیں کیا۔۔ آج قائد ’’ لاک اپ میں اور کارکن سڑکوں پر ہیں ‘‘ ۔ کیا اسی بات کے لیے 32 سال سے جدوجہد کی جارہی تھی ؟ ؟

الطاف حسین اور متحدہ کے بارے میں ہمارے دانشور اور بڑے بڑے صحافی بہت محتاط تجزیے کرتے ہیں اور لوگوں کو اس معاملے میں سچ اور حق بتانے سے گریز کرتے ہیں ، اس کی وجہ ، کے بارے میں صحافی اور دانشور نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ’’ ہاں میں ڈرتا ہوں کیونکہ مجھے بھی جیناہے ‘‘ ۔

سوال یہ ہے کہ جب ہر کوئی ہر سطح پرمتحدہ سے ڈر رہا ہے تو اس کیا وجہ ہے ؟ پھر کس طرح متحدہ اپنے آپ کو عام سیاسی جماعت اور عام لوگوں کی تحریک کہہ سکتی ہے ؟ کیا لوگ ہر سیاسی جماعت سے اسی طرح ڈرتے ہیں ؟ کیا حساس اداروں کے افراد بھی ہر سیاسی جماعت سے خوفزدہ ہیں ؟ کیا ہر سیاسی جماعت ملوں اور فیکٹریوں اور کوچنگ سینٹرز سے پوری پوری شفٹ جلسوں میں لاسکتی ہے ؟

صحافی ولی بابر کیس میں جن لوگوں کو سزائیں ہوئی وہ کون ہیں اور متحدہ کے کارکن صولت مرزا جیل میں پھانسی کی سزا کا انتظارکرتے ہوئے اس سے بچنے کی دعائیں کررہے ہیں تو کس کی وجہ سے ؟

کڑو اسچ یہ ہے کہ الطاف حسین اور ان کی سیاست نے دانستہ یا نا دانستہ مہاجر قوم کی دیانت ، ثقافت ، شرافت ، علمیت اور اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔۔۔۔ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کو ’’ مہاجر ‘‘ شناخت دی ہے ورنہ پاکستان میں پنجابی ، پٹھان ، بلوچ ، سندھی ہزاروی ،سرائیکی کے ساتھ ایک اردو بولنے والے تھے ۔ لیکن شکریہ الطاف بھائی اب ہم اردو بولنے والے نہیں بلکہ ’’ مہاجر ‘‘ ہیں ۔ تمام دیگر قومیتوں کا بھی شکریہ کہ سب نے انہیں مہاجر تسلیم کرلیا، سب نے ہمیں مہاجر تسلیم کرلیا ۔

الطاف حسین کو یہ ثابت کرنا چاہیے تھا کہ وہ قوم ، اپنے مشن ، اپنے جملوں اور تحریک سے مخلص ہیں لیکن ہر کڑے وقت میں انہوں نے صرف اپنے آپ کو بچایا اور خوفزدہ لوگ ان کی ہاں ہاں ملاتے رہے ۔انہوں برٹش پاسپورٹ ملنے کے بعد پاسپورٹ دکھاتے ہوئے جو وکٹری کا نشان بناکر تصاویر کھنچوائی تھی وہ آج کو ایک نئی تصویر بن چکی ہے ۔ الطاف حسین کا جھوٹ آج ان کے سر پر آچکا ہے ، الطاف ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ ’’ مجھ پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ میں نے اپنی جائداد بنالی جبکہ میری کوئی جائیداد نہیں ہے کوئی گھر نہیں ہے ماسوائے عزیز آباد کے ایک سو بیس گز گھرکے، جبکہ ان کی گرفتاری لندن کے جس بنگلے سے ہوئی وہ ان کے الفاظ کی نفی کرتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ سیاست میں سچ اور جھوٹ ، ایماندازی اور بے ایمانی کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ سیاست کی اپنی زبان ہوتی اوراس کا اپنا طور طریقہ ہوتا ہے ۔مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ متحدہ نے جس زبان ، جس طریقہ کار کو استعمال کیا دنیا بھر کی سیاست میں اس کی مثال نہیں ملتی بلکہ یہ بھی ایک ’’ تاریخی مثال ‘‘ ہے ۔

الطاف حسین عمر کے جس حصے میں داخل ہوچکے ہیں وہاں اب صرف عمر کی اہمیت ہے شائد یہ ہی وجہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ان کی گرفتاری کی اطلاع ’’ ایک ساٹھ سالہ ‘‘ شخص کے عنوان سے دی ہے اس نے یہ نہیں کہا کہ متحدہ کے قائد یا کروڑوں لوگوں کے قائد کو ہم نے گرفتار کرلیا ہے ۔الطاف حسین کی گرفتاری پر ان کے کارکن یا چاہنے والے اسی ردعمل کا اظہار کررہے ہیں جس کا درس الطاف حسین دیتے رہے لیکن کیا اس احتجاج سے الطاف حسین قانونی کارروائی سے بچ سکیں گے ؟ ایسا لگتا نہیں ہے کیونکہ برطانیہ نے کراچی میں موجود اپنا ہائی کمیشن بند کردیا ہے اور برطانوی حکومت نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ کراچی کا دورہ کرنے سے گریز کریں ۔ برطانیہ کے ان اقدامات سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں الطاف حسین کے خلاف کارروائی مزید آگے بڑھے گی اور اس کا اختتام حتمی قانونی نتیجہ کے مطابق ہی ہوگا۔

الطاف حسین کی گرفتاری کے حوالے سے عام مہاجروں میں سوال اٹھ رہا ہے جبکہ غیر مہاجر بھی طننزیہ انداز میں یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’’ مہاجر سیاست اب کا کیا ہوگا ؟ ‘‘ اس کے جواب میں صرف یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ سیاست یا تحریکیں شخصیتوں کی نہیں ہوتی قوم کی ہوتی ہیں جب تک دیگر پاکستانی زبانوں کے حوالے سے دیگر لوگ سیاست کرتے رہیں گے اس وقت تک مہاجر سیاست بھی رہے گی اور مہاجر ثقافت کا بھی پرچار ہوگا۔اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ مہاجر سیاست ختم ہوجانی چاہیے تو ان لوگوں کو بھی دیگر زبانوں کی سیاست اور زبانوں کا فروغ بند کرنا ہوگا ۔ تعصب سے گریز کرنے کا درس دینے والوں کوبھی دیگر زبانوں کے لوگوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جبکہ حکومت کو کراچی اور ان شہروں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے جہاں مہاجروں کی اکثریت آباد ہے۔ جبکہ امن و امان ،روزگار ، سستی تعلیم و رہائشی اسکیمیں کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والوں اور حقیقی کراچی والوں کے کے لیے فوری متعارف کرنی چاہیے ، تعمیراتی منصوبوں کو فوری مکمل کرانا چاہیے -
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165757 views I'm Journalist. .. View More