تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

اتوار کی رات لَگ بھَگ ساڑھے 11بجے اچانک نیوز چینلز پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ شروع ہو گئیں کہ کراچی ایئر پورٹ کے جناح ٹرمینل پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ۔تھوڑی دیر بعد ہی نیوز چینلز پر آگ اور دھوئیں کے بادل اُٹھتے دکھائی دینے لگے ۔میڈیا کے رپورٹرز کواصل صورتِ حال کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کیونکہ کسی کو ایئرپورٹ کے اندر جانے کی اجازت تھی نہ باہر آنے کی البتہ یہ خبریں اا رہی تھیں کہ اے ایس ایف کے اہلکار انتہائی جرأت اور بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اُنہیں ایک مخصوص جگہ سے آگے نہیں جانے دیا جا رہا۔اگر دہشت گرد جناح ٹرمینل میں داخل ہو جاتے تو ناقابلِ تصور تباہی ہوتی ۔لَگ بھَگ رات 12 بجے فوج ، رینجرز ، اے ایس ایف اور پولیس کے مکمل کوارڈینیشن سے آپریشن شروع ہوا جو صبح ساڑھے چار بجے تک جاری رہا ۔اِس آپریشن میں تمام 10 دہشت گرد جہنم کا ایندھن بنے اور ہمارے 29 افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں اے ایس ایف کے 11 ، پی آئی اے کے 6 ، پولیس اور رینجرز کا ایک ایک فرد شامل ہے ۔باقی تمام افراد بھی ایئر پورٹ پر ہی اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔اِس آپریشن میں اے ایس ایف کے جوانوں نے اپنی جرأت ، ہمت اور بہادری کی لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جدید ترین اسلحے سے لیس دہشت گردوں کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا ۔20 منٹ کے قلیل ترین وقت میں پاک فوج ، رینجرز اور پولیس کے دستے ایئر پورٹ پہنچ گئے اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا البتہ آپریشن کلین اَپ صبح ساڑھے چار بجے تک جاری رہا ۔ آفرین ہے اُن جوانوں پر جنہوں نے قومی اثاثوں کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور سلام اُن ماؤں کو جنہوں نے وطن کی آن پر قُربان ہونے والے ایسے جَری سپوتوں کو جنم دیا ۔

کراچی ایئر پورٹ پر حملہ کرنے والے دہشت گرد انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے ۔اُن کے پاس AK 47 ، ٹرپل ٹو ، جنگ میں استعمال ہونے والے روشنی کے شَیل ، دستی بم، پٹرول بم ، ڈیٹونیٹر ، 9 آواگون گولے ، انیس ایم جیز، خود کش جیکٹس اور راکٹ لانچرزکے علاوہ خون کو فوری طور پر روکنے والے فیکٹر 8 انجکشن اور بلڈ بیگ بھی موجود تھے ۔ دہشت گردوں کے پاس چنے ،کھجوروں اور خشک روٹیوں کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کراچی ایئر پورٹ کے جناح ٹرمینل پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر کے آئے تھے ۔سوال مگر یہ ہے کہ جب 5 جون کو ہی وفاقی وزارتِ داخلہ نے ایسے دہشت گردحملوں کی حکومتِ سندھ کو اطلاع دے دی تھی تو پھر بَر وقت ایسے انتظامات کیوں نہ کیے گئے جن کی بدولت ’’سانحہ ایئرپورٹ‘‘ سے بچا جا سکتا ؟۔سوال یہ بھی ہے کہ اتنے بھاری بھر کم اسلحے کے ساتھ دہشت گرد ایئر پورٹ میں داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟۔ظاہر ہے کہ یہ دہشت گرد کراچی ہی کے کسی علاقے سے اُٹھ کر آئے ہونگے ۔کیا خون میں لتھڑے کراچی کی سکیورٹی اتنی ہی ناقص ہے کہ10 افراد اسلحے سے بھرے بھاری بھر کم بیگ کندھوں پر لٹکائے ایئر پورٹ کی جانب محوِ سفر ہوتے ہیں اور اُنہیں کسی بھی چیک پوسٹ پر روکا تک نہیں جاتا؟۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد ایئر پورٹ کے عقب میں واقع کچی آبادی سے نکل کر آئے ہونگے ۔اگر ایسا ہی ہے تو کیا کبھی کسی سکیورٹی ایجنسی کا دھیان حساس ترین علاقے کی اِن کچی آبادیوں کی طرف بھی گیا؟۔ڈی جی رینجر سندھ میجر جنرل رضوان اختر کہتے ہیں کہ کراچی میں دہشت گردوں کو روکنے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں جبکہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ کے پاس گھڑا گھڑایا جواب یہ تھا کہ وزارتِ داخلہ کی طرف سے حملے کی اطلاع تو تھی لیکن ایئر پورٹ کی سکیورٹی مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔اگر اے ایس ایف کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار نہ بن جاتے تو آج ساری دنیا کی انگلیاں ہماری طرف اُٹھ رہی ہوتیں ۔کیا اُس وقت بھی شاہ صاحب دنیا کو یہی پیغام دیتے کہ وہ اِس تمام معاملے سے لا تعلق ہیں کیونکہ سکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے پاس ہے؟۔محترم عمران خاں اِن ناقص سکیورٹی انتظامات پر طعنہ زَن ہیں اور سینئر لکھاری ہارون رشید کہتے ہیں ’’ اگر حکومت میں شرم ہوتی تو وہ مستعفی ہو جاتی‘‘۔بجا ارشاد، لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں ، اگر ہوتا تو سب سے پہلے خیبر پختونخوا کی حکومت مستعفی ہوتی جس کی آنکھوں کے سامنے طالبان بنوں جیل توڑ کر اپنے 300 ساتھیوں کو لے اُڑے ۔جی ایچ کیو ، پریڈ لین مسجد ، کامرہ ایئر بیس اور پی این ایس مہران جیسے سانحات پر کس نے استعفیٰ دیا تھا ، جو آج کوئی دیتا؟۔

وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے حملے کے اشارے ایک ملک کی طرف جا رہے ہیں جبکہ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں ’’ حملہ آور مرنے نہیں قبضہ کرنے آئے تھے اور اِس واقعے میں غیر ملکی ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔واقعے میں وہ قوتیں ملوث ہو سکتی ہیں جو پاکستان کو تنہا کرنا چاہتی ہیں ‘‘۔نام لیتے ہوئے شاید چوہدری نثار اورپرویز رشید صاحب کے ہونٹوں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردوں سے جدید ترین بھارتی اسلحہ برآمد ہوا جس کی تصدیق ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اخترصاحب نے بھی محتاط انداز میں کی۔ ہمارے وزیرِداخلہ وِ اطلاعات یہ تو جانتے ہی ہونگے کہ طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہداِس حملے کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔شاہد اﷲ شاہد نے کہا ہے ’’ طالبان نے حکیم اﷲ محسود کی موت کا بدلہ لیا ہے اور یہ ابھی ابتدا ء ہے ، مزید حملے کریں گے ۔کراچی ایئر پورٹ پر حملہ پاکستانی حکومت کے لیے پیغام ہے کہ طالبان ابھی زندہ ہیں ‘‘ اِس سے پہلے فتح جنگ میں پاک فوج کے دو کرنل شہید کیے گئے اور اُن کی شہادت کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی ۔سوال مگر یہ ہے کہ اگر ہمارے وفاقی وزراء کے بقول ایئر پورٹ حملے میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں سے بر آمد ہونے والا اسلحہ بھی بھارتی ہی ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ طالبان ایسے غیرملکی ایجنٹ ہیں جن کا نصب العین ہی پاکستان کی تباہی ہے۔اِس صورت میں طالبان کے ساتھ مذاکرات اور نرمی کا برتاؤ چہ معنی دارد؟۔ شاہد اﷲ شاہد کے اقرارکے بعد محترم عمران خاں نے اِس حملے کی شدید مذمت کی ہے اور امیرِ جماعتِ اسلامی محترم سراج الحق صاحب نے بھی ۔ شاہ محمود قُریشی کہتے ہیں ’’معصوم شہریوں کی جانوں سے کھیلنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ۔طالبان نے کراچی حملے کی ذمہ داری قبول کرکے امن تباہ کر دیا ۔پاکستان کے امن کو تباہ کرنے والوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کریں گے ‘‘۔سبھی جانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی مذاکرات کی جذباتی حامی ہیں ۔ اب جبکہ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کو بھی ادراک ہو گیا ہے اور جب چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل راحیل شریف ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاک فوج دہشت گردوں سے نپٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے تو پھر حکومت کس انتظار میں ہے؟۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی مذاکرات کی حمایت کرتا ہے تو اُس سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کس سے کیے جائیں ؟۔کیا اِن وطن دشمنوں سے جو چھپ کر وار کرتے ہیں اور دیدہ دلیری سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟۔ کیا اُن سے، جن کے دامن پچاس ہزار سے زائد پاکستانی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کے خون سے آلودہ ہیں ؟۔کیا اُن سے جو آڑ تو شریعتِ محمدیﷺ کی لیتے ہیں لیکن کردار میں ابلیسیت کے علمبردار ہیں ؟۔ کیا اُن سے جو بیرونی قوتوں کے آلہ کار بن کر اپنی ہی دھرتی کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں؟۔کیا اُن سے جن کے وجود کی بدولت پاکستان کی فضائیں ہمہ وقت خوف و دہشت سے لبریز رہتی ہیں ؟۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 644236 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More