بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردانہ حملہ کی وجہ سے ابھی تک پورا ملک سوگوار ہے۔
حملہ آوروں سے بھارتی اسلحہ، خون منجمند کرنے والے انجیکشنز اور دیگر
سازوسامان ملنے کی اطلاعات نے پوری پاکستانی قوم کوشدید غم و غصہ میں مبتلا
کررکھاہے۔ ہر شخص ا س بات پر پریشان ہے کہ بھارت میں چھوٹا سا بھی کوئی
واقعہ ہوجائے تو بغیر کسی تصدیق کے آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ہے۔ پاکستان
کے خلاف پروپیگنڈا کا طوفان کھڑا کیاجاتا ہے اوربلاجواز الزامات عائد کرتے
ہوئے بارڈر پر فوجوں کو لا کھڑ اکر دیا جاتا ہے مگر ایک ہم ہیں کہ کراچی
ایئرپورٹ پر حملہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح شواہد ملنے کے باوجود کسی
کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔وزیر اعظم سے لیکر نچلے درجے کے وزراء تک
سب خاموش ہیں اور بھارت کی ناراضگی کے ڈر سے اس کی دہشت گردی کے خلاف ایک
لفظ تک منہ سے بولنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عسکری قیادت کی جانب سے توکراچی
دہشت گردی میں انڈیا کے ملوث ہونے کی باتیں کی گئی ہیں مگر حکومت کی جانب
سے ابھی تک مکمل طور پر خاموشی ہے ۔ انڈین ہائی کمشنر کو طلب کر کے محض
رسمی احتجاج تک نہیں کیا گیا اور نہ میڈیا پر ہی بھارتی دہشت گردی کی مذمت
کی گئی۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان حالات میں کہ جب دھماکوں کی گونج ابھی
ختم نہیں ہوئی ہے۔ شہداء کے جنازے اٹھائے جارہے ہیں،ان کے ورثاء اپنے
پیاروں کے اس دنیا سے اچانک رخصت ہوجانے کے صدمہ سے نڈھال ہیں اور پاکستانی
قوم بھارتی جارحیت کے نتیجہ میں بہت بڑے نقصان کے بعد شدید دکھ اور کرب میں
مبتلا ہے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو اچانک ہزاروں مسلمانوں کے قاتل
نریندر مودی کی یادستانے لگی اورانہوں نے مودی سرکار کے نام محبت نامہ لکھ
بھیجا۔ وزیر اعظم صاحب کی طرف سے بھجوائے گئے خط میں نریندر مودی کی حلف
برداری کی تقریب اور بعد میں ہونے والے ملاقاتوں کی یادوں کو تازہ کرتے
ہوئے ان کے ’’شاندار‘‘ استقبال پر شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ خط میں انہوں نے
اپنے بھارتی ہم منصب سے دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کے لئے تمام تصفیہ
طلب معاملات مل کر حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہماری ٹھوس
کوششوں میں دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح اور ترقی پوشیدہ ہے۔ میں آپ سے
ہونے والی حالیہ ملاقات سے مطمئن ہوں اور آپ کے ساتھ دیرینہ مسائل پر ہم
آہنگی پیدا کرنے کا منتظر ہوں۔ بھارتی وزیر اعظم کو موصول ہونے والے خط میں
مزید لکھا گیا ہے کہ غربت کا خاتمہ ہمارے مشترکہ معاشی تعاون سے جڑا ہواہے
۔ میں دونوں ملکوں کی بہتری کے لئے آپ کے ساتھ غیر حل شدہ معاملات پر ہم
آہنگی پیدا کرنے کے لئے کام کرنے کا منتظر ہوں اور اس امید کا اظہار کرتا
ہوں کہ ہماری جدوجہد روشن مستقبل کی بنیاد رکھے گی۔ دونوں ملکوں میں کروڑوں
لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں جنہیں ہماری فوری توجہ کی ضرورت ہے میں
سمجھتا ہوں کہ ہماری ٹھوس کوششوں میں ہی دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح اور
ترقی پوشیدہ ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے دورہ بھارت کے دوران مودی سرکار کی جانب سے
جس استقبال کی باتیں کی جارہی ہیں وہ پوری قوم کو اچھی طرح یاد ہے۔ اہل
پاکستان تو اپنی قوم کے نمائندہ وزیر اعظم سے روا رکھے جانے والے رویہ پر
ابھی تک شرمندہ ہیں۔ خود مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی یہ باتیں میڈیا کے ذریعہ
منظر عام پر آچکی ہیں کہ وزیر اعظم دورہ بھارت کے دوران روا رکھنے جانے
والے بھارتی رویہ سے خوش نہیں ہیں۔آج کل میڈیا کا دور ہے ایسی باتیں چھپائی
نہیں جاسکتیں۔ یہ خط شاید اسی تاثر کو زائل کرنے کیلئے لکھا گیا تھا۔ میڈیا
رپورٹس کے مطابق نواز شریف کی جانب سے بھیجا گیا خط نریندر مودی کوپہلے سے
موصول ہو چکا تھا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اسے میڈیا کو اب کیوں جاری کیا
گیا؟ کیا اس سے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور
بھارتی اسلحہ ملنے کی خبروں سے توجہ ہٹانا مقصود ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جس
نریندر مودی نے دورہ بھارت کے دوران ان سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس
کانفرنس تک کرنا گوارانہیں کیا اور پانچ سوالات پر مشتمل ایک چارج شیٹ پکڑا
کر انہیں جلد حل کرنے کا مطالبہ کر دیا اسے شکریہ کا خط لکھنا بہت عجیب
محسوس ہوا اور پھر اس خط کی ٹائمنگ بہت حیران کن ہے۔ ساری عسکری قیادت
اکھٹی ہو کر وطن عزیز پاکستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی ختم کرنے کی
حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم جنہیں قوم کے
دکھ درد میں شریک ہونا اور بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے افواج پاکستان
کی پشت پر کھڑے ہونا چاہیے تھا وہ ابھی تک غاصب بھارت سے یکطرفہ دوستی کی
پینگیں بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ قوم اہل اقتدار سے سوال کرتی ہے کہ
وہ بھارت جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر صرف ہمارے ایئرپورٹ ،
افواج اور عسکری اداروں کو ہی نہیں بلکہ ہماری ایٹمی صلاحیت کو نقصان
پہنچانے کی خوفناک منصوبہ بندیاں کر رہا ہے۔افغانستان میں بیٹھ کردہشت
گردوں کو عسکری تربیت دیکر سندھ، بلوچستان ، خیبر پی کے اور ملک کے دیگر
حصوں میں پاکستانیوں کے لاشے تڑپائے جارہے ہیں ، مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی
دریاؤں پر متنازعہ ڈیموں کی تعمیرکے ذریعہ وطن عزیز کو بنجر بنانے اور ملک
میں امن و امان کی تباہی کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں‘ ایسے
بھارت کے قاتل وزیر اعظم کو شکریہ کے خط لکھنا اور کراچی ایئرپورٹ حملہ کے
شہداء کے زخموں پر نمک چھڑکنا کہاں کی عقلمندی اور کہاں کا انصاف ہے؟ غیور
پاکستانی قوم کو ان کا یہ انداز کسی طور پسند نہیں آیا۔ نریندر مودی اپنی
سکیورٹی ٹیم میں پاکستان مخالف جرنیلوں کو شامل کرکے مستقبل میں پاکستان
میں خون خرابہ کے ایک نئے پروگرام کا پیغام دے رہے ہیں مگر نواز شریف صاحب
! کو بھارت سرکار سے دوستانہ تعلقات پروان چڑھانے کی بہت زیادہ جلدی ہے۔ ان
کی پالیسی کی کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ ہم بھارت سے مذاکرات اور تجارت کے
مخالف نہیں ہیں مگر اس کیلئے انہیں بھارت کے دہشت گردانہ کردار کو کسی صورت
فراموش نہیں کرنا چاہیے۔اہل پاکستان اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ دوسری
حکومتوں کی نسبت زیادہ ترقیاتی کام کروارہے ہیں اور بجلی وغیرہ کی پیداوار
بڑھا کر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی مخلصانہ کاوشیں کر رہے ہیں مگر یاد رکھیں
ملکوں کا دفاع سب سے زیادہ مقدم ہوا کرتا ہے اور پاکستانی قوم کلمہ طیبہ کے
نام پر حاصل کئے گئے ملک کے دفاع پر کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ میں نریندر مودی کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کے مابین حل طلب
معاملات خلوص نیت سے حل کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں آپ کی نیت پر شبہ نہیں ہے مگر
آپ خود سوچیں کہ ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی اور اس کے لیڈر نریندر
مودی جو اقتدار میں آنے سے قبل ہی پاکستان کے اندر گھس کر کاروائیاں کرنے
اور مقبوضہ کشمیر میں دفعہ تین سو ستر ختم کرکے اس کی متنازعہ حیثیت ختم
کرنے کے اعلانات کرتے رہے اور اب اس حوالہ سے عملی اقدامات اٹھانے میں
مصروف ہیں ان سے آپ مسئلہ کشمیر کے حل کی کیسے توقع کر سکتے ہیں؟۔اوردوسری
جانب جب آپ خود بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی بربریت، پانیوں
کا مسئلہ اور پاکستان میں جاری بھارتی دہشت گردی کے خلاف آواز بلندنہیں
کریں گے تو اسے کیاضرورت ہے کہ وہ ان مسائل کے حل میں کسی قسم کی کوئی
سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر
نظرثانی کرے ، ملکی سلامتی وخودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کردار کا
تعین کرے اور ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس
کے بغیر پاکستان کو درپیش اندرونی وبیرونی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ |