گرمی کی شدت ہر ایک کو شہروں کی تپش سے ٹھنڈے پہاڑی
علاقوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ جون کا نام سنتے ہی مجھے کشمیر اور مری کی
ٹھنڈی ہوائیں ستانے لگتی ہیں۔گزشتہ ہفتے مجھے راولاکوٹ، باغ اور دھیر کوٹ
جانے کا اتفا ق ہوا۔ میری تو پوری زندگی اسلام آباد اور باغ کے درمیان سفر
کرتے گزری ہے لیکن یہ سفر زندگی کا خوشگوار اور حسین سفر بنا۔ سفر کی
منصوبہ کرنے کے دوران ہمارے نئے نئے دوست انجنئیر شاہد کھٹانہ ، لیکچرر
کامسٹ یونیورسٹی اسلام آباد سے پوچھا کہ آپ سویڈن تک کی دنیا تو دیکھ آئے
ہیں لیکن کشمیر کب دیکھو گے، وہ تیار ہوگئے اور مجھے بھی رفیق سفر مل گیا۔
جمعہ کے دن گیارہ بجے اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ کہوٹہ تک کے مناظر شاہد کے
لیے جانے پہچانے تھے لیکن کہوٹہ سے شاہراہ کشمیر پر نکلتے ہی شاہد دہنگ رہ
گیا کہ ہمارا پاکستان اتنا خوبصورت بھی ہے۔ اگلے دو دن تک کا ہر لمحہ شاہد
صاحب کے لیے نئی دنیا کی دریافت تھی۔ راولاکوٹ پہنچتے ہی شاہدکو کشمیر کے
حقیقی معنی سمجھ آنے لگے، جون کے مہینے میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے اسے یہ
کہنے پر مجبور کردیا کہ یوں لگتا ہے کہ ائیرکنڈیشن ایریے میں پہنچ گئے ہیں۔
راولاکوٹ قدرتی حسن کا شہکار ہے، سرسبز پہاڑوں کے دامن میں چمکتا دھمکتا
شہرجدت اور قدرتی مناظر کا حسین امتزاج ہے۔ ہمیں راولاکوٹ میں یتیم بچوں کے
ایک ادارے ’’آغوش‘‘ جانا تھا۔ جہاں ایک تنگ سی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر مشکل مرحل
طے کرکے پہنچنا پڑا۔ آغوش کا نام تو میرے لیے مانوس تھا لیکن شاہد صاحب کو
کچھ تعارف راستے میں کروادیا تاہم آغوش کی خوبصورت عمارت کے مین گیٹ سے
داخل ہوتے ہی اس کا حقیقی تعارف ہونا شروع ہو گیا۔ بلڈنگ کی خوبصورتی،
صفائی اور لے آوٹ کی عمدگی نے میرے تجسس میں اضافہ کردیا۔ مرکزی دروازے سے
داخل ہوتے ہیں سامنے ایڈمن بلاک میں ادارے کے ایڈمنسٹریٹر سجاد صاحب سے
ملاقات ہوئی، وہ تین چار بچوں کے کے درمیان میں جھکے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ کر
کچھ اندراج کر رہے تھے۔ بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور منتظم اعلیٰ کے ساتھ
ان کی اپنائیت سب سے زیادہ متاثر کن تھی۔ مختصر تعارفی نشست کے بعد ہمیں
ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں خواتین اساتذہ بچوں کو ہوم ورک کروا رہیں
تھیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس ادارے میں ۵۲ یتیم بچے مقیم ہیں۔ دن کے وقت یہ
کشمیرکے معروف تعلیمی نیٹ ورک ’’ریڈفاونڈیشن سکول‘‘ میں تعلیم حاصل کرتے
ہیں اور سہ پہر کو خواتین اساتذہ انہیں ہوم ورک کرواتی ہیں۔ چمکتے دھمکتے
چہروں اور بہترین لباس میں ملبوس کوئی بھی بچہ یتیم محسوس نہیں ہورہا تھا۔
چند منٹ ان بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد ہم کمپیوٹر لیب میں گئے جہاں پندرہ
سے زائد کمپیوٹرز دیگر سہولتوں کے ساتھ موجود تھے، دوسری طرف بچوں کی کتب
پر مشتمل لائبریری تھی، جس میں تین سو کے لگ بھگ کتب میسر تھیں۔ یہاں سے
فارغ ہوکر ہم نے پلے گراونڈ میں کچھ وقت گزارا اور مستقبل میں ادارے کی
توسیع کے بارے میں معلومات لیں۔ پلے گراونڈ کے ساتھ ہی بچوں کی رہائش گائیں
تھیں۔ اس عمارت میں داخل ہوتے ہوئے احساس ہوا کہ ہم کسی تھری سٹار ہوٹل میں
موجود ہیں۔ صفائی، ستھرائی کے بہترین انتظام کے علاوہ بچوں کی رہائش گاہ کی
جملہ ضروریات سے اندازہ ہوا کہ یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہی ہے۔ دوسری طرف ایک
خوبصورت سے مسجد ہے، جہاں ان بچوں کے علاوہ اہل محلہ بھی مستفید ہوتے ہیں۔
مسجد کے سامنے بچوں کے لیے مختلف طرح کے جھولے لگے ہوئے تھے۔ عصر سے مغرب
تک بچے ان جھولوں اور پلے گراونڈ میں کھیل کود کرتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے اس
مطالعاتی دورے نے ہمیں بہت کچھ دیکھنے اور سوچنے کو دیا۔ اس گئے گزرے دور
میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ بے سہارا بچوں کا
سہارا بھی بنے ہوئے ہیں۔
ہماری اگلی منزل الخدمت ہسپتال باغ تھی، اس لیے جلدی سے راولاکوٹ کی ٹھنڈک
سے محروم ہو گئے اور ارجہ کی طرف نکل گئے۔ شب برات کی وجہ سے آغوش کے بچے
اپنے گھروں کو جا رہے تھے، ان میں سے دو بچے ہمارے ساتھ پانیولہ تک گئے۔ جن
سے آغوش کے بارے میں تفصیلی معلومات ہوئیں۔انجنئیر شاہد کھٹانہ محو حیرت
تھے کہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں کتنے صاحب ثروت لوگ ہیں لیکن اس طرح
کا کوئی ادارہ دیکھنے کو نہیں ملا۔باغ پہنچنے تک میں شاہد صاحب کے سوالوں
کے جواب دیتا رہا۔الخدمت ہسپتال باغ، زلزلے کے فورا بعد قائم ہوا تھا، تب
سے آج تک وہاں خدمت کا سفر جاری ہے۔ ہسپتال کی بلڈنگ کی تزئین و آرائش اور
معمولی توسیع کا کام جاری تھا۔ ہسپتال کے مختلف شعبہ جات دیکھے، وہاں جنرل
او پی ڈی، میڈیکل سٹور، لیبارٹری، گائناکالوجسٹ اور آپریشن تھیٹر تک سب کچھ
میسر تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ چند سال پہلے آتشزدگی کے باعث ہسپتال کی عمارت
اور جدید ترین آلات سمیت سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا تھا، یہ ہسپتال گزشتہ دو
سالوں سے دوبارہ بحالی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس کے باوجود وہاں ایک
شفاخانے کی ساری سہولتیں میسر تھیں اور عملہ بھی ہمہ وقت دستیاب رہتا ہے۔
ابھی تک ہسپتال کے کچھ شعبے ٹین کی چادروں سے بنے ہوئے کمروں پر مشتمل تھے،
جو زلزلے کے وقت تعمیر کیے گئے تھے۔ یہاں سے فارغ ہوتے ہی ہم آغوش باغ کی
طرف روانہ ہوئے، جو یہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ عمارت بھی
راولاکوٹ آغوش کی طرح صاف ستھری، بچے بھی خوش و خرم اور پر اعتماد تھے۔ یہ
وقت بچوں کے کھیل کود کا تھا، اس لیے سب بچوں سے کھیل کے میدان میں ملاقات
ہو گئی۔ آغوش کی عمارت کو اندر سے دیکھا، مسجد میں نماز ادا کرنے کا موقع
بھی ملا۔ یہاں ۵۴ یتیم بچے مقیم ہیں، جن میں پہلی جماعت سے ساتویں جماعت تک
کے طالب علم ہیں۔ جو ریڈ فاونڈیشن سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ادارے
میں قیام پذیر ہیں۔ یہ بھی حسن انتظام کی عمدہ نظیر تھی۔
رات کو باغ قیام کرنے کے بعد ہمیں ہفتے کے دن دھیر کوٹ میں الخدمت فاونڈیشن
کے زیراہتمام اجتماعی شادیوں کے پروگرام میں شریک ہونا تھا۔ دھیرکوٹ اپنے
موسم اور قدرتی حسن کے اعتبار سے منفرد ہے۔ جنگلات ریسٹ ہاوس میں اجتماعی
شادیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہم کچھ تاخیر سے پہنچے ، ہمارے پہنچنے تک
مجلس سج چکی تھی، سٹیج پر دس دلھے سفید لباس، گلوں میں مالا سجائے فروکش
تھے۔ شادیوں میں شرکت تو بہت کی ہے لیکن دس بارہ نوجوانوں کی مشترکہ شادی
کی تقریب میں شرکت کرنے کا پہلا موقع تھا۔ دوسری طرف خواتین کے پنڈال میں
دلھنیں بھی موجود تھیں۔ تقریب نکاح کے علاوہ طویل خطابات سننا بھی ایک کام
تھا، سو وہ بھی کیا۔ اس کے بعد نئے جوڑوں کے لیے شادی کے تحارئف سجا کر
رکھے گئے تھے، جن میں بیڈ، بسترے، کپڑے، کراکری، واشنگ مشین، سلائی مشین
سمیت تقریبا ستر ہزار روپے فی کس مالیت کے تحائف تھے ، جو کراچی سے سابق
ناظم نعمت اﷲ خان صاحب نے بھیجے تھے، نعمت اﷲ خان کشمیر سے خاص محبت رکھتے
ہیں، خرابی صحت کی وجہ سے خود شریک نہیں ہوسکے البتہ انہوں نے اپنی دعاؤں
اور تحائف سے کشمیری بیٹیوں کے گھر بسانے کی سعادت حاصل کی ۔آخر میں دعوت
ولیمہ کا اہتمام تھا، وہ بھی بہت خوب تھا۔ اس تقریب میں امیر جماعت اسلامی
آزادجموں کشمیر عبدالرشید ترابی صاحب مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے۔
اس خوشگوار سفر کے دوران سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ ان مثالی
خیراتی اداروں (آغوش راولاکوٹ، الخدمت ہسپتال باغ، آغوش باغ) کو حکومت
آزادکشمیر کا تعاون حاصل نہیں ہے۔ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ اگر کوئی
ادارہ کر رہا ہے تو حکومت کو ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ اب آغوش کے اداروں کی
توسیع کے لیے مزید اراضی درکار ہے، جو حکومت خالصہ سرکار سے باآسانی فراہم
کرسکتی ہے۔ الخدمت ہسپتال جو گزشتہ نو سالوں سے سرگرم عمل ہے ، کو ابھی تک
زمین کی الاٹ منٹ نہیں مل سکی۔ کتنی تکلیف دہ صورت حال ہے۔ حکمران خود تو
کچھ کرتے نہیں بلکہ سرکاری وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں لیکن ان
جیسے مثالی اداروں کی سرپرستی سے بھی عاری ہیں۔ آخر لوگ ان سے پوچھتے کیوں
نہیں؟ یہ سوالات اب اٹھنے چاہیے۔
اسلام آباد واپسی کے دوران ہم مری ایکسپریس وئے پر زیر تعمیر ’’آغوش
پراجیکٹ‘‘ کو دیکھنے کے لیے چند منٹ رُکے۔ آغوش کمپلیکس مری، اسلام آباد
مری ایکسپریس وئے پر اسلام آباد سے تقریبا ۳۰ منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہ ۵۰
کنال اراضی پر مشتمل منصوبہ ہے۔ جہاں آغوش اٹک، راولاکوٹ اور باغ سے فارغ
ہوکے آٹھویں جماعت تک پہنچ جائیں گے انہیں یہاں منتقل کیا جائے گا اور ایف
ایس سی تک تعلیم دی جائے گی۔ یہ منصوبہ ایک ارب روپے مالیت کا ہے، جواگست
2015 تک فنگشنل ہو جائے گا۔ مجموعی طور پر یہاں پانچ سو بچوں کی رہائش اور
تعلیم کا انتظام ہوگا۔ آغوش یتیم بچوں کی کفالت کا منفرد ادارہ ہے۔ مری اور
آزادکشمیر کے سفر پر جانے والوں کو ان اداروں کے لیے چند لمحات نکالنے
چاہیے۔
|