انڈیا ٹو ڈے نے 10 جون کو ایک خبر چھاپی ، خبر کی سرخی
شاندار تھی . اخبار لکھتا ہے " اعظم خان کی بھینسوں کو بھول جائیں پاکستان
میں دو پولیس والوں کو نوکری سے نکال دیا گیا کیونکہ انہوں نے نواز شریف کے
باغیچے سے امرود توڑے ". یہ کوئی اتنی بڑی خبر نہیں کیونکہ پچھلے ہفتے کے
اختتام پر پاکستان میں حالات اس قدر گھمبیر تھے کہ ساری دنیا کی نظریں
کراچی کے عالمی ہوائی اڈے پر جمی ہوئیں تھیں . ایک افسوس ناک حادثہ جس نے
نہ صرف پاکستان کے عوام کو بلکہ دنیا میں بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو
جھنجوڑ کر رکھ دیا .
اس حادثے کے بعد کے حالات اور اوپر بیان کردہ خبر میں کیا مماثلت ہے ؟
سوچنے کی بات ہے ! آج پھر میں اپنی کہانیوں کی طرف جاؤں گا . کہتے ہیں کسی
بادشاہ کو تازہ اور رسیلے پھلوں کا شوق تھا . اس نے ایک باغ میں اپنی مرضی
کے پھلوں کے درخت لگوائے مگر وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے باغ کی
طرف آئے یا ان پھلوں سے لطف اندوز ہو ، بادشاہ نے اس باغ کی حفاظت کی ایک
ترکیب نکالی اور باغ کو جانوروں اور رعایا کی پہنچ سے محفوظ رکھنے کے لیے
اس نے دو چوکیدار اس کے باہر تعینات کرنے کا حکم دیا اور پھر اس نے ان
چوکیداروں کا انتخاب بھی خود کیا . اس نے بڑی سوچ بچار کے بعد دو چوکیدار
اس باغ کے باہر کھڑے کرنے کو کہا ان میں سے ایک اپاہج تھا اور دوسرا اندھا
.
بادشاہ نے حکم دیا کہ یہ دونوں اس کے باغ کی نگرانی کریں گے اور اندھا
اپاہج کو اٹھا کر روز باغ تک جائے گا اور وہ دن کو باغ کے باہر پہرہ دیں گے
. بادشاہ کے حکم کی تعمیل ہوئی اور باغ کی نگرانی پر معمول کے مطابق یہ
دونوں چوکیداری کے فرائض سر انجام دینے لگ گئے . ا یک دن اندھے چوکیدار نے
اپاہج سے پوچھا کہ جس باغ کی وہ حفاظت کرتے ہیں اس میں کون کون سا پھل ہے .
اپاہج چوکیدار نے جہاں تک اسکی نظر جا سکتی تھی دیکھ کر بتایا کہ باغ میں
طرح طرح کے لذیذ اور رسیلے پھل ہیں مگر بہت اونچائی پر ہیں .
اندھے چوکیدار نے اپاہج چوکیدار سے پوچھا کہ کیا کبھی اس نے یہ پھل کھائے
ہیں ، اپاہج چوکیدار نے اندھے کو بتایا کہ آخری بار اس نے ایسے پھلوں کے
بارے میں اپنے باپ کی زبانی سنا تھا مگر کھائے کبھی نہیں . اندھے نے اپاہج
کو مشورہ دیا کیوں نہ وہ جب شام کو جانے لگیں تو کچھ پھل توڑکر لے جائیں .
اپاہج نے اندھے کو تنبیہ کی کہ اگر بادشاہ کو اس بات کا علم ہو گیا تو ہم
کسی اور پر الزام لگا دیں گے . اس نے کہا کہ بادشاہ کو پتہ ہے کہ میں چل
نہیں سکتا اور تم دیکھ نہیں سکتے . اس لیے ہم پر کوئی شک نہیں کرے گا .
ایک روز اپاہج اندھے پر سوار ہوا اور جہاں تک اس کا ہاتھ گیا اس نے پھل
اتارے اور گھر لے گئے . بادشاہ ایک روز اپنے باغ میں آیا اور اسے ٹوٹی ہوئی
ٹہنیاں نظر آئیں . اس نے چوکیداروں سے پوچھا کہ باغ میں کون آیا تھا .
اندھے نے جواب دیا کہ حضور میں دیکھ نہیں سکتا اور میرا ساتھی اپاہج ہے .
ہم کبھی یہاں سے اندر نہیں گئے اس لئے ہمیں کچھ علم نہیں . بادشاہ چوکیدار
کی بات مان گیا اور اس نے تحقیقات کے لیے ایک ٹیم بنا دی .
مجھے نہیں پتہ کہ اس بادشاہ کی تحقیقاتی ٹیم نے کبھی اس چوری کا سراغ لگایا
ہو گا مگر جو حادثات پاکستان میں پیش آرہے ہیں ان کا کبھی بھی کوئی سراغ
نہیں لگا پائے گا . حکمرانوں کی تلواریں ہمیشہ مظلوموں اور غریبوں کے لیے
ہی میان سے نکلتی ہیں . جس روز سے کراچی والا حادثہ پیش آیا ہے ایک عجیب
بیہودہ بحث نے بھی طول پکڑ لیا ہے . کوئی سنجیدگی سے ان مسائل اور دہشت
گردوں کی دہشت پھیلانے کی اہلیت کو سمجھ نہیں پا رہا . ہمارے تجزیہ کار پھر
سے پاکستان کا موازنہ امریکہ اور یورپ سے کر رہے ہیں اور ایک محکمہ دوسرے
اور ایک وزیر دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہا ہے .
مرکزی حکومت صوبائی حکومت پر الزام لگا رہی ہے اور وہ سارے کہ جن میں وہ
کالم نگار بھی شامل ہیں کہ جنھیں دفاعی امور کی الف ب کا بھی علم نہیں فوج
اور ایجنسیوں پر تنقید کر رہے ہیں . وزیر اعظم کے باغ کے امرود کی خبر وزیر
اعظم یا ان کے پروٹوکول سٹاف کو ہو جاتی ہے مگر جو بات پچھلے دس سے پاکستان
کی سالمیت کے لیے ایک چیلینج ہے نہ تو نواز شریف کو سمجھ آ رہی ہے اور نہ
ہی وزارت داخلہ کو . پاکستان میں ایسے عقلمندوں کی حکومت ہے جو موم جما کر
بگلا پکڑنے کی کوشش میں لگے ہیں . الیکشن کمپین میں میاں نواز شریف نے ایک
خطاب میں کہا تھا " اگر الله نے مجھے موقع دیا تو میں اور شہباز شریف اندر
نہیں بیٹھیں گے ، ہم یہاں باہر عوام میں ہونگے تا کہ مسائل کا حل نکالا
جاسکے " سال بھی نہیں گزرا اور نواز شریف اپنے باغیچے کے امرودوں کے لیے
پریشان ہو گئے . نواز شریف اگر عوام میں جاتے اور اگر وہ بسوں ، انجنوں اور
ماہرین کی درآمد سے تھوڑا وقت نکالتے تو شائد کراچی جیسے حادثات سے پاکستان
محفوظ رہتا .
حکمران قبیلے کے سربراہ اور گھر کے اس بڑے فرد کی طرح ہوتا ہے جو اپنے عوام
کی ضرورتوں کو اپنی عیاشیوں سے زیادہ اہمیت دیتا ہے مگر یہاں تو حالات ہی
مختلف ہیں . ایک بار کسی عدالت میں ایک روہنگا مہاجر نے عدالت میں بنگلہ
دیشی پاسپورٹ پیش کیا جو اس نے کسی طرح سے چٹا گانگ سے منگوایا تھا .سرکاری
وکیل نے بحث میں کہا کہ اس شخص نے دبئی سے سفر کرنے کے لیے پ پاکستانی
پاسپورٹ کا استعمال کیا تھا لہذا اسے پاکستانی شہری تسلیم کیا جائے .
روہنگا مہاجر نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ پاکستان ڈی پورٹ ہونے کے بجائے
برما لوٹنا پسند کرے گا کیونکہ پاکستان میں وہ کسی دہشت گرد کے ہاتھوں مرنے
سے اپنی مٹی پر مرنا بہتر سمجھتا ہے . اگر نواز شریف کے وزیر امرود چوروں
کو پکڑنے کے بجائے کچھ اچھا کام کر لیتے تو آج پاکستان میں صورتحال بہتر
ہوتی . ایسے لگتا ہے نواز شریف ، نیریندر مودی ، جیو ٹی وی ، پی سی بی .
پیمرا اور رائے ونڈ کے امرود ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں .
کانوں کی میل صاف کرنے کے لیے کراچی صرف ایک ٹریلر ہے اگر ابھی بھی نواز
شریف صاحب نے پریوار ملاپ کا پیچھا نہ چھوڑا اور امن کی آشا کا دیپ گھر میں
نہ جلایا تو نہ رہیں گے امرود اور نہ وہ چوکیدار جو اندھے اور اپاہج ہیں
بگلے کو موم ڈال کر جمانے کی بجائے اگر میاں نواز شریف ایک خانہ شماری یا
مردم شماری کا فوری حکم دیں اور افغانوں کو واپس افغانستان بھجوانے کے
احکامات وزات داخلہ کو دیں تو بہتر ہو گا .
کسی کو نہیں پتہ کہ کس شہر میں کتنے افغان ہیں ، کسی کو علم نہیں کہ ایک
بلدیہ میں کتنے گھروں میں کرائے دار رہتے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ جو کراچی،
لاہور ، اسلام آباد ، پشاور اور کوئٹہ میں اپنے دھندے چلا رہے ہیں کس ملک
سے آئے ہیں . کیا بلدیاتی الیکشن ضروری نہیں ہیں . کیا اس بات کی ضرورت
نہیں ہے کہ پولیس کے نظام کو مضبوط کیا جائے اور سفارشیوں کو فوری طور پر
گھر بھیجا جائے . تجزیہ کار سٹوڈیو کے شیر ہیں ، جہاں اے سی لگا ہوتا ہے ،
جہاں گرما گرم چائے ملتی ہے اور جہاں وہ کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتے
رہتے ہیں . اصل صورتحال خوفناک ہے . پاکستان میں کوئی ادارہ آزاد نہیں ، سب
کو ڈر ہے کہ کہیں میاں برادران ناراض نہ ہو جائیں . کیا شہدائے پاکستان کے
خاندان اس بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ ان کے پیاروں کے قاتلوں کو ان کے
حقیقی انجام تک پہنچایا جائے .
کیا مردم شماری اور افغانوں کا انخلا بہت بڑا مسئلہ ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں
کہ ان افغانوں نے حکومت پر بھی پیسہ لگایا ہوا ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ
مردم شماری سے جعلی ووٹر سامنے آجائیں گے . یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے
حکمران اندھے اور اپاہج ہیں ، ان کو ان کےا مرود عزیز ہیں مگر انھیں اس
پاکستان کی فکر نہیں ہے جس کا ہر اک حصہ زخم خردہ ہے . کیا سارے پاکستانی
برما چلے جائیں اور سارے سیاستدان اپنے اپنے باغیچے لگا کر بیٹھ جائیں یا
پھر دہشت گردوں کو ایک سرکاری اشتہار کے ذریعے یہ پیغام دے دیا جائے کہ آؤ
پاکستان پر حملہ کرتے رہو مگر رائیونڈ اور لاڑکانہ نہ آنا کیونکہ ہمیں یہاں
ہمارے باغیچے بہت عزیز ہیں .
عزت اور غیرت بڑی دولت ہوتی ہے . جتنے محافظ پاکستان کے سیاستدانوں نے
گھروں میں رکھے ہیں اتنے سے تو ایک شہر آباد ہو سکتا ہے . کیا عوام امرود
بھی نہیں کہ ان کی حفاظت نہ کرنے پر کسی پولیس فورس کو یا کم از کم کسی
وزارت کے وزیر کو گھر بھیجا جا سکے . آجکل فٹ بال کے عالمی کپ کا مقابلہ ہو
رہا ہے ، اور آج برطانوی اخبارات میں اور ٹی وی چینلوں پر ایک خبر بڑی گرم
ہے کہ لیبر پارٹی کے لیڈر نے سن اخبار ہاتھ میں تھام کر ایک تصویر اتروائی
جسمیں ان لوگوں کی تصاویر تھیں جوہلز برا میں ایک فٹبال میچ میں حادثے کا
شکار ہوے . عوام ناخوش ہیں کہ وزیر موصوف نے اس اخبار کے ساتھ تصور کیوں
اتروائی جو اس حادثے کے وقت مرنے والوں کے بارے میں غلط رپورٹنگ کرتا رہا .
لیبر پارٹی کے لیڈر کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے باضابطہ معافی
مانگی مگر اس سے پہلے ان کی پارٹی میں ہی احتجاج سامنے آیا اور لیورپول میں
اس کی پارٹی کے کونسلر نے پارٹی سے احتجاج کے طور پر علیحدگی اختیار کر لی
. اگر پاکستانی اشرافیہ اور حکمرانوں بشمول کالم نگاروں نے موازنہ کرنا ہے
تو ان چیزوں سے کریں ، عزت اور غیرت میں ، قومی سلامتی کے امورمیں اور عوام
کی بہبود میں . آپ جتنے مرضی بھی بگلے پکڑتے رہیں آپ سے امرود چوروں کے
علاوہ کوئی نہیں پکڑا جائے گا . |