مشرف کا معاملہ حکومت کے لیے کڑا امتحان

سندھ ہائی کورٹ نے سابق آمر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ”ای سی ایل“ سے نکالنے کے حوالے سے جمعرات کے روز درخواست مشروط طور پر منظور کی۔ درخواست گزار کے مطابق جنرل مشرف نے مختلف عدالتوں سے ضمانت حاصل کر رکھی ہے اور کسی بھی ٹرائل کورٹ نے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عاید نہیں کی، جبکہ خصوصی عدالت نے بھی ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی اور وہ جب چاہے انھیں طلب کر سکتی ہے۔ لہٰذا جنرل پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کیا جائے۔ جبکہ وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ پرویز مشرف پر بےنظیر بھٹو قتل کیس، نواب اکبر بگٹی کیس، لال مسجد اور آرٹیکل 6 کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں، وہ ان مقدمات میں عدالتوں کے روبرو پیشی سے استثنا چاہتے ہیں۔ پرویز مشرف کی درخواست بدنیتی پر مبنی ہے، اگر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کیا گیا تو وہ پھر وطن واپس نہیں آئیں گے۔ جمعرات کے روز سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مظہر علی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹائے جانے کے سلسلے میں درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی، تاہم انہیں اس عدالتی فیصلے کے مطابق حکومت یا دوسرے فریقین کی طرف سے پندرہ دن تک اپیل کے حق کا انتظار کرنا ہو گا۔ یہ اپیل حکومت یا کوئی دوسرا فریق سپریم کورٹ میں دائر کر سکے گا۔ جبکہ اس فیصلے کے اگلے روز ہی سابق صدر نے اپنے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کے توسط سے ای سی ایل کیس سے فوری نام نکلوانے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سابق صدر والدہ کی تیمار داری کے لیے جلد لندن جانا ہے، لہذا ان کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کے فیصلے پر جلد عملدرآمد کراتے ہوئے وفاق کو عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے دی گئی 15 دن کی مہلت کم کی جائے، لہٰذا عدالت سندھ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے فوری نکالنے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے آج شام چار بجے تک ملتوی کردی ہے۔ خیال رہے کہ پرویز مشروف جن پر غداری کیس کے علاوہ ملک کی مختلف عدالتوں میں کئی دوسرے مقدمات بھی ان دنوں زیر سماعت ہیں، کا نام سپریم کورٹ کے 8 اپریل 2013 کو دیے گئے ایک بالواسطہ حکم کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا۔ واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ 31 جولائی 2009 کے اپنے تاریخی فیصلے میں نہ صرف پرویز مشرف کو غاصب قرار دے چکی ہے، بلکہ گزشتہ سال ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کابھی حکم دے چکی ہے۔ 31جولائی کے فیصلے میں عدالت نے تمام شواہد اور ریکارڈز کے معائنے کے بعد دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ تنہا پرویز مشرف ہی نے 3نومبر 2007کا غیر آئینی قدم اپنی ذاتی حیثیت سے اٹھایا، جس کا واحد مقصد جسٹس وجیہ الدین کے مقدمے میں متوقع طور پر ان کے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے کو روکنا تھا۔ 31جولائی کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا تھا ”ایک بار پھر 3 نومبر2007 کو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف اپنی ذاتی حیثیت میں ایمرجنسی کے نفاذ کے پردے میں آئین کو معطل کیا، 2007 کے عبوری دستور نمبر1جاری کیا، جس کے بعد ججوں کے حلف کا آرڈر 2007 پاس کیا اور اعلیٰ عدلیہ کے 61 ججوں بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور تین ہائی کورٹس کے چیف ججوں کو جو حلف اٹھانے پر تیار نہ ہوئے یا جنہیں حلف کی دعوت نہ دی گئی، ان کو غیر فعال کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے عدالتی فیصلے کے بعد (ن) لیگ کی حکومت کا کڑا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کے مخالفین یہ توقع کر رہے ہیں کہ حکومت پرویز مشرف کو بیرون ملک نہیں جانے دے گی، مسلم لیگ (ن) کی حکومت جس کو پہلے عمران خان کے احتجاجی دھرنوں ، شیخ رشید کے آمدہ ٹرین مارچ، طاہر القادری کی 23جون کو ملک آمد اور طالبان جیسے مسائل کا سامنا ہے، پرویز مشرف کے ملک سے باہر چلے جانے کے بعد حکومت مخالفین کے ہاتھ ایک اور ایشو آجائے گا، حکومت مخالفین یہ کہیں گے کہ پرویز مشرف کا ملک سے باہر جانا حکومت مشرف کی ڈیل تھی۔ اس سے حکومت مخالفین کے ہاتھ ایک پروپیگنڈا لگ جائے گا ، جسے وہ حکومت کے خلاف استعمال کریں گے، جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی۔ ذرائع کے مطابق ان حالات کے پیش نظر حکومت کی جانب سے حال ہی میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ اس وقت کرلیا گیا تھا، جب اس بات پر بحث ہوئی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ ممکنہ طور پر پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے سکتی ہے۔ حکمران جماعت کے سینئر رہنماﺅں کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے ہٹانے کے لیے کہا تو اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ سابق آمرکو اگر کوئی رعایت دی گئی تو اس سے پاکستان میں قانون کی بالادستی کو سنگین دھچکا لگے گا اور اگر مشرف کو رعایت دی گئی تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ عوامی مفادات کے خلاف اقدام بھی ہوگا۔ یاد رہے کہ اپریل میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو غداری کیس سمیت مقدمات کاسامنا کیے بغیر ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم اگر سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو حکومت مجبور ہو گی اور سابق آمر ملک سے نکل جائیں گے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اسے سپریم کورٹ میں ہی شفاف طریقے سے حل ہونا چاہیے، اگر حکومت نے سپریم کور ٹ سے رجو ع نہ کیا اور پرویز مشرف باہر چلے گئے تو اس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملے گی کہ ملک میں بڑے لوگوں کے لیے الگ قانون اور چھوٹے لوگوں کے لیے الگ قانون نافذ ہے، ملک میں غریب لوگوں کا کوئی حال نہیں ہے، اگر کوئی چھوٹا شخص جرم کرے تو سالوں جیلوں میں سٹرتا ہے اور بڑے لوگوں کو فوری ریلیف مل جاتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے تو اپنی زندگی کو خطرات کا حوالہ دے کر وہ کسی بھی پاکستانی عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر سے سفری پابندیاں اٹھانے کے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو بڑی سیاسی جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر رضاربانی کا کہنا ہے کہ انہیں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی۔ قانون کی بالادستی کا اطلاق ہر شہری پر بلا تفریق ہونا چاہیے اور ضمن میں کسی طاقتور کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے، اگر سویلین وزیراعظم کو پھانسی دی جاسکتی ہے تو پھر دیگر افراد کو عدالتوں میں کیوں طلب نہیں کیا جاسکتا، ایک آمر کوقانون کا سامنا کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ اے این پی کے سینیئر نائب صدر حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ مشرف کو اپنے خلاف کیسز کا سامنا بہادری سے کرنا چاہیے، وہ اپنے اپ کو کمانڈو کہا کرتے تھے، اب انہیں بزدلوں کی طرح ملک سے فرار نہیں ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے مشرف کے حوالے سے سابقہ فیصلوں سے متصادم ہے۔ ماضی میں عدالت عظمیٰ ان پر سفری پابندیاں عاید کرچکی ہے۔ سینئر سیاستدانوں کے مطابق مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی کی مثال قائم ہو۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 642489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.