سیاست بھی واقعی گرگٹ کی مانند رنگ بدلتا ہے۔ پل پل اپنا
ڈھنگ تبدیل کرتا ہے۔ جیسے انتخابات میں سیاستداں اپنے حریفوں پر لعن طعن
اور الزامات کی بوچھار کرتے ہیں اور جب اپنی محفل سجاتے ہیں تو ان کے جیسا
کوئی دوست کرّۂ عرض پر ہی نہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کا عمل کچھ اور ہوتا ہے
اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے سیاست کا عمل کچھ اور ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں
اقتدار اور سیاست نے ایک سال قبل نئی کروٹ لے چکی ہے، اس کروٹ نے نہ صرف
برصغیر کے سیاسی اُفق پر نئی لالی بکھیر دی تھی بلکہ ملکی سیاست کے
چوہدریوں کو بھی اپنا رُخ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مگر سیاست ایسا
کھیل ہے کہ بس!گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ۔ کبھی سب مل کر اقتدار
بانٹتے ہیں اور کبھی اتنی اکثریت مل جاتی ہے کہ کسی اور جماعت کی ضرورت ہی
نہیں رہتی۔ بات یہ ہے کہ اس طرح ہونا نہیں چاہیئے چاہے اکثریت کم ہو یا
زیادہ ، اقتدار میں سب مل کر حکومت کریں تو زیادہ اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب
سب مل کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھیں گے تو الزامات اور قصور وار کوئی نہیں
رہے گا، اب ایسا تو نہیں ہونا چاہیئے نا کہ اکثریت مل گئی تو کسی اور جماعت
کی طرف دیکھنا بھی محال اور اگر اکثریت نہیں ملی تو ملک میں چھوٹی سیاسی
جماعتوں کے مرکز پر بِچھے چلے جاتے ہیں۔ اس دو رُخی سیاست کو ملک سے ختم
کرنا ضروری ہے۔ مستحکم سیاست ہی ملکی ترقی میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ اسی الگ
الگ کی خامی کی وجہ سے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاست نے پھر کروٹ
لینا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک انقلاب کے لئے پَر تول رہی ہے تو
پی ٹی آئی بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے۔ پی اے ٹی کی جھولی میں ابھی
تو صرف چوہدری برادران یعنی کہ مسلم لیگ (ق) والے ہی گئے ہیں مگر ایسا
محسوس کیا جا رہا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تحریک کافی مضبوط ہو سکتی ہے۔
کاش اب کے کچھ ایسا ہو
دوغلی سیاستیں ہار جائیں
منافقتیں اپنی اپنی سرحدوں پر
سر پٹک کر دَم توڑ جائیں
لیکن اس فکر و فلسفہ کے برعکس یہا ں یہ بات بالکل مصمم ہے کہ پاکستان کی
موجودہ حکومت کچھ کوششیں تو کر رہی ہے کہ ملکی حالات بہتر ہو جائیں، اب یہ
ان کی قسمت ہے کہ ابھی تک کسی بھی شعبے میں بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ بجلی
کو ہی لے لیں ابھی تک وہی پرانی روش جاری ہے ، اعلانیہ کے علاوہ غیر
اعلانیہ لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے۔دہشت گردی کے زمرے میں بات کی جائے تو کل ہی
کراچی ایئر پورٹ بڑی تباہی سے بچ گیا، اگر ملک کے سپاہی فوراً نہیں پہنچتے
تو نہ جانے کیا ہونے والا تھا، پھر بھی لگ بھگ بیس افراد شہید ہو گئے، حملہ
تو پسپا کر دیا گیا مگر کوئی بھی حملہ آور زندہ گرفتار نہیں کیا جا سکا اس
کا افسوس رہے گا۔ کیونکہ گرفتاری کے بعد سزا ہونے سے اس طرح کے حملے رُک
سکتے ہیں۔اور حملہ آور کہیں بھی چڑھائی سے پہلے ایک بار سوچیں گے ضرور۔آج
کی گلوبل اکانومی کے دور میں پاکستان کے لئے یہ بھی نہایت اہم ہے کہ رسہ
کشی کا کھیل نہ کھیلا جائے بلکہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار
کئے جائیں کیونکہ افراد کی پسند نا پسند سے کہیں اہم دو ممالک کے رشتے ہوتے
ہیں۔ افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنا اور ملک میں امن و امان مہیا کرنا
دونوں چیزیں حکمرانوں کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔جہاں تک دہشت گردانہ
حملوں کو ذکر ہے تو اب حکومت کو سخت ایکشن لینا ہی پڑے گا کیونکہ کمیٹی
بنانا، کمیشن بنانا اور اسی طرح کے دوسرے کام بہت پرانے ہو چکے اور اس سے
امن و امان متاثر ہو رہا ہے۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان
قائم کیا جائے۔
یہ بات ہر ذی شعور جانتا اور سمجھتا ہے کہ انسانی زندگی میں خوشی اور غم کا
چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہی زندگی کا فلسفہ ہے اور جب سے دنیا وجود میں آئی
ہے ہمارے اِرد گرد یہی سب کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔لیکن انسان چاہے وہ سیاست
کہ مکین ہوں یا عام اپنی انانیت، غرور، دولت و اقتدار کے نشے میں اس حقیقت
کو اکثر فراموش کر دیتا ہے ، جبکہ سب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہر عروج کا
انجام زوال ہوتا ہے اور ہر خوشی کا اختتام غم پر ہوتا ہے۔ خود انسانی زندگی
کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی گئی ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش پر خوشیاں منائی
جاتی ہے اور اس کی موت پر غم و اندوہ کے بادل چھا جاتے ہیں۔ زندگی کی اس
اٹل حقیقت کو سمجھنے میں دیر نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اب سمجھ لینا چاہیئے
اور ان تمام باتوں کو سمجھتے ہوئے سیاست برائے سیاست کو چھوڑ کر انصاف پر
مبنی حکمرانی قائم کرنی چاہیئے جس میں انصاف ہو، امن و امان ہو، روزگار ہو،
مہنگائی کا خاتمہ ہو، اور اسی طرح کی تمام بنیادی لوازمات بھی شامل ہونا
چاہیئے تاکہ عوام بھی خوشحال رہیں اور ملک بھی ترقی کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوا
تو نقصان ملک کے تمام مذاہب اور فرقوں کو ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر
دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ عوام کو انصاف ، امن و امان ،روزگار جیسی
سہولت نہیں مل پایا، لہٰذا اب حکمرانوں کو سوچنا چاہیئے کہ کب تک یہ کھیل
کھیلا جاتا رہے گا ، کب تک عوام بلبلاتے رہیں گے، کب ان کی داد رسی کی جائے
گی؟ اب وقت آن پہنچا ہے کہ وہ تمام وعدے پورے ہوں جس کا عہد الیکشن کے
زمانے میں کیا گیا تھا۔ جو اُمیدوں کے چراغ آج تک بجھتے رہے ہیں اب اسے
جلانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ:
بدنام کر رہے ہیں ہواؤں کو مفت میں
جلتے ہوئے چراغ بجھائے ہیں آپ نے
پاکستان میں عوام کے وجود کو مسلسل ٹھیس پہنچایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ
عوام ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، ان کے جان و مال محفوظ نہیں، آئے دن
نشانہ وار قتل اور دوسرے اہداف میں لوگوں کا قتل عام ہوتا رہتا ہے۔ ہماری
ماؤں بہنوں کی عزت کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہر روز کوئی نہ کوئی
خبر میڈیا پر اس سلسلے میں بھی سَر اٹھاتا رہتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ
عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور عوام کو ہر طرح کی اذیت دی
جا رہی ہے، لوڈ شیڈنگ کی اذیت، مہنگائی کی اذیت، بے روزگاری کی اذیت، بے
امن و امانی کی اذیت، قلتِ آب کی اذیت، اس کے علاوہ بھی جسمانی، ذہنی،
سیاسی ، سماجی، تجارتی اور معاشی اذیت بھی عوام ہی بھگت رہے ہیں۔اب ہمیں
بھی اور حکمرانوں کو بھی یہ سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ان پیش آمدہ مسائل کا
حل کیا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی بد اعمالیوں کی بنا پر ان حالات
سے دوچار ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ
کچھ دوسری تدابیر پر بھی غور کریں۔ پھر انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں ہوگا کہ جب
عوام کی حکمرانی ہوگی، یا کم از کم ان کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں ہوگی۔
خدائے بزرگ و برتر اس ملک کے حالات پر، عوام کی گھمبیر مسائل سے نجات
دلائیں۔ آمین۔ |