جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
3 جون کو بیک وقت دو سانحے رونما
ہوئے ۔ایک تو بالآخر لندن پولیس کے ’’بدمعاشوں‘‘ نے ہمارے الطاف بھائی کو
’’دَھر‘‘ لیااور ایم کیو ایم نے ’’دَھرنا ‘‘دے کر پورے کراچی کو مفلوج کر
دیا اور دوسرے ہمارے پیارے ’’اسحاق ڈالر‘‘ صاحب نے پرانے بجٹ کو نئے کپڑے
پہنا کر میاں نواز شریف صاحب سے ’’شاباشی‘‘بھی بٹور لی اور اُن کے ساتھ ’’ہَتھ‘‘بھی
کرگئے۔اب سارے کاروباری دھڑا دھڑ قیمتیں بڑھانے میں مصروف ہیں اور گورنمنٹ
ملازمین سڑکوں پر، جو 10 فیصد اضافے کو اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف
قرار دیتے ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ یہ ملازمین ہفتہ ، دَس دن ’’پھینٹی‘‘ کھا
کر اُسی تنخواہ پہ گزارہ کرتے نظر آئیں گے ۔ایم اے تک اکنامکس ہم نے بھی
پڑھی اور نچوڑ یہ نکالا کہ غالب اکثریت کی اکنامکس پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ
پر ہی ختم ہو جاتی ہے لیکن ڈار صاحب کی اکنامکس میں توپیٹ کا سِرے سے ذکرہی
نہیں ہوتا۔اب تو ہم بھی شیخ رشید کی طرح یہ کہنے پر مجبورہیں کہ اسحاق
ڈارصاحب کو اکنامکس کاتو ’’کَکھــ‘‘ پتہ نہیں البتہ اُنہوں نے دُنیا کی
طویل ترین بجٹ تقریر کرکے ’’گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں اپنا نام
ضرورلکھوا لیا ۔ جو بجٹ تقریر سُننے کے لیے پارلیمنٹ میں ’’پھنس‘‘ گئے ،
اُنہوں نے سوتے جاگتے اور اونگھتے یہ تقریر سُنی اور بجٹ تقریر کے خاتمے پر
کانوں کو ہاتھ لگایا کہ اب کبھی ڈار صاحب کی بجٹ تقریر نہیں سُنیں گے ۔ہم
نے بھی بڑے شوق سے یہ تقریر ُسنناا شروع کی لیکن ڈار صاحب نے ابھی پَون
گھنٹے کی تمہید ہی باندھی تھی کہ بجلی داغِ مفارقت دے گئی ۔ایک گھنٹے کے
کَربناک انتظار کے بعد جب بجلی لوٹی تو ڈار صاحب کوموجود پایااور ہم آلتی
پالتی مار کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے۔ڈار صاحب کی نامکمل تقریر کے دَوران
ہی بجلی پھر چلی گئی اور جب دوسری بار لوٹی تو ڈار صاحب پھر موجود ۔ہم اِس
بجٹ تقریر سے مایوس تو ضرور ہوئے لیکن ’’بور‘‘ہر گز نہیں کیونکہ سینکڑوں
اقساط پر مشتمل ’’سٹار پلَس‘‘ کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر ہمارا ’’سٹیمنا‘‘ بہت
بڑھ چکا ہے اِس لیے ڈار صاحب کی اِس ’’طویل دَورانیے‘‘ کی تقریر نے ہمیں
اُونگھ تک نہیں آئی۔لوگ کہتے ہیں کہ ہم نواز لیگ کے ’’کاسہ لیس‘‘ اور
’’بھاڑے کے ٹٹو‘‘ہیں اور ہم نے لوگوں کیی ایسی باتوا¡ کا کبھی بُرا بھی
نہیں مانا لیکن نواز لیگ نے تو اِس بجت میں ہمارے ’’کاسے‘‘ میں کَکھ نہیں
ڈالا۔اب بجٹ کی تعریف کریں بھی تو کیسے ؟۔لیکن کوشش کرنے میں ہرج نہیں
ہوتااِس لیے ہم نے بھی بہت ’’مَتھا‘‘ مارا لیکن ناکام رہے۔ اب کی بار
قارئین اِس ’’کَڑوے کسیلے‘‘ کالم پر ہی گزارہ کریں۔
کہا جا رہا ہے کہ بجٹ متوازن اور عوام دوست ہے لیکن 14 کھرب خسارے کا بجٹ
متوازن ہو سکتا ہے ، نہ عوام دوست۔جب بجٹ خسارے کا ہے تو پھر خود انحصاری
کی منزل بھی دور ہے اوریہ خسارہ بھی ہمارے خون سے ہی کشید کیا جائے گا ۔
شاید اسی لیے بجٹ تقریر کے فوراََ بعدحمزہ شہباز نے بَر ملاکہہ دیا کہ عوام
کو ’’کڑوی گولی‘‘ نگلنی پڑے گی ۔یہ کڑوی گولی پچھلے بجٹ پر وزیرِ اطلاعات
پرویز رشید کھلا رہے تھے ، اِس بجٹ پرحمزہ شہباز صاحب اور ہو سکتا ہے کہ
اگلے بجٹ پر خادمِ اعلیٰ بھی یہی کڑوی گولیاں لے کر عوام کے پیچھے بھاگتے
نظر آئیں ۔کیا میاں نواز شریف صاحب قوم کو کڑوی گولیاں کھلانے پر اسحاق ڈار
صاحب کو مبارک باد دے رہے ہیں ؟۔ کیا وزیرِ اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کا ’’خرچہ‘‘
بڑھانا ضروری تھا؟۔کیا 25 کروڑ کی گاڑیاں منگوائے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا
؟ ۔بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کو 118 ارب تک بڑھا کر کیا حکومت قوم کو بھکاری
بنانا چاہتی ہے ؟اور یہ وزارتوں کے سیکرٹ فنڈز کیا بَلا ہیں ؟۔
حکومت نے گھی ، تیل اور سیمنٹ تو مہنگا کر دیا لیکن 1800 CC سے زائد گاڑیوں
پر ٹیکس اور ڈیوٹی کم کر دی ۔ڈار صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ گھی کو تومہنگا
ہونا ہی چاہیے کہ اس سے کولیسٹرول بڑھتا ہے جو دِل کے دورے کا سبب بنتا ہے
اور غریب عوام پرویز مشرف تو ہیں نہیں کہAFIC کے وی وی آئی پی رومز میں
مہینوں استراحت فرماتے رہیں اِس لیے اُنہیں گھی ، تیل کے بغیر ہی سبزیاں
اُبال کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہیے بشرطیکہ اُن کی جیب سبزیاں خریدنے کی
اجازت دیتی ہو۔ڈار صاحب کے خیال میں سیمنٹ کے مہنگے ہونے کا بھی غریبوں پر
کچھ اثر نہیں پڑتاکہ اُنہوں نے کونسا محل کھڑے کرنے ہوتے ہیں ۔وہ تو اپنی
’’کچی کٹیا ‘‘میں ہی مگن رہتے ہیں ۔ 1800 CCسے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس ، ڈیوٹی
کم کرنے کا کم از کم اتنا فائدہ تو ضرور ہو گا کہ دُنیا کو یہ پتہ ضرور چل
جائے گا کہ ہم کوئی ’’بھوکے ننگے ‘‘ نہیں اور یہ جو ہم کشکولِ گدائی لیے
دَر دَر پھرتے رہتے ہیں ، وہ تو ہماری عادت ہے ضرورت نہیں۔رہی فون کالز پر
ٹیکس ، ڈیوٹی کم کرنے کی بات تو ’’ویہلے عاشقوں‘‘ کو نوید ہو کہ اسحاق ڈار
صاحب نے اُن کی بیقراری کو بھانپتے ہوئے کال ریٹس مزید کم کر دیئے ہیں ۔اب
وہ چاہے ساری رات کال کرتے رہیں اُن کی جیب پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔
دروغ بَر گردنِ راوی، ہمارے حکمرانوں نے حکومتِ برطانیہ سے درخواست کی تھی
کہ اگرالطاف بھائی کو گرفتار کرنا نا گزیر ہے تو 3 جون کو کیا جائے تاکہ
حکومت سکون سے بجٹ پیش کر سکے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ بجٹ پر سب سے زیادہ
’’رَولا‘‘ ایم کیو ایم ہی ڈالتی ہے ۔اُدھر بجٹ تقریر کی تیاریاں ہو رہی
تھیں ، اِدھر الطاف بھائی کو لندن میں حراست میں لے لیا گیا جس پر ایم کیو
ایم اپنے ’’سیاپے‘‘ میں پڑ گئی ۔نیوز چینلز بھی اسی’’بریکنگ نیوز‘‘کے پیچھے
ہاتھ دھو کر پڑ گئے اور کسی کو بجٹ کا دھیان ہی نہ رہا ۔اب بھی نیوز چینلز
پر الطاف بھائی ہی چھائے ہوئے ہیں اور بجٹ کا دور دور تک نام و نشان نہیں ۔الطاف
بھائی شدید علالت کے باعث لندن کے ولنگٹن ہسپتال میں داخل ہیں ۔اﷲ سے دعا
ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر ’’بڑھکیں‘‘ لگاتے گھر لوٹیں کیونکہ’’ اُن کی
بڑھکوں کے سوا دُنیا میں رکھا کیا ہے‘‘۔ہم ڈرتے ڈرتے ایم کیو ایم سے یہ
سوال کرتے ہیں کہ الطاف بھائی کو تو لندن کے ’’بدمعاشوں‘‘ نے گرفتار کیا ہے
، اِس میں بیچارے پاکستان ، خصوصاََ سندھ، کا کیا قصور ؟۔یہ تو وہی ہوا ’’
ڈِگا کھوتے تَوں ، کَن مروڑے کمہاری دے‘‘(گِرا گدھے سے ، کان مروڑے کمہارن
کے) ۔منیر نیازی نے کہاتھا
جُرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھرمیں نے جوبویا نہیں
ایسا ہی کچھ ایم کیو ایم بھی پاکستانیوں کے ساتھ کر رہی ہے ۔اُس نے مارکٹیں
کھولنے کی ڈھیلی ڈھالی اپیل تو کر دی لیکن ہمارے الطاف بھائی کا ’’ٹہکا‘‘
ہی اتنا ہے کہ مارکٹیں کھُل سکیں ، نہ ٹرانسپورٹ بحال ہوئی۔بہرحال ایم کیو
ایم نے بھی اِس شدید ترین ٹینشن کے باوجود اپنا حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے جس
طرح اپنے کارکنان کو کنٹرول کیا وہ لائقِ تحسین ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ الطاف بھائی کی گرفتاری کا سب سے زیادہ فائدہ حکمرانوں کو
ہوا کہ اب کی بار بجٹ پر کوئی ’’ رَولا‘‘ پڑا ، نہ ہَلّا گُلّا ہوا اور سب
سے زیادہ نقصان ہمارے مُرشد ڈاکٹر طاہر القادری کو کہ اُن کا انقلاب اسی
’’رَولے گَولے‘‘ میں گُم ہو گیا ۔لندن سے تو یہ خبریں آ رہی تھیں کہ ہمارے
مُرشد ’’چوہدری برادران‘‘ کے کندھوں پر سوار ہو کر اسی ماہ پاکستان تشریف
لا رہے ہیں کیونکہ اُنہیں خواب میں ’’بشارت‘‘ ہوئی ہے کہ ’’کُرسی‘‘ اُن کے
انتظار میں اشکبار ہے لیکن الطاف بھائی نے گرفتار ہو کر اُن کی ساری
بشارتوں کا ’’سَوا ستیاناس‘‘ مار دیا ۔پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ مُرشد جلد
آئیں گے اور چھا جائیں گے البتہ چوہدری برادران کو ذرا محتاط رہنا پڑے گا
کیونکہ مُرشد جس کے کندھوں پر سواری کرتے ہیں ، اُسی کی جَڑوں میں بیٹھنے
کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ ایک بار میاں نواز شریف صاحب بھی ہمارے مُرشد کو
اپنے کندھوں پر بٹھا کر غارِ حرا تک لے کر گئے تھے ۔اُس کے بعد میاں صاحب
کے ساتھ کیا ہوا ، وہ سب تاریخ ہے ۔ |
|