یہ بیرونی سازش ہے

لطیفہ پرانا بھی ہے اور گھسا پٹا بھی لیکن حسب حال ہے۔سنئیے اور سر دھنئیے۔سر دھننے کا مطلب ہے کہ جب یہ لطیفہ سن کے آپ کو سرور آ جائے تو آپ سر کو ہلا ہلا کے اس کی داد دیں۔ وطن عزیز میں آج کل جو جو کچھ ہورہا ہے ہم ویسے ہی ہر وقت سر دھننے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ کراچی ایئر پورٹ پہ حملہ ہوا۔ پہلی قسط میں ہم اٹھارہ شہیدوں کی عظمت کو سلام کر کے ابھی ہٹے ہی تھے کہ تین خود کش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ شکر ہے کہ یہاں ہمیں کسی شہید کی عظمت کو سلام نہیں کرنا پڑا۔ابھی مرگِ انبوہ پہ ہمارا جشن جاری تھا کہ کارگو شیڈ سے مزید آٹھ شہیدوں نے برآمد ہو کے پھر ہمیں شہیدوں کی عظمت کو سلام کرنے پہ مجبور کر دیا۔یہ لوگ ذمہ داروں کی بے حسی کا شکار ہوئے لیکن سول ایوی ایشن کے ایک نابغے نے یہ کہہ کے قصہ ہی تمام کر دیا کہ شاید انہیں پہلے ہی ہلے میں طالبان نے شہید کر دیا تھا۔کوئی ان سے پوچھے کہ چلو یونہی سہی لیکن ایئر پورٹ کو کلیئر قرار دینے سے پہلے کیا آپ نے یقین کر لیا تھا کہ قوم کو کل ملا کے کتنے شہیدوں کی عظمت کو سلام کرنے کی اطلاع دینی ہے؟

ازبکستان کی اسلامک موومنٹ نے حملہ کیا ٹھیک کیا ۔بھارت نے منصوبہ بنایا ٹھیک بنایا۔ طالبان نے ذمہ داری قبول کی وہ بھی ٹھیک کیا کہ ہم ان سے حالت جنگ میں ہیں لیکن جن لوگوں نے نمبر ٹانکنے اور نوکری بنانے کے لئے آرمی چیف اور وزیر اعظم کو آل کلیئر کی خبر دے کے دنیا کے آگے بے اعتبار کیا کیا انہوں نے بھی ٹھیک کیا؟کیا وہ بھی طالبان اور بھارت کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔میں وزیر اعظم نہیں ہوں اور نہ آرمی چیف۔ان میں سے ایک بھی عہدہ میرے پاس ہوتا تو میں اس جھوٹی اطلاع کے ذمہ داروں کو معطل یا برخواست نہیں ان کے بال بچوں سمیت ملک بدر کرتا تا کہ آئیندہ کوئی نوکری باز ہمارے ان قابلِ احترام عہدوں کے ساتھ مذاق نہ کرتا۔ ہمارے یہ دونوں عہدے دار مہربان لوگ ہیں ۔اس کے باوجود ان نالائق لوگوں کی تعریفوں کے پل با ندھ رہے ہیں۔گولی کے سامنے اپنا سینہ رکھنا اور اپنی جان ملک کی عزت کے لئے قربان کر دینا دل گردے کا کام ہے۔جنہوں نے یہ آپریشن کیا و ہ قابل ستائش ہیں لیکن جنہوں نے دنیا کے سامنے ہمیں نکو بنایا کیا وہ بھی قابل تعریف ہیں۔ ہم اہل اور نا اہل سب کی تعریفیں کرتے پھرتے ہیں اور پوری قوم ان تعریفوں پہ سر دھنتی ہے

آپ بھی کہیں گے کہ میں خبطی آدمی ہوں۔ لطیفہ میں نے درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔آپ کا بھی قصور نہیں۔جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں ان میں اب جعلی لطیفے سن سنا کے ہی ہنسا جا سکتا ہے اور تو کوئی موقع ہمارے نا اہل لیڈروں نے ہمارے لئے رہنے ہی نہیں دیا کہ ہم ہنس سکیں۔لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص صبح صبح گھر سے نکل جاتا۔سارا دن باہر رہتا اور شام کو محلے کی چوپال میں بیٹھ جاتا۔ وہاں لڑکے بالوں سے سوال کرتا۔ تمہیں پتہ ہے کہ ایئر پورٹ پہ کس تنظیم نے حملہ کیا؟ جواب نفی میں ملتا تو کہتا تم گھر سے باہر نکلو تو پتہ چلے ناں۔ پھر پوچھتا کہ آل کلئیر کے بعد تین طالبان کیسے پھٹ گئے۔جواب پھر نفی میں ہوتا تو یہی فقرہ دھراتا۔ تسی گھروں باہر نکلو تے پتہ چلے۔ لوگوں نے اس کی عظمتوں میرا مطلب ہے اس کی اطلاعات کو سلام کرنا شروع کیا۔ سوال در سوال اور سلام در سلام ۔اس کے مسلسل گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے اس کے گھر کی حالت بگڑ گئی۔ نگرانی نہ ہو تو بچے بگڑا ہی کرتے ہیں۔ بیٹا گانا سننے شاہی محلے جانے لگا اور بیٹیوں نے موبائل خرید لئے جن سے وہ محلے کے ہر نوجوان کی دسترس میں آگئیں۔اصل میں کیا ہوا وہ آپ بھی سمجھ سکتے ہیں میں اخبار میں وہ بات لکھ نہیں سکتا۔قصہ مختصر یہ کہ سارا گھر اسی کام پہ لگ گیا۔ایک دن جب وہ شخص سارے دن کی خواری کے بعد شام کو چوپال میں اپنے باخبر ہونے کی ڈینگیں مار رہا تھا تو اچانک ایک منچلے نے سوال داغ دیا۔ جناب آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے گھر میں کیا ہورہا ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو سوال پوچھنے والے نے بڑی معصومیت سے کہا کہ" تسی کدی گھر جاؤ تے تہانوں پتہ لگے"یعنی آپ کبھی گھر جائیں تو آپ کو پتہ لگے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہم ہر واقعے کے پیچھے چھپے عوامل کو واقعے کے فوراََ بعد منظرِ عام پہ لے آتے ہیں ۔تفصیل بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہیں میرے بتانے سے پہلے اس کا پتہ تھا اور پھر فاتحانہ نظروں سے سامعین کی طرف دیکھتے ہیں کہ" تسی باہر نکلو تے تہانوں پتہ لگے"یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں چن چن کے نالائق نا اہل اور نکما سربراہ بنا رکھا ہے جسے گھر کی خبر ہی نہیں۔جناب والا! شہیدوں کی عظمتوں کو سلام کر کر کے ہمارے ہاتھ شل ہو گئے ہیں ا ور بیرونی مداخلت بیرونی اسلحہ، بیرونی عوامل،بیرونی ہاتھ اور بیرونی سازش سن سن کے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ بیرونی سازش بھی ہوگی، بھارتی مداخلت بھی ہو گی لیکن آپ اس بیرونی سازش کے دوسرے دن جب پوری دنیا چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ اس میں بھارتی اسلحہ اور انجیکشن استعمال ہوئے آپ مودی کو شکرئیے کا خط لکھ رہے ہیں۔ ان انجیکشنوں کے لئے جو انہوں نے ساری دنیا کے سامنے ہمیں لٹا کے ہماری پشت میں گھونپے ہیں۔حضور والا! یہ بیرونی سازش نہیں یہ اندر ہی سے کسی نے حرامزدگی کی ہے۔ان حرامیوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ہر گلی میں ایک سولی ٹانگیں۔ انہیں مصلوب کریں طالبان کو نہیں پہلے ان کو ماریں جو تنخواہ ہم سے لیتے ہیں اور نا اہلی کی وجہ سے ساتھ طالبان کا دیتے ہیں۔

میں وزیر اعظم نہیں۔ ہوتا تو سب سے پہلے اس وزیر داخلہ کی بلی چڑھاتا جو وقوعے کی ساری رات تہجد پڑھتا رہا۔لوگ کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ ہر وقت باوضو رہتا ہے ۔میرا تو اس کی نا اہلی کی وجہ سے ہر وقت وضو ٹوٹا رہتا ہے مجھے اس کے باوضو ہونے سے کیا۔ میں قومی سلامتی کا مشیر ہوتا تو تو سول ایوی ایشن کے ڈی جی کا ناشتہ کرتا۔میں غلیل کی بجائے دلیل کے ساتھ ہونے والا وزیر اطلاعات ہوتا تو اس میڈیا کے منہ میں ایلفی ڈال دیتا جو بریکنگ نیوزکے چکر میں باقاعدہ حملہ آوروں کی مدد کر رہا تھا۔ اور میں آرمی چیف ہوتا تو کراچی کے اس اعلیٰ عہدے دار کو مثال بنا دیتا جو خود ایئر پورٹ پہ بیٹھ کے بٹالین لیول کے ا ٓپریشن کی کمانڈ کر رہا تھا۔ شکر ہے کہ میں نہ تو وزیر اعظم ہوں نہ وزیر۔ مشیر اور نہ آرمی چیف۔اس ملک کے خلاف کہیں کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ ہم نے خود اس ملک کو دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ہم نالائقوں کی نالائقی پہ قوم کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کی تعریفوں کے پل باندھے۔جب تک آپ اپنے ہم وطنوں کو اس گناہِ بے لذت پہ لگائے رکھیں گے بیرونی سازشی بھی اپنا کام کرتے رہیں گے۔غالب نے کہا تھا کہ
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسماں کیوں ہو
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291953 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More