یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ
ذاتی لڑاائیاں لڑنے والوں اور ان کے حمائتیوں کووطنِ عزیز کی کوئی فکر ہی
نہیں ہے۔ یہاں تو عجب تماشہ یہ ہے کہ قوم کے خادم قوم کو شائد اپنا ذاتی
غلام سمجھنے لگے ہیں۔کسی فردِ واحد کی لڑائی کو ادارے کی لڑائی بنا کونسا
ایجنڈا تکمیل کو پہنچایا جارہاہے یہ بات فہم سے باہر ہے؟فی الوقت ملک کے
نظام کے ساتھ لوگ کھلواڑ کر رہے ہیں۔لوگ دفاعِ وطن کی بجائے شخصی وفاداریاں
نبھانے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوششوں میں لگے ہوے
ہیں۔زمینی خداؤں کو کل کائنات کے مالک کی پکڑ کی کوئی پرواہ ہے نہیں۔جس کی
وجہ سے ان کی ذہنی کیفیت کچھ بہتر سُجھائی نہیں دے رہی ہے۔آج ہمارے بعض
اداروں کی کار کردگی زیرو دکھائی دیتی ہے،اس کیفیت کے بے شمار ثبوت سامنے
لائے جا سکتے ہیں ۔مگر کسی پر بھی اُنگلی اٹھانے کی جراء ت ہم میں مفقود کر
دی گئی ہے۔جو لوگ دشمن سے مقابلے کے لئے سینہ سپر ہیں انہیں قوم عزت سے
نوازتی ہے۔ہندوستان سے ہماری ہمیشہ سے ہر میدان میں پنجہ آزمائی چلی آرہی
ہے۔وہ ہمیں کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دے گا۔مزا تو تب ہے جب ہمارے ادارے
اپنے دشمن کے خلاف اپنا ہنر ثابت کر دکھائیں،گھر کے معصوموں پر دست درازی
کے بجائے دشمن پر کاری ضرب لگائیں۔قوم اور جمہوری حکومتوں کو گذشتہ چھ سات
سالوں سے جن عذابوں میں مبتلا کیا ہوا ہے، ان پر بند باندھنے کی کوئی سبیل
نہیں کی جا رہی ہے۔ ہمارا سارا زور شخصی اور ذاتی لڑائیوں پر لگا ہوا ہے۔جن
پر ملک و قوم کا اربوں روپیہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے وہ نتائج کی فیصد میں
خاصے پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔دشمن خود تو نہیں مگر ہمارے بگڑے ہوے لوگوں کے
ذریعے ہم پر کاری ضربیں لگا رہا ہے۔اور ہمارے ادارے جیسے ٹرنکو لائزر کا
زیادہ استعمال کر بیٹھے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی اثاثوں پر ہونے والے تما م حملوں کی خبر گیری ہمارے
دفاعی اداروں کی ذمہ داریاں بنتی ہیں ۔مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے
کہ چاہے شارع فیصل کی مہران ایئر بیس پر چار حملہ آوروں کا 22 مئی2011
کاحملہ ہو جس میں ہمارے قیمتی ترین اربوں ڈالرکے،اورین طیاروں کو چشمِ زدن
میں تباہ کر نے کا معاملہ ہو ،جس میں ہمارے 12 سو اہلکاروں نے حصہ تو لیا
مگر اُن چار دہشت گردوں میں سے جنہوں نے ہمارے قیمتی ترین طیارے تباہ کیئے
ایک کو بھی زندہ نہ پکڑسکے۔یہ ہی کچھ پیشار کے باچا خان ائیرپورٹ پر 15
دسمبر 2012 کو ہوا اور اتوار 8 جون 2014 کاکراچی کا حال تو پوچھئے ہی نہیں
ان تمام کاروائیوں میں روسی اور ہندوستای اسلحہ و گولہ بارود کا استعمال
کیا جاتا رہا ہے ۔یہ اسلحہ کی سپلائی ا ن دہشت گردوں کو افغانستان کی سر
زمین پر سے کی جا رہی ہے۔ جہاں ہندوستانی ایجنسیوں کا گمبھیر اثر و رسوخ
دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے 24سفارتی مراکز اسی کام کے لئے تو بنائے گئے
ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایئر پورٹ کی سیکورٹی اے ایس ایف کے پاس ہونے کے باوجود
ہمارے دفاعی اداروں کا بھی اس پر کچھ نہ کچھ تو کنٹرول ضرور ہوگا ․․․․گذشتہ
واقعات کو دیکھتے ہوے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے فوجی اور سول ایئر پورٹس
ہمارے دشمنوں کے لئے سب سے آسان اہداف ہیں۔جن پر حملے روکنا ہمارے اداروں
کے بس میں ہیں ہی نہیں۔اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں کے بعض
سربراہاں اپنی ذاتی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔وہ ملک اور قوم کے لئے وہ ذمہ
داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں جن کے لئے قوم نے انہیں اس قدر عزت دی ہے۔ہمیں
یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے ایجنڈے کے علاوہ بھی کیا
کوئی اور ایجنڈا ہے؟؟؟ پاکستان کے معمولی معمولی اسٹیک ہولڈر زسے ان کی اٹک
لڑائیاں جاری ہیں ۔ان کو سمجھانے اور روکنے والے بھی شائد انہیں نظر انداز
کر رہے ہیں۔
یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ کراچی ایئر پورٹ پر حملہ مہران بیس اور
باچاخان ایئر پورٹ پر حملوں سے صد فی صد مماثل ہے۔ یہ بات بھی سامنے آرہی
ہے کہ کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گرد حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا
گیا ہے۔یہ حملہ تین جانب سے کیا گیا تھا۔دہشت گردوں نے حملے کے لئے جو وقت
مقرر کیا گیا، اس وقت اے ایس ایف اہلکاروں کی ڈیوٹی تبدیل کی جاتی ہے۔جس کی
وجہ سے اہلکار ذہنی طور پر گھر جانے کی تیاریوں میں ہوتے ہیں۔دہشت گردوں نے
ایئر پورٹ میں داخلے کا آسان راستہ تلاش کیا اور معمولی مزاحمت کے بعد وہ
انجنئرنگ گیٹ نمبر 4 سے ایئر پورٹ کے اندر 11 بجکر 15منٹ پر داخل ہونے میں
کامیاب ہوگئے۔یہ تمام دہشت گرد کہا جاتا ہے کہ اے ایس ایف کی وردیوں میں
ملبوس تھے۔ایئر پورٹ سکورٹی فورس نے دہشت گردوں پر قابو پانے کے لئے فوج
اور رینجرز کمانڈوزدستوں کو بھی طلب کر لیا تھاسیکورٹی فورسز نے ایئر پورٹ
کو گھیرے میں لیکر داخلی و خارجی راستوں کو سیل کر دیا تھااور پاکنگ ایریا
سے تمام گاڑیوں کو باہر کر دیا گیاتھا۔جب ایئر پورٹ کے اندر سیکورٹی اداروں
سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی تو یہ لوگ تمام فورسز سے سات گھنٹوں تک مقابلہ کرتے
رہے۔جس کے نتیجے میں اے ایس ایف سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے کئی اہلکار
شہید کر دیئے گئے۔مگر خوش قسمتی سے سات گھنٹوں کی کاروائی میں دس کے دس
حملہ آور دہشت گرد بھی ہلاک کر دیئے گئے۔ا ن کے علاوہ 27 سے زیادہ بے گناہ
افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔جن میں سے 8 بے گناہ افراد ہمارے اداروں کی
غفلت و لاپرواہی کے نتیجے میں کولڈ اسٹوریج میں پھنس کر ہلاک ہوے جن کو
بچایا جاسکتاتھا ۔ مگر خوف کے مارے اداروں نے ان کو بھی بچانے کی جان بوجھ
کر کوشش نہیں کی اوردم گھٹنے سے ان کی ہلاکتیں ہوئیں ۔جن کو دوسرے دن نکالا
گیا ۔یہ ہے ہمارے اداروں کی افسوس ناک بے حسی کی کاروائیاں ہیں’’کن ہاتھوں
پر ان کا لہو تلاش کریں؟؟؟‘‘اس دوران فوجی بکتر بند گاڑیوں نے ایئر پورٹ کا
محاصر ہ کر لیا تھا تاکہ دہشت گرد فرار نہ ہو سکیں۔کراچی ایئر پورٹ پر دہشت
گرد حملے کے بعد فوجی دستوں، اے ایس ایف، رینجرز اور پولس کے دستوں نے دہشت
گردوں کے خلاف کاروائیاں شروع کیں ۔وزیر داخلہ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس
کاروائی میں دو سے تیں طیاروں کو نقصان پہنچاہے۔اور ایک کار گو کنٹینر جل
گیا ہے۔ حکومت نے ایئر پورٹ واقعے کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔
یہ اطلاعات ہیں کہ دہشت گرد اپنے ساتھ خون بند کرنے ولے انجیکشن بھی لائے
تھے جو انڈین برانڈ ہندوستانی ساختہ تھے اور ان کے پاس تمام کا تمام اسلحہ
بھی ہندوستانی ساختہ تھا۔ہندوستان جی بھر کر ہمارے ملک میں کاروائیاں کر
رہا ہے مگر سمجھ نہیں آتا کہ کونسے لوگ ہیں جوہمارے اداروں کے گریبان پر
بلا جھجھک ہاتھ ڈال رہے ہیں۔انٹیلی جینس ایجنسیوں کو اپنے بنیادی کام پر
توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔انصار عباسی بھی لکھتے ہیں کہ ایجنسیوں سے درخواست
کی جاتی ہے کہ وہ مہربانی فرما کر پاکستان کی خاطر اپنے امور پر توجہ
دیں․․․․ہم کتنی بار ناکامیوں،کوتاہیوں اور مجرمانہ غفلت کی باتیں کریں
گے؟کب تک ہم اپنے فوجیوں ،پولس اہلکاروں رینجرز عہدیداروں یا دیگر قانون
نافذ کرنے ولی ایجنسیوں اور عام شہریوں کا نقصان کرتے ہوے دہشت گردی کا
مقابلہ کریں گے؟دہشت گرد جہاں مرضی چاہے آکے حملہ کر جائیں، ان مسلسل حملوں
ک باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا !!! دہشت گردی کا یہ کھیل وطنِ عزیز
میں بلا روک ٹوک کے جاری ہے۔ ہمارے اداروں کی کار کردگی صفر دکھائی دیتی
ہے۔کراچی ایئر پورٹ پر حالیہ حملوں نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کے کردار
اورصلاحیتوں پر نہایت سنجیدہ سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔حالیہ برسوں میں جنگ
جووں نے حساس دفاعی تنصیبات پر سفاکانہ حملے کئے اور بعض شخصیات تک کو ہلاک
کر دیا مگر اس کے باوجود اب تک قومی سلامتی کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا
ہے۔ دفاعِ وطن کا تقاضہ ہے کہ ہم ذاتی لڑاائیوں سے نکل کر ملک اورقوم کی
لڑائی میں یک جان ہو کر اپنے ازلی دشمنوں کا مقابلہ کریں۔اس ملک کو ایسا
حصار فراہم کریں کہ ہمارے ازلی دشمن ماضی کی طرح ہمارے اداروں سے خائف رہنے
لگیں- |