جرات و معاملہ فہمی

وقت کا کچھوا اپنی پُر اسرار رفتار کے ساتھ گامزن بجانب منزل ہے۔ بظاہر حالات جوں کے توں لگ رہے ہیں۔ اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ بیرونی دنیا مین ہمارا چہرا جیسا پہلے بھدا اور داغدار تھا ویسا ہی ہے کچھ بہتری نہیں آئی تو ہمارا یہ عام خیال بالکل غلط و خام ہے۔ جس کسی قوم کے ابتر حالات میں لگے کہ سکوت آگیا اور ہر خرابی کو روز کے معمول کا حصہ گردانا جاۓ تو بیرونی دنیا و اقوامِ عالم میں یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ لوگ نااہل ہیں، ان سے نہیں نکلا جاۓ گا ان دلدلی حالات سے۔ تو ایسے میں وہ آپ کو مدد و تعاون کے بہانے پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں، آپ ان کے ممنون و مشکور ہوۓ چلے جاتے ہیں اور احسانوں کے بوجھ تلے مزید دبتے چلے جاتے ہیں۔ آپ ان کی پیشکش کو نکارتے ہیں تب بھی وہ بُرا نہیں مناتے بلکہ آپ کا بھلا کرنے کو آپ کی سرحدوں کو پھلانگتے ہوۓ آپ کی سرزمیں پر ڈرون حملہ کرتے ہیں۔ اس کاروائی کے پچھے ہمارا بھلا کیا اور بُرا کیا؟ بس یہی ایک مسئلہ ہے کہ ہم اپنے پراۓ، بُرے بھلے، واقف اور شاطر ہمساۓ میں فرق سے نا آشنا ہیں یا یوں سمجھ لیں اس معاملے میں ہم ذرا تزبزب کا شکار ہوجاتے ہیں صورتِ حال کو ٹھیک سے بھانپ نہیں پاتے۔ نا اہل جو ٹھہرے ۔ کام کیا ہے بس ایک دوسرے پر الزام تراشی اور پھبتیاں کسنا۔

اپنی حقیر سی عقل و فہم کے مطابق میں یہ جانا ہوں کہ اس وقت ڈرون حملے کے مقاصد میں ایک تو ہے ہماری ظاہری اور جھوٹی مدد کرنا۔ دوسرا ہے اس سے فوج کو حکومت کے خلاف مزید شہ دینا تا کہ وہ حکومت کو بتاۓ کہ اگر ہم بہت پہلے خود ہی آپریشن شروع کر دیتے تو یہ نوبت نا آتی کہ امریکہ سرحد عبور کرتا اور پاکستان کی حدود میں ایسا کوئی حملہ کرتا۔ تیسرا یہ کہ انسانی و سماجی حقوق کی تنظیمیں اور ایسی سیاسی جماعتیں جو ڈرون حملوں کے خلاف ہیں وہ پھر سے سر گرم ہوں اور آواز اُٹھائیں کہ ڈرون حملے انسانی بنیاد حقوق کے خلاف ہیں۔ جب ڈرون حملے ناجائز ہیں تو آپریشن کیسے جائز ہے۔ اپنے ہی علاقے میں اپنے لوگوں کے خلاف؟
تا کہ قوم آپریشن کرنے نا کرنے کے معاملے میں کنفیوز ہو کر تقسیم ہو ؟؟
بات یہ چھڑے کہ طالبان ڈرون حملوں کا ردِ عمل و پیداوار ہیں۔ اگر ڈرون حملے نا ہوں تو امن و سکوں لوٹ آۓ گا۔
یہ سب ڈرامہ ایسے وقت میں رچانے کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے ؟؟؟

کوئی high value target تو تھا نہیں۔ بہرحال مقصد جو بھی ہو پر ہمارا بھلا تو قطعاً مقصود نہیں دکھتا۔
کم عقل سےبندے کی ڈرون حملوں کے بارے اوپر مزکوزہ تمام وجوہات غلط و خام خیالی کا مرکب ہو سکتی ہیں مگر ایک بات میں پورے وسوخ سے کہ سکتا ہوں کہ پاکستان سے زیادہ کسی کو پاکستان کا مفاد و بھلا عزیز نہیں۔ ہمیں امریکہ جیسے تمام موقع و مفاد پرستوں سے نمٹنے کی تدبیر نکالنے کی اصل و اشد ضرورت ہے۔

چند روز قبل میڈیا میں اندر کی خبریں آئیں کہ وزیر اعظم جناب محترم نواز شریف صاحب بھارت یاترا سے زیادہ مطمئن نہیں۔ میاں صاحب چاہتے تھے کہ بھارتی ہم منصب سے ہونے والی ملاقات کے بعد دو طرفہ اعلامیہ جاری ہو۔ پر ایسا نا ہو سکا۔

ادھر جب میاں صاحب کو ان خبروں کے مطلق معلوم ہوا تو بجاۓ پاکستانی میڈیا سے گلہ کرتے اور کہتے کہ براہِ کرم آپ ایسا مت کہیں، لکھیں ہم بھارت دورے سے بہت خوش ہیں۔ ایسی بے بنیاد خبروں کو نکارتے مگر میاں صاحب نے سوچا کہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں، اس سے پہلے کہ خبر ہمسائیوں تک پہنچے اور مودی صاحب بُرا منائیں کیوں نا ایک خط لکھا جاۓ اور کہیں کہ ہم آپ کی دعوت سے خوب محظوظ ہوۓ۔ ایک بار پھر سے سچے دل سے یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے دل میں ملاقات یا آپ کے بارے ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔

آگے سے مودی صاحب کو وقت ملا تو پڑھ کے منہ زبانی کہلوا بھیجھیں گے کہ میاں صاحب "same to you".

محترم وزیراعظم صاحب اتنا جھکاؤ اچھا نہیں۔ خلوص اور آپ کے نیک جزبات کی قدر سے انکار نہیں مگر مد مقابل پے بھی ذرا نگاہ ہو۔ آپ کے سامنے چین یا ترقی و ترکی نہیں کہ آپ لوٹ پوٹ ہوتے جائیں کچھ فرق نہیں پڑنے کا۔ یہاں آپ کی ذاتی قدرو منزلت ہی صرف نہیں بلکہ ملکی وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ دشمن کے سامنے ہمیشہ برابری،دلیری، ہمت و بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
یہ کمزوری و جھک جھکاؤ دکھانے سے دشمن نے آپ کو گھاس تک نہین ڈالنی۔
بہتر ہے اب کے عزت و وقار کا انتخاب کیا جاۓ۔

اللہ پاکستان کی خیر فرماۓ۔ آمین

Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 26 Articles with 18869 views A Young Poet and Column Writer .. View More