پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ ان
نظریات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس میں اسلامی مذہب ، ثقافت ، رسم و رواج
، عقائد ، لسانی و نسلی امتیاز واضح نظر آئیگا۔ ایسی قوم جس کے نظریات الگ
الگ ہیں۔۔۔ اس کی بقا اور تحفظ صرف اور صرف ایک علیحدہ آزاد خطہ کی صورت
میں ہی ممکن تھی ۔جہاں مسلمان اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی بسر کر سکیں
۔ برصغیر کے مسلمان اکابرین نے الگ ریاست کا مطالبہ کیا اور دو قومی نظریہ
کے تحت پاکستان اور ہندوستان کرہ ارض پر نظر آنے لگے ۔ملک الگ ہوگئے ۔
نظریات الگ ہوگئے ،آزاد فضا قائم ہوگئی ۔ْ۔۔ مگر ہندوستان نے آج بھی
پاکستان کے وجود کو قبول نہیں کیا۔ہندوستان پاکستان کا سوتیلا بھائی ہے۔۔۔
جو شروع سے پاکستان کو مٹانے اور امن کو تباہ کرنے پر درپے ہے ۔ بظاہر امن
کی آشا جیسی فضا قائم کرتا ہے۔ مگر مسلمانوں کے خلاف سازش اور جانی نقصان
پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کرتا ۔بھارت کبھی بھی پاکستان میں امن کا خوائش
مند نہیں رہا ۔ بی جے پی ہو ،یا کانگریس کی حکمرانی ہو، امن کی آشا ہو ،یا
پھر امن بس ہو۔۔۔ دوستی کسی صورت بھی پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔ حال ہی میں
بھارت میں عام انتخابات زور وشور سے جاری رہے۔ پاکستانی میڈیا نے اس عمل کو
ضروری سمجھا اور صبح شام بھارتی انتخابات کو کوریج دی۔ خیر بھارتیہ جنتا
پارٹی نے کامیابی حاصل کرلی۔ پاکستانی عوام نے جیسے پی پی پی کو شکست دیکر
نواز شریف کو اعتما د کا ووٹ دیا۔۔۔ اور ایک بار پھر شریف خاندان کو آزمانے
پر افسوس کر ینگے۔۔۔ بالکل اسی طرح بھارتی عوام نے کانگریس کو ہرا کے بی جے
پی کو ایک بار پھر سربراہ بنا دیا ہے۔ اس پارٹی نے ماضی میں ہندو مسلم
فسادات کو ہوا دی ۔ مودی صاحب جو متوقع بھارتی وزیراعظم ہیں و ہ پر تشدد
قوم پرست شخصیت کے مالک ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے
مودی کو ٹیلی فون پر مبارکبار پیش کی اور جناب کو پاکستان کے دورے کی پیشکش
بھی کر دی۔۔۔۔ یہ ہی نہیں بلکہ پاک بھارت اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کے
خوائش مند اور پر امید نظر آتے ہیں۔شریف خاندان شائد کمزور خافظے کا مالک
ہے۔ شائد انھیں یاد نہیں کہ حال ہی میں میرٹھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم
کشمیریوں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔۔۔جنہوں نے پاکستان کی فتح
کا جشن منایا ۔۔ یہ ہی نہیں بلکہ انتہا پسندوں نے 130طالبعلموں کو
یونیورسٹی سے نکال دیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے دہلی میں ایک اور شرمناک
واقعہ ہوا۔ جس میں ہندو انتہا پسندنوجوانوں نے ہاسٹل میں کشمیری طالبعلم کے
کمروں میں گھس کر ان پر تشدد کیا۔ ۔۔ اس طرح کے متعدد واقعات نے کشمیری
طالبعلموں اور مسلمانوں کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھارت میں
محفوظ نہیں ہیں ۔ لیکن پاکستان میں شریف حکومت نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند
کرکے پاک بھارت امن اور مودی سے ہاتھ ملانے کے انتظار میں ہے ۔
بھارتی عوام نے مودی کا چناؤ تو کر لیا ہے۔ لیکن یہ چناؤ پاکستان کیلئے
خطرے کی گھنٹی ہے ۔ مودی کا ماضی اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ
وہ مسلمانوں کے حق میں ایک شدت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں۔ مودی کی شخصیت ایسی
قبیح سو چ کی مالک ہے کہ ماضی میں امریکی حکومت نے مودی کو امریکی سر زمین
پر پاؤں رکھنے تک کی اجازت نہیں دی تھی ۔ انتخابات کے دوران یہ بات بھی
سامنے آگئی کہ مودی بھارت کو ہندو پرست ملک بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس کوشش
سے دنیا کو تو کوئی فرق پڑ ے یا نا پڑے مگر پاکستان کو فرق پڑتا نظر آتا ہے
۔ ہندو پرست ملک بنانے سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کی ایک ایسی گہری
سازش رچی جا رہی ہے ۔ اسی مودی نے بابری مسجد کی جگہ مند ر تعمیر کرنے کا ا
علان بھی کیا ۔ اس کے علاوہ 2002ء میں ہندو مسلم فسادات کروا کر مسلمانوں
کو قتل کر ادیا۔ گجرات میں مسلمانوں کی حالت قابل رحمہے مودی نے ہی ماضی
میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا ۔ یہ ظلم و ستم انتظامیہ
کے سامنے ہوتا رہا مگر اس ظلم کی روک تھام میں کسی نے کوئی جرات نہ کی اور
مودی نے اس قتل عام پر اظہار افسوس تک نہ کیا۔ مودی کے ماضی کی چند جھلکیاں
یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بھارتی عوام کا یہ سیاسی فیصلہ
پاکستان کیلئے کس قدر نقصان دہ ہے ۔اب جبکہ مودی کی کی پارٹی فتح حاصل کر
چکی ہے ۔ اور مودی جلد ہی وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے لیکن اس حلف سے پاک
بھارت کشیدگی میں بھرپور اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔ مودی کا خمیر جنگ سے
سکون پاتا ہے۔ لہذا حلف کے بعد مسئلہ کشمیر پر جنگ ہو سکتی ہے ۔ بحیثیت
مسلمان ہمیں کشمیری مسلمانوں کے دکھ درد کا احساس ہونا چاہیے ۔ کشمیر کا
مسئلہ کانگریس کے دور کی غداری کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے بھارتی میں کوئی بھی
جماعت اس سنگین مسئلے پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ ہر دو رمیں
کشمیریوں کے جذبات مجروح کیے گئے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے دوران انتخابات
دفعہ 370 کے خاتمے کا واضح طور پر اظہار کر دیاہے۔ اس فیصلے سے بھارتی
حکمرانوں کی سازش منظر عام پر آگئی ہے ۔ واجپائی کا دور بابری مسجد کی
شہادت اور افضل گورو کی پھانسی ، کشمیری طالب علموں پر تشدد جیسے کالے
کرتوتوں پر مشتمل تھا ۔۔۔ اور اب مودی کا دور کشمیریوں کی شخصی آزادی پر
گھیرا تنگ کرنے کا دور نظرآرہا ھے ۔ ماضی میں مودی کے انتقام سے مسلمان
برادری کو شدید دھچکا لگا اور اب مودی پارٹی کی جیت سے مودی کے شعلوں سے
بھرپور ارادے بلند ہو چکے ہیں ۔ان شعلوں کی زد میں پاکستان صف اول ہے
بلاشبہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی مودی کو مبارکباد کا فون کر دیا ہے
اور امریکی بھارتی تعلقات مستحکم کرنے کی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ مگر
اس صورتحال میں پاکستان کو نئی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا۔ مودی کی پارٹی
نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک سے سختی کا رویہ اپنائے گی ۔
کنٹرول لائن پر شدت اختیار کی جائیگی۔ گاؤ ماتا کی قربانی ، کٹائی پر
پابندی لگائی جائیگی ۔ ۔۔۔ اس قسم کے اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی
وقت نیوکلیئر وار ہو سکتی ہے ۔ اس امر کا تقاضا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو
اب عقل آجانی چاہیے کہ سیاست چائے کا کپ نہیں رہی۔۔۔ چسکیوں کا وقت ختم ہو
چکا ہے ۔ اب انھیں عملی طور پر میدان میں اترنا پرے گا اور ملک کی جڑوں کو
مظبوط کرنا ہوگا ۔کیونکہ بھارت میں مودی کا چناؤ پاکستان میں امن و سکون کے
کٹاؤ کا سبب بن چکا ہے۔ |